کارل مارکس نے کہا ہے:’’خواتین کی بہبودو بقا کے بغیر کوئی بھی بڑی سماجی تبدیلی ناممکن ہے۔ سماجی ترقی کی سطح کو خواتین کی سماجی حیثیت دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔‘‘ بابا صاحب بھیم رائو امبیڈکر نے کہاہے:’’سیاسی اقتدار ہی ساری سماجی ترقی کا ضامن ہے۔‘‘ آج جب خواتین ہر شعبے میں مردوں سے کندھا سے کندھا ملا کر چل رہی ہیں، پھر بھی، گھر ہو یا کام کی جگہ، صنفی تعصبات و امتیازات کے مسائل مسلسل بنے ہوئے ہیں۔سیاست میں ابھی بھی، لازمی طریقے سے، مردوں کی اجارہ داری بنی ہوئی ہے۔ سیاسی قیادت میں تو خواتین کی حالت اور بھی ناگفتہ بہ ہے۔ سیاسی قیادت میں کتنی حصہ داری ہے اس کا اندازہ لگانے کے لئے لوک سبھا میں خواتین کی شرکت کے اعداد و شمار پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
سال 1992ء میں ہندوستان کی پارلیمنٹ میں کل 499؍ سیٹوں یا نشستوں میںسے 22یعنی 4.4 فیصد سیٹوں پر خواتین منتخب کی گئیں۔ 1957-62میں500؍ سیٹوں میں سے27 ؍یعنی 5.4 فیصد پر خواتین منتخب کی گئیں۔ پھر 1967-71 میں31؍ (5.9 فیصد) پر،1971-76میں 22؍ (4.2 فیصد) سیٹوں پر خواتین منتخب ہوئیں۔ اس کے بعد1977-80 میں 19؍ (3.4 فیصد) اور 1990-91میں 27؍ (5.22 فیصد) نشستیں خواتین کو ملیں۔ اس کے بعد، 1999ء میں یہ تعداد 49؍ (9.2 فیصد) ہوئی۔ پچھلی یعنی پندرہویں لوک سبھا میں 62؍ خواتین کی موجودگی کے ساتھ یہ تناسب بڑھ کر 11.4 فیصد ہوا۔
جب ہم مرکزی حکومت میں وزراء کا عہدہ حاصل کرنے والی خواتین کی تعداد دیکھتے ہیں تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ 1952-57 میں4.9 فیصد خواتین تھیں جو کہ 1984-89 میں بڑھتے بڑھتے 10 فیصد تک پہنچ گئی۔ 2009-14 میں تقریبا 13؍ فیصد خواتین وزیرکے عہدے کی زینت بنیں۔ تاہم، ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ہندوستان کی نئی کابینہ (سولہویں لوک سبھا) میں25 فیصد خاتون وزیرہیں اور لوک سبھا اسپیکر بھی خاتون ہیں۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق خواتین کی آبادی48.5 فیصد یعنی58کروڑ سے بھی زیادہ ہے۔ صنفی عدم مساوات کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ نصف آبادی کا سیاسی قیادت میں صرف دسواں حصہ ہے۔ پارلیمنٹ میں خواتین کی حصہ داری و نمائندگی کے معاملے میں ہم اپنے پڑوسی ملک نیپال اور افغانستان جیسے نسبتا غریب مکوں سے بھی پیچھے ہیں۔ پارلیمنٹ میںخاتون نمائندوں کی تعداد کی بنیاد پر ممالک کی رئینکنگ یعنی درجہ بندی طے کرنے والے بین الاقوامی تنظیم—انٹر پارلیمنٹری یونین(IPU)—کی طرف سے تیار کی گئی فہرست میں189 ممالک میں بھارت کا 111واں مقام ہے۔ اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر کام کرنے والی یہ انٹر پارلیمنٹری یونین نے پارلیمنٹ میں خواتین کی تعداد کی بنیاد پر ممالک کی درجہ بندی کی ہے۔ درجہ بندی میںیہ خراب کارکردگی اس بات کی علامت ہے کہ ملک بھلے ہی2035ء تک دنیا کہ تیسری بڑی معیشت بننے کے لئے پر تول رہا ہو مگر خواتین کی اقتصادی، سماجی اور سیاسی حالات میں بہتری کے معاملے میں ہم اب بھی میلوں دور ہیں۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ ترقیاتی پروگرام (UNDP) کی طرف سے1995ء میں بیجنگ میں ہوئے عالمی خواتین کانفرنس سے پہلے جاری کی گئی انسانی ترقی کی رپورٹ (ہیومن ڈیولومنٹ رپورٹ)کے مطابق پوری دنیا کے پارلیمانی ایوانوں میں خواتین کی اوسط تعداد مردوں کے مقابلے میں محض 10 فیصد تھی، اور وزیرکے پوزیشن پر خواتین کی نمائندگی کی حالت تو اور بھی قابل رحم بتائی گئی تھی۔ اس میں تو خواتین کا اوسط 6 فیصد ہی تھا۔ ستم ظریفی ہے کہ آزادی کے اکہتر سال گزر جانے کے بعد بھی ہم پئنتیس سال پہلے کے عالمی اوسط پر اٹکے ہوئے ہیں۔
ڈیرین ایس موگلو اور جیمز رابنسن نے اپنی مشہور کتاب ’وائی نیشن فیلس‘ (Why Nation Fails) میں لکھا ہے کہ کسی بھی ملک کی معیشت کی کامیابی یا ناکامی انکے اداروں پر منحصر ہوتی ہے۔مصنفین کا کہنا ہے کہ یہ ادارے دو قسم کے ہیں: پہلی قسم وہ ہے جس میں اقتدار و طاقت کچھ افراد کے ہاتھوں میں مرکوز ہوتی ہے؛ دوسری قسم کے وہ ادارے ہیںجس میں سماج و معاشرے کے زیادہ سے زیادہ لوگوں کی شمولیت ہوتی ہے۔ ایسے ممالک جہاں کے تمام ادارے سماج کے سبھی طبقے کی شمولیت کو یقینی بناتے ہیں وہ ممالک ترقی کے راستوں پر تیزی سے گامزن ہوتے ہیں۔ یہ بات پوری طرح سے واضح ہے کہ شمولیاتی ترقی کے لئے معیشت کی سارے اداروں میں خواتین کی شمولیت و حصہ داری اشد ضروری ہے۔
نوبل انعام یافتہ مشہور ماہر اقتصادیات امرتیہ سین اپنی کتاب’ڈیولپمنٹ ایز فریڈم‘ (Development as Freedom) میں کہتے ہیں کہ سیاسی ایجنسی کے عدم توازن کو درست کرنے کے ساتھ ہی دیگر علاقوں کی تفاوت و عدم تواذن دور ہوں گی۔ سیاست میں خواتین کی شرکت و حصہ داری ایک ایسا راستہ ہے جس کے ذریعہ سماجی اور اقتصادی علاقے کی عدم مساوات کو دور کیا جا سکتا ہے۔ اب سوال اٹھتا ہے نمائندگی کے اس سوال کو حل کیسے کیا جائے۔ ریزرویشن، مثبت کارروائی کا ایک ایسا ٹول ہے جو منصفانہ حصہ داری کے عمل کو پورا کرائے گا۔ قابل مذمت ہے کہ گزشتہ سترسالوں سے مرکزی اقتدار پر قابض کئی حکومتوں نے مقننہ کے ایوانوں میں خواتین کے لئے33 فیصد ریزرویشن دینے سے متعلق خواتین ریزرویشن بل پاس کرانے کے لئے کوئی موثر و بامعنی کوشش کرنے سے پرہیز کیا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی قوت ارادی کے فقدان اور ان کی نااہلی کا خمیازہ ملک کی خواتین بھگت رہی ہیں۔
گو کہ ، آئین کے 73 ویں اور 74 ویں ترمیم کے تحت گاؤں پنچایت اور مقامی بلدیاتی نشستوں میں خواتین کو ریزرویشن دیا گیا ہے۔ مگر حیرت ہے کہ گراس روٹ یا بنیادی اداروں میں تو خواتین کے لئے ریزرویشن ہے، لیکن ان کے لئے قانون بنانے والے اداروں میں نہیں۔ خواتین ریزرویشن کے لئے دلیل بھی کم وزندار نہیں ہے۔ خواتین، قربانی، لگن، ایمانداری، ایثار، رواداری، وسائل کے ری سائیکلنگ اورتقسیم نوکی زندہ جاوید مثالیں پیش کرتی ہیں۔ خواتین وسائل کا استعمال مردوں کے مقابلے زیادہ بہتر طریقے سے کرتی ہیں۔ مشہور کتاب’پورایکونومکس‘ (Poor Economics) کی مصنفہ اور ایم آئی ٹی پاورٹی لیب نامی ادارے کی مشہور ماہر اقتصادیات ایستھر ڈفلو(Esther Duflo) نے پنچایت سطح پر خواتین ریزرویشن اور اس کے سماجی اور سیاسی نتائج کا تجزیہ کیا ہے۔ ان کے اس مطالعہ سے یہ بات صاف ہوئی کہ خواتین گرام پردھان مردوں کے مقابلہ میں زیادہ ایماندار ہیں۔ وہیں آکسفیم انٹرنیشنل (Oxfam International)کی ایک رپورٹ کے مطابق خواتین پردھانوں والی پنچایتوں کی ترقی اچھی ہوئی ہے۔ ان کے قیادت والی پنچایتوں میں پینے کے پانی، ٹوائلیٹ ، گٹر، اسکول اور راشن کی دکانوں کی بہتر ترقی ہوئی ہے۔ ایک اور مطالعہ—بریسٹل یونیورسٹی کی سونیا بھلوترا اور ہا رورڈ بزنس اسکول کی لکشمی ائیر کی رپورٹ’پاتھ بریکرس: ہاؤ ڈز ویمن پولیٹکل پارٹیسپیشن رسپانڈ ٹو ایلیکٹورل سکسیس؟ ‘(Path-Breakers: How Does Women's Political Participation Respond to Electoral Success?)—کے مطابق انتخابات میں خواتین کی حصہ داری خواتین کو سیاسی طور پر مضبوط بناتی ہے۔
سولہویں لوک سبھا میں 61؍ خواتین امیدوار جیت کر پہنچی ہیں۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ خواتین اتنی بڑی تعداد میں ہندوستانی لوک سبھا کے ایوان تک پہنچ پائی ہیں۔ کرچہ یہ اب تک کا سب سے بڑا اعداد و شمار ہے، پھر بھی لوک سبھا میں نمائندگی کے حصہ داری کے معاملہ میں خواتین اب بھی، مردوں کے مقابلے کافی پیچھے ہیں۔ قریب سوا ارب کی آبادی میں خواتین کی تعداد ظاہری طور پر آدھی ہے لیکن سیاسی اداروں میں ان کی نمائندگی بہت کم ہے۔ موجودہ لوک سبھا میں خواتین کی حصہ داری محض11 فیصد ہی ہے۔ البتہ ایک اچھی بات یہ ہے پچھلی لوک سبھا کے مقابلہ اس بار زیادہ خواتین نے امیدوار کے طور پر حصہ لیا۔ 2009ء کے لوک سبھا انتخابات میں 556؍ خواتین انتخابی جنگ میں اتری تھیں جبکہ اس بار 1300؍ سے زیادہ خواتین امیدواروں نے انتخابات میں حصہ لیا۔ اس طرح خواتین اپنے سیاسی حق پر دعوی ٹھونک رہی ہیں۔
موجودہ سماجی و سیاسی منظر نامے میں، اس بات سے قطعی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ خواتین ریزرویشن حکومت، تعلیم اور صحت میں خواتین کی منصفانہ اور جامع شراکت کو یقینی بنانے کا طریقہ نہیں ہو سکتا ہے۔ سوال صرف خواتین کی مساوات کا ہی نہیں بلکہ سب کا ترقی اور سب کے لئے برابری کا بھی ہے۔ اس سال 8؍ مارچ کو منائے گئے عالمی یوم نسواں کا مرکزی موضوع (تھیم) بھی یہی تھا :’’ایک متوازن دنیا ایک بہتر دنیا ہے‘‘۔ سماج میں توازن تبھی ہوگا جب خواتین کی حصہ داری ہر حصہ میں ہوگی۔ حال ہی میں، عالمی اقتصادی فورم (WEF) کی رپورٹ ’’گلوبل جنڈر گیپ رپورٹ‘‘منظر عام پر آئی جس میں جینڈر گیپ انڈیکس کی درجہ بندی میں ہندوستان کا 108واں مقام ہے۔اس انڈکس کی پیمائش چار پیمانوں کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ یہ پیمانے اقتصادی حصہ داری اور مواقع، حصول تعلیم، صحت اورسیاسی طاقت ہیں۔ اس درجہ بندی میں نچلے پائیدان پر ہونے کی بنیادی وجہ سیاسی طاقت خواتین کی کم حصہ داری ہے۔موجودہ حکومت اپنی مدتِ کار پوری قریب قریب پوری کر رہی ہے لیکن خواتین ریزرویشن بل پاس ہونے کے ’’اچھے دن‘‘ ابھی تک میسر نہیں آئے ہیں۔ ملک کی سیاسی جماعتوں کے سامنے اب بھی یہ سوال درپیش ہے کہ وہ ایک منصفانہ سماج بنانے کے لئے خواتین ریزرویشن بل پر اُن کا کیا رخ ہے؟ سیاسی پارٹیاںاس مدعے کو محض انتخابی منشور کا حصہ بنائے رکھیںگی یا اس کے لئے ٹھوس اور معنی خیز اقدامات بھی کئے جائیںگے۔‘‘
اسسٹنٹ پروفیسر(معاشیات)ڈپٹی رجسٹراربی. آر. اے. بہار یونیورسٹی، مظفر پور
ای میل: [email protected]
موبائل: 9470425851