عربی کے ایک لفظ العین کے 100 معانی ہیں۔ عربی بلاشبہ ایسی زبان ہے جس میں ایک ایک لفظ کے کئی کئی معانی ہوتے ہیں، تاہم اس میں بھی غیر عربی یا عجمی الفاظ شامل ہیں اور یہ ایک وسیع موضوع ہے۔ جن زبانوں میں انجذاب کی صلاحیت ہوتی ہے وہی زندہ رہتی اور آگے بڑھتی ہیں۔عربی زبان میں غیر عربی الفاظ کے موضوع پر ماہرین ِلسانیات نے بھرپور توجہ دی ہے۔ عربی زبان کے کئی مولفین نے ان الفاظ کو نمایاں طور پر پیش کیا ہے جو درحقیقت بنیادی طور پر غیر عربی ہیں اور عربی زبان میں داخل ہوکر دخیل یا معرب الفاظ کہلاتے ہیں (معرب میں ’را‘ بالکسر ہے، اس پر زبر لگانے سے مطلب بدل جائے گا)۔ ایسے الفاظ قرآن کریم، احادیثِ مبارکہ، دور جاہلیت کی شاعری یا ظہورِ اسلام کے بعد کی ادبی کاوشوں اور تصنیفات میں وارد ہوئے ہیں۔ یہ ایک وسیع موضوع ہے۔ ماہر لسانیات ابومنصور الجوالیقی (اصل نام موہوب بن احمد بن محمد 465 تا 540 ہجری) نے اپنی کتاب ’’المعرب من الکلام الاعجمی علی حروف المعجم‘‘ کے حوالے سے ایسے الفاظ کی بڑی تعداد کو جمع کیا ہے جو عربی زبان میں بولے جاتے ہیں جب کہ ان کی اصل عجمی ہے، یعنی وہ عربی زبان میں داخل کرلیے گئے ہیں۔ انہوں نے کتاب میں ایک خصوصی باب باندھا ہے جس میں لفظ کی شناخت کی گئی ہے کہ آیا وہ اصلاً عربی ہے یا نہیں۔ الجوالیقی نے ایک فہرست دی ہے
نور اور بشر کا تنازع پرانا ہے لیکن ایک قاری نے اسے حل کردیا۔ ان کا نام ’’نورالبشر‘‘ ہے۔ انہوں نے ہاتف جوال (موبائیل فون) کے ذریعے ہماری اصلاح کی ہے کہ ’’قدس سرہٗ‘‘ میں اگر لفظ اللہ نہ ہو تو یہ عربی قاعدے کے لحاظ سے ’’مجہول‘‘ کا صیغہ ہے جس کا تلفظ ’’ق‘‘ کے پیش، دال مشدد کے زیر اور سین مہملہ کے زبر کے ساتھ ہوگا اور اگر ’’قدس اللہ سرہٗ‘‘ کہیں تو وہ تلفظ ہوگا جو آپ نے تحریر کیا ہے، یعنی قاف پر زبر۔ لفظ اللہ کے آخری حرف پر پیش۔ جناب نورالبشر کا شکریہ۔ نامی گرامی صحافی سعد اللہ جان برق ؔے اپنے ایک کالم میں سوال اٹھایا ہے کہ ’’اردو زبان کس کی ہے؟‘‘ اپنے کالم کے آغاز میں وہ لکھتے ہیں ’’آج ہم اپنی تحقیق کا ٹٹو ایک بالکل ہی نئی سمت میں دوڑانا چاہتے ہیں، اور یہ سمت اردو زبان کی ہے، اور وجہ اس بے سمتی کی یہ پیدا ہوئی کہ بعض اوقات ہم اخبارات و رسائل میں کچھ اساتذہ قسم کے حضرات کے ایسے مضامین پڑھ لیتے ہیں جن میں اردو زبان کے بگاڑ اور الفاظ کی تصحیح کا سلسلہ ہوتا ہے، خاص طور پر اردو میں انگریزی یا دوسری زبانوں کی ملاوٹ پر تو بہت واویلہ (واویلا) کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ بات طے ہونی چاہیے کہ اردو کے اہلِ زبان ہم کن لوگوں کو سمجھیں گے، اور یا یہ کہ ایسا کوئی فرد یا لوگ موجود ہیں جن کو اردو کا اہلِ زبان کہا جاسکتا ہے‘‘۔