قدرتی آفات ہوں ،موسم کے تھپیڑے ہوں ، حیوانی حملے ہوں، سرکاری اجارہ داریاں ہوں، یا پھر بے مہرانسان کی کارستانیاں، گجر بکروال طبقے نے ہر وار کو اپنے سینے پہ سہا ہے ۔ یہی ایک واحد طبقہ ہے جس نے کوہساروں ،جنگلوںاور صحراؤں کو اپنا مسکن بنایا اور ان کی شان کو برقرار رکھتے ہوئے ان کی حفاظت بھی کی۔ مال مویشیوں کے چارے کی خاطر جنگلوں اور پہاڑوں کے نزدیک ان کا رہنا اُن کی مجبوری ہے۔ اکیسویں صدی کے اس ترقی یافتہ دور میں یہ طبقہ زندگی کی بنیادی سہولیات جیسے بجلی پانی سڑک سے محروم چلا آرہاہے ۔اس تیز رفتار دور میں جہاں آج انسان گاڑیاں کیا ،ریلیں کیا ،زندگی کی دوڑ میں تیز رفتاری کوبرقراررکھنے کے لیے ہوائی سفر کو ترجیح دیتا ہے۔ وہاں اس طبقے کے لوگ ابھی بھی کئی کئی کلومیٹر پیدل چلنے کے بعد کسی گاڑی کا د یدارکر پاتے ہیں ۔بارش ہو، برف باری ہو ،آندھی ہو، طوفان ہو، یا کہ سرحد کی گولہ باری ہو،فرقہ وارانہ تشدد کے شعلے ہوں ، ہر جگہ اس طبقے پر عتاب ٹوٹتا رہاہے ۔حالیہ برف باری میں سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان اسی طبقے نے اٹھایا ہے۔ کیوں ؟ کیونکہ یہ لوگ وہاں رہتے ہیں جہاں پہ سڑک بجلی ،پانی اور طبی سہولیات کا فقدان ہوتا ہے،جن دورافتادہ علاقوں سے انتظامیہ کی تغافل شعاری شروع ہوتی ہے اورجن علاقوں میں ہر نوع کی سہولیات کا فقدان ہوتا ہے، وہاں پر ہی ان کم نصیبوں کا بسیرا ہوتا ہے۔یا یوں کہہ لیجئے کہ جہاں سرکاری اسکیموں کا فیضان ختم ہوتا ہے ،وہاں سے گجربکروال بستیاں شروع ہوتی ہیں۔ دور دراز علاقوں میں طبی سہولیات معدوم ہونے یا کم یاب ہونے کی وجہ سے بھی اس طبقے کے لوگ اپنی جانیں گنوا دیتے ہیں۔ہر سال ہر ضلع بورڈ میٹنگوں میں ٹرائبل سب پلان کے تحت کروڑوں روپے مختص رکھے جانے کے اعلانات کئے جاتے ہیں ا وربیانات جاری کئے جاتے ہیںلیکن پتہ نہیں وہ رقومات پھر جاتی کہاں ہیں۔
اگر اتنی رقومات مرکزی سرکار گجر بکروال طبقے کی فلاح و بہبود کے لئے بجٹ میں مختص کر تی ہے ،تو پھر اس رقومات سے زمینی سطح پر نظرآنے والا کوئی کام کیوں نہیں ہوتا۔اس طبقے کی پسماندگی دور کیوں نہیں ہوتی ؟ اس طبقے کی بستیوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان کیوں جاری وساری ہے؟ اس کھرد برد کے ذمہ دار کون لوگ ہیں؟ اس طبقے کو ہر سیاسی پارٹی نے ہمیشہ ووٹ بنک کے طور پر استعمال کیا ، لیکن اس کی فلاح و بہبود کے لئے کسی بھی سیاسی پارٹی نے سچے دل سے کام کیا نہ کرنا چاہتی ہے۔اب وقت کی اذان یہ ہے کہ اس طبقے کافرد فرد بیدار ہو۔انہیں اپنے حقوق کے لئے پہلے اپنا اور پھر ایسی سیاسی پارٹیوں کا محاسبہ کرنا ہے۔ہمارے پاس حق اطلاعات کا قانون (آر ٹی آئی) ہے، اگر واقعی اس طبقے کی فلاح و بہبود کے لئے اَربوں کی رقم مختص رکھے جانے کے اعلانات ہوتے ہیں تو پھر وہ رقم خرچ کہاں اور کب ہوتی ہے ، اس کیلئے ہمیں اس قانون کا استعمال کرتے ہوئے جاننا ہو گا کہ عوام کے ذریعے دی گئی ٹیکس کی رقوم عوام پر خرچ کرنے کے بجائے کہاں جاتی ہیں؟ اربا ِ ب ِاقتدار کی جانب سے بڑے بڑے دعوے کرنے کے باوجود گجر بکروال بستیوں میں اس جدید دور میں بھی موہری کلاروس( ضلع کپواڑہ) جیسے علاقوں جیسی کہانیاں کیوں بنتی ہیں ۔ یہاں امسال جنوری مہینے کی ٹھٹھرتی سردی میں ضلع کے دور دراز علاقے موہری کلاروس سے ہی ثریا نامی حاملہ عورت کئی کلومیٹر پیدل سفر کرنے کے بعدمقامی ہسپتالوں کی طرف سے انکار کے بعد جب لل دید ہسپتال سرینگرپہنچتی ہے تو اس کے ساتھ وہاں کا عملہ مبینہ طور بدسلوکی کرکے ہسپتال میں داخل ہی نہیں کر تے کہ نتیجے کے طور وہ بدنصیب منفی دس ڈگری میں سرراہ کھلے آسمان تلے اپنی بچی کو جنم دینے پہ مجبور ہوتی ہے، ستم بالائے ستم یہ کہ نوزائیدہ بچی اس سنگ دل دنیا میںپیدا ہوتے ہی نقطہ انجماد کو پار کر گئی ٹھنڈ سے برلب سڑک مر جاتی ہے۔
ایک ڈاکٹر جس کو مسیحا کا درجہ دیا گیا ہے، جب اس نے اَنا پرستی میں بہک کر اپنے پیشے کی لاج اور تقدیس بھی نہیں رکھی ، تو باقی لوگوں سے کای توقع کیجئے۔ذرا یہ وائٹ کالر لوگ اپنے آپ کو ان بدحال لوگوںکی جگہ رکھ کر دیکھیں اور سوچیں کہ اگر ان کے ساتھ اتنی دور سے آنے کے باوجودایسی سنگ دلی کامظاہرہ کیا جائے تو یہ کیا کریں گے۔ہاں یہ جفاکش طبقہ لوگ ریچھوں جیسی ہمت رکھتا ہے، کیونکہ جن دشت و بیابان میں یہ لوگ کسمپرسی اور بے نوائی کی زندگی گزارتے ہیں وہاں انسان نہیں ریچھ ہی رہ سکتے ہیں ۔ وہاں زندگی گزارناکسی عام انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ ہم مانتے ہیںاو ر جانتے بھی ہیں کہ سب ڈاکٹر ایسے نہیں ہوتے جیسے ثریا کو ملے بلکہ زیادہ تر اپنے فرائض اچھی طرح سے انجام دیتے ہیں مگر ایک گندی مچھلی سارے تالاب کو گندا کردیتی ہے ۔ خیر اس میں دوارائے نہیں کہ ڈاکٹر ی پیشہ دُکھی انسانیت کی خدمت کا دوسرانام ہے ۔ اور ہاں ہمارے یہ جو قوم کے ٹھیکیدار اور جھوٹ موٹ کے غم خوار بنے پھرتے ہیں ،اُن سے بھی کبھی ان پہاڑوں اور جنگلوں میں تمام بنیادی سہولیات سے محروم زندگی گزارنے کا تجربہ کروانا چاہیے تا کہ ان کی موٹی کھال میں بھی یہ احساس اُتر جائے کہ گجر بکروال طبقہ کس احساس ِ محرومی میں جیتے ہیں ۔ ان کوتاہ قسمت لوگوں کی مظلومیت پر مگر مچھ کے آنسو بہانے سے یہ لوگ ووٹ حاصل کرتے ہیں اور پھر اقتدار کی کرسی پر بیٹھتے ہی شہر کی پاش کالونیوں میں اپنی کوٹھیاں ، بنگلے اور بینک بیلنس بنانے میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔ یہ نہیں جانتے کہ جن لوگوں کی نمائندگی کا یہ دعویٰ رکھتے ہیں وہ کن کن بُرے حالات میں موت سے بدتر زندگی جی رہے ہیں۔ صرف سرکاری کاغذوں اور موٹی موٹی فائیلوںمیں موبائل اسکول ، شفاخانے ، راشن گھاٹ اور مواصلاتی سہولیات وغیرہ کا بھرم رکھنے سے گجر بکروالوں کی ترقی نہیں کہلاسکتی۔ راشن کے نام پہ ان بے آسرالوگوں کو ٹھگنے سے اس قوم کی ترقی نہیں ہوگی۔ صرف شیڈول ٹرائب کوٹے کے لالی پاپ والے اخباری بیانات جاری کر نے کانام اس طبقے کی ترقی نہیں ۔وزیراعظم آواس اسکیم کی لالچ کے نام پر ٹھگنے سے کیا خاک ترقی ہو گی؟جب ان لوگوں کے پاس سٹیٹ سبجیکٹ ہی نہیں ،تو ایس ٹی کوٹے کا ان کو کیا فائدہ ؟دل تھام کر سنئے ریاست جموں و کشمیر میں خانہ بدوش گجر بکروالوں کے لئے خوش نما سرکاری اسکیمیں تو بہت سی چلی ہیں لیکن ان اسکیموں کا ان لوگوں کو رتی بھر فائدہ نہیں ہوا ہے۔ فائدہ اگر ہوا ہے تو قوم کے اُن سیاسی ٹھیکیداروں اورافسر شاہی کا جو اکثر اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے اور خزانہ ٔ عامرہ لوٹنے کے فراق میں رہتے ہیں۔ ریاست کے خانہ بدوش گجر بکروال سرمائی موسم میں خطہ جموں کے بالائی علاقوں میں اپنی بھیڑ بکریوں، بھینسوں اور گھوڑوں کے ساتھ بسیرا کرتے ہیں اور گرمائی موسم میں کشمیر کی طرف رُخ کرتے ہوئے ہمالیہ کی گود میں اپنے مال مویشیوں کے ساتھ ہجرت کر جاتے ہیں۔ ان کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہے ۔ان لوگوں کے کہیں بھی وراثتی یا زمینی مالکانہ حقوق نہیں ہیں اور قانون کی رُو سے جس کسی کے پاس وراثتی ملکیت یا قانونی حقوق والی زمین نہیں ہے، وہ تکینکی لحاظ سے ریاست کا باشندہ نہیں مانا جاتا یعنی اس کو سٹیٹ سبجیکٹ نہیں مل سکتی اور سٹیٹ سبجیکٹ ایک شہری کے لیے ریاست کا باشندہ ہونے کی سند ہوتی ہے۔ اگر اس طبقے کے متعدد لوگوں کے پاس سٹیٹ سبجیکٹ نہیں ہے تو ان کی ایس ٹی سرٹیفیکیٹ کیسے بنے گی ؟ گجربکروال مشاورتی بورڈ اور محکمہ قبائلی امور نے کبھی بھی اپنے طور پر گجر بکروال خاص کر بکروال خانہ بدوش اور دودھی خانہ بدوش طبقے کا سروے نہیں کروایا تاکہ تند وتلخ حقائق سامنے آسکتے مگران کے لئے ایسا کچھ کچھ نہیں کیا گیا۔اگر یہ محکمہ اپنے قبیلے کی این جی اوز یا قوم کے ملازموں سے ان کا سروے مکمل کروائے اور ان کی باز آبادکاری کا منصوبہ تیار کرے تو یہ لوگ بھی سرکاری مراعات سے مستفید ہو سکتے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ اگر یہ لوگ معجزاتی طور پہ پڑھ لکھ بھی جاتے ہیں تو نوکریوں کے لیے درخواست دینے کے اہل نہیں ہوتے ہیں لیکن دوسری طرف ان کے ووٹر کارڈ بن جاتے ہیں، نوکریوں کے لئے اور اعلیٰ تعلیم میں داخلے کے لیے ان لوگوں سے ریاست کا باشندہ ہونے کی سند مانگی جاتی ہے لیکن ووٹر کارڈ کے لئے ان سے ایسی کوئی سند نہیں مانگی جاتی ۔بکروال خانہ بدوش ہوں یا دودھی خانہ بدوش ہوں، دونوں ہی اس نا انصافی اور مظلومیت کا شکار ہیں اور اس طبقے کی بدنصیبی کا یہ پہلو بھی دیکھئے کہ ان کے رہنما جن پہ یہ سادہ لوح لوگ تکیہ کر کے بیٹھے ہوئے ہیں، وہ محض اپنے ووٹ بنک کے لیے اس طبقے کو گجر ، بکروال اور دودھی میں تقسیم کرنے کا کام اس صفائی سے کر رہے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ تقسیم کرواور راج کرو کا یہ فارمولہ انگریزوں نے بخوبی آزمایا تھا ۔
دودھی خانہ بدوش اور بکروال خانہ بدوش کو ایک دوسرے کے خلاف اس انداز میں بدظن کیا جا رہا ہے کہ یہ لوگ اپنے مشترکہ مسائل اور مشکلات کو بالائے طاق رکھ کر ان رہنماؤں کے ہاتھ کی کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں۔ ریاست میں جب بھی حالات کشیدہ ہوئے ، فرقہ وارانہ تنازعات بھڑکے، دہشت گردانہ حملے ہوئے یا پھر سرحدوں پر کشیدگیاں،ان سب کے بُرے نتائج اسی گجربکروال طبقے کو سب سے زیادہ بھگتنا پڑا۔ 2008ء امر ناتھ اراضی تنازعے کو ہی لیجئے، صوبہ جموںمیں کسی نہ کسی طرح سے اس طبقے پر بلوائیوں کی طرف سے جا بجا حملے ہوئے اور کئی گجر بکروال بستیوں کو نشانہ ٔ ستم بنایا گیا۔ ان بستیوں میں ایک بستی راج پورہ مڑھ کی بستی بھی شامل تھی ،جسے شر پسندوں نے راکھ کے ڈھیر میں بدل کر بدنصیب مکینوںکو کھلے آسمان تلے لا کھڑا کیا گیا ۔2017 میں یہی آزمودہ نسخہ اختیار کرتے ہوئے راجپورہ اکھنور میں انسانیت کو شرمسار کرتے ہوئے حکام نے گجربکروال بستی پر دھاوا بولا ، نہتوں کی مارپیٹ کی ، بچو ں کو بھی نہ بخشااورخواتین کو لہو لہان کر دیا۔ اسی پہ اکتفا نہہوا بلکہ ان بے سہار الوگوں کے عارضی ڈھانچے( کلہے) بھی نذرِ آتش کر دئے گئے ۔ہمارے سرکاری حکام دہائیوں سے آباد اس طبقے کی بستیوں میں بغیر کسی نوٹس کے حملہ آور ہونے کے عادی چلے آرہے ہیں، چاہے وہ رکھ بروٹیاں گجر بستی ہو ،چاہے وہ بیلی چرانہ ہو یا گول گجرال ہو۔’’ سرکاری اراضی ‘‘کو خالی کرانے کے نام پر ایسی انہدامی مہم چلانا انتہائی شرمناک ہے مگر پوچھے گاکون ؟ یوں صرف اور صرف ایک طبقے کو ستم ہائے زمانہ کا تختہ ٔ مشق بنایا جاتا ہے ،جب کہ رنبیر کنال کے کناروں پر اور جموں کٹھوعہ سانبہ اور راجوری اضلاع میں مختلف مقامات پر اسی طرح سے لوگ کمیونٹی سینٹرس اور جھونپڑیوں میں آرام سے رہ رہے ہیں، ان کو ہاتھ تک نہیں لگایا گیا۔انتظامیہ کی طرف سے گجر بکروال قبیلوں کو زبردستی گھر سے بے گھر کرنا کیا مطلب رکھتاہے ؟ حالانکہ ان میں یہ لوگ سالہا سال سے رہ بس رہے تھے ۔ یہ صرف انتقام گیری اورتعصب کا شاخسانہ ہے ۔
جنگلات اور سرکاری اراضی کو خالی کرانے کے امتیاز پر مبنی مہم اپنے گھر اور غیر منقولہ جائیداد پر مالکانہ حقوق نہ ہونے، حد بندی لائین کے قریب واقع چراگاہوں تک رسائی پر قدغن ،جنگلات اور سرکاری اراضی کے استعمال پر عائد شدہ پابندیاں، سرحدوں پر آئے دن پیش آنے والے گولہ باری کے خون آشام واقعات اور رسانہ جیسے دل آزار اجتماعی عصمت دریاں ،ان سے خائف ہوکر گجربکروال قبیلے کے لوگ تواتر سے نقل مکانی کررہے ہیں۔ ہجرت کرنے کے اس رحجان میں حالیہ برسوں میں تیزی آئی ہے۔ ٹرائبل ریسرچ اینڈ کلچرل فاؤنڈیشن کی ایک تحقیق کے مطابق گزشتہ بیس برسوں کے دوران کم سے کم دس ہزار کنبے ریاست جموں کشمیر سے باہر دوسری ہمسایہ ریاستوں پنجاب، ہماچل پردیش، ہریانہ اور اُتراکھنڈ منتقل ہو کر وہاں مستقل بنیادوں پر آباد ہو چکے ہیں۔ یہ انتہائی افسوس ناک اور قابل تشویش بات ہے کہ گجربکروال قبیلے کے لوگ ریاست کو چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں اور اس سلسلے کو روکنے میں حکام لا پرواہی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے اس انخلاء کو روکنے کے لئے کوئی سنجیدہ ور ثمر بارکوشش ہی نہیں ہورہی ہے۔ سرحد پر حالات کشیدہ ہوں یا اندرون ریاست ہلچل ہو ، دونوں صورتوں میں اس قبیلے کے لوگ حالات کی چکی میں پستے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ کشمیر میں اس قبیلے کو ہندوستان نواز ہونے کی پاداش میں دُھتکارا جاتا ہے اور صوبہ جموں میں ان سے ہندوستانی کہلانے کا ثبوت مانگا جاتا ہے۔ پلوامہ حملہ 14فرور ی2019 کو پیش آیا تو 15فروری کو جموں چیمبر آف کامرس نے بند کی کال دی ۔ اسی دن سانبہ میں گجر بکروال قبیلے کے دو بندوں کو جرم بے گناہی کی پاداش میں بری طرح سے مارا پیٹا گیا ۔اس مار پیٹ کی وجہ کیا ہے ؟ یہ لوگ ا س وقت اپنی ایک حاملہ خاتون کو ہسپتال میں داخلے کے لئے پریشان تھے اور کچھ سمجھ نہ پائے تھے کہ ماجرا کیا ہے کہ ان کی مار پیٹ کی جاتی ہے۔اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اس قبیلے کے لوگوں نے ریاست جموں کشمیر میں آج تک طرح طرح کی قربانیاں دی ہیں ۔اس لئے جو لوگ اپنے آپ کو ملک کے وفادار او ر دیش بھگتی کے ٹھیکیدار سمجھتے ہیں، اصل میں ان لوگوں سے اُن کے نیشنل ازم کا ثبوت مانگنا چاہیے۔ قوم کے ان نام نہاد ٹھیکیداروں کو کم سے کم ایک مہینے کے لئے سرحدوں پر بھیجا جانا چاہیے اور جو لوگ روز سرحد پر گولیاں کھا تے ہیں، ان کے شانہ بشانہ کھڑا کرنا چاہیے تا کہ ان کو بھی اندازہ ہو جائے کہ نیشنلزم کا جو پہاڑہ یہ لوگ اپنے آرام دہ ڈرائنگ روموں میں بیٹھ کے پڑھتے ہیں ، وہ کیا ہے اور جو سرحدی آبادیاں ستر سال سے پل پل اَگنی پریکشا دے کر اپنی حُب الوطنی پر آنچ نہیں آنے دیتے ،اُن کی زندگیاں کتنی مصائب اور مشکلات کے بھنور میںگھری رہتی ہیں۔