ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’تم اپنے رب سے استغفار کرو اور اس کی طرف توبہ کرو، یقین مانو کہ میرا رب بڑی مہربانی والا اور بہت محبت کرنے والاہے‘‘[سورۃ ہود:90 ]
انسانی زندگی کے نشیب و فراز، آرام و راحت اور خوشی وغم ایسی چیزیں ہیں جن سے ہر ایک شخص کو گزرنا پڑتا ہے۔ تاہم افراد اور اقوام میں مذکورہ چیزوں میں تفاوت فطرت کا قانون ہے یعنی خوشی اور غم اور زندگی کے اُتار و چڑھاؤ کسی کو کم اور کسی کو زیادہ ہوسکتی ہے لیکن کوئی شخص ان چیزوں سے بے نیاز نہیں رکھا گیا ہے۔ تاہم اسلام اور ایمان سے مالا مال لوگ اس قانون الٰہی کو سرِتسلیم خم کرتے ہیں کہ دنیاوی زندگی میں مشاکل و مصائب کا سامنا کرنے کا ایک سبب انسان کے اپنے گناہوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس کی طرف اللہ رب العالمین نے اشارہ دیتے ہوئے فرمایا:’’تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے، اور وہ (اللہ) تو بہت سی باتوں سے درگزر فرمادیتا ہے‘‘[سورۃ الشوریٰ:30 ]۔
دوسری جگہ فرمایا: ’’ خشکی اور تری میں لوگوں کی بداعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا۔ اس لئے کہ انہیں ان کے بعض کرتوتوں کا پھل اللہ تعالیٰ چکھادے(بہت) ممکن ہے کہ وہ باز آجائیں‘‘ [سورۃ الروم : 41 ]۔
خشکی سے مراد انسانی آبادیاں اور تری سے مراد سمندر، سمندری راستے اور ساحلی آبادیاں ہیں۔ فساد سے مراد ہر وہ بگاڑ اور فساد ہے جس سے انسانوں کے معاشرے اور آبادیوں میں امن و سکون تہ وبالا اور ان کے عیش و آرام میں خلل و اقع ہو۔ اس لئے اس کا اطلاق معاصی و سیئات پر بھی صحیح ہے۔ معلوم ہوا کہ انسانوں کی زندگی میں حالات کا منفی تبدل و تغیر اور ناگفتہ بہ ماحول درآنا انسانوں کی گناہوں کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔ اب جو بھی بندہ چاہے کہ میرے حالات بہتری میں واقع ہوںکہ میری زندگی اطمینان بخش ہو، اس پر لازم ہے کہ وہ پہلے اپنے خود کے حالات میں تبدیلی کرے، جیسا کہ قرآن مجید میں کہا گیا ہے۔’’کسی قوم کی حالت اللہ تعالیٰ نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے [سورۃالرعد:11 ]۔
اپنے خود کے حالات کو مثبت انداز میں تبدیل کرنے کے لئے ایک اہم ذریعہ معصیت و نافرمانی سے اجتناب کرکے بارگاہِ الٰہی سے اپنے گناہوں کی بخشش کروانا ہے ۔ جب انسان کے گناہوں کی اللہ رب العالمین کے دربار سے بخشش ہوجائے تو یہ اس کی زندگی کو بہترین حالت میں تبدیل کرنے کا ایک اہم سبب ہوتا ہے اور گناہوں کو معاف کروانے کے لئے اس کا ایک اہم ذریعہ توبہ واستغفارہے۔
استغفار کا مطلب ہے’’اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنا‘‘ یعنی اپنے گناہوں کو معاف کروانے کے لئے اللہ رب العالمین سے درخواست کرنا۔ انسانی زندگی خاص کر مسلمانوں کی زندگی میں استغفار کی کیا اہمیت ہے مندرجہ ذیل سطورمیں اس کا ذکر کیا جائے گا۔
استغفار کی اہمیت :
ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ہر مرض (بیماری) کی دواء (علاج) موجود ہے اور گناہوں کے مرض کا علاج استغفار ہے‘‘[جامع العلوم والحکم لإبن رجب الحنبلي،ج/2 – ص/415 ]
قتادۃ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:
’’ یہ قرآن مجید تمہیں تمہارے مرض اور اسکی دواء کے متعلق رہنمائی کرتا ہے۔ پس تمہارا مرض گناہ اور اسکی دوا استغفار ہے۔‘‘[جامع العلوم والحکم لإبن رجب الحنبلي،ج/2 – ص/415 ]
استغفار کا مطلب کیا ہے؟
أحمد بن رجب الحنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ استغفار کا مطلب ہے مغفرت (اللہ) سے طلب کرنا اور مغفرت کا مطلب ہے گناہوں کے شر سے بچتا اور انکو چھپانا‘‘[جامع العلوم والحکم لإبن رجب الحنبلي،ج/2 – ص/407 ] ۔
یعنی بندہ جب اپنے معبود برحق سے استغفار کرتا ہے تو بندہ اپنے معبود برحق سے یہ التماس کرتا ہے کہ اے اللہ میرے گناہ بخش دے اور اس کے ساتھ مجھے گناہوں کے شر سے بھی محفوظ رکھ اور جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی اس دعا و مناجات کو قبول فرماتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس بندے کے گناہوں کو معاف فرمایا اور اس کو اس کے گناہوں کے شر سے محفوظ رکھا اور عذاب سے نجات بخشی۔استغفار کی اہمیت و ضرورت اس بات سے واضح ہوسکتی ہے کہ اللہ کے آخری رسول محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات مبارکہ کی عظمت و رفقت مسلمہ ہے لیکن اس کے باوجود ایک ایک دن میں سو سے زیادہ مرتبہ اللہ کے دربار میں استغفار کرتے تھے بلکہ اُم المومنین عائشۃ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ فرمایا کرتے تھے:’’اے اللہ! مجھے ان لوگوں میں شامل فرما جو جب نیکی کرتے ہیں تو انہیں خوشی ہوتی ہے اور جب گناہ کرتے ہیں تو اسغفار کرتے ہیں۔‘‘[سنن ابن ماجہ کتاب الأدب باب الإستغفار-ح:3820 ]
نبی کریم ﷺ کی اس عظیم دعا سے اس بات کا اندازہ ہوسکتا ہے کہ اللہ کے آخری رسول ﷺ مغفور ہونے کے باوجود بھی اللہ سے استغفار کی توفیق کی التجاء کرتے تھے تو ہمیں کتنا اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اسی لئے علامہ ابن القیم ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے استاذ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ سے دریافت کیا: ’’بندے کے لئے زیادہ نفع بخش کیا چیز ہے تسبیح یااستغفار؟ تو شیخ صاحب نے جواب دیا! جب (انسان) کا لباس صاف ستھرا ہو تو عرق گلاب اور اس کے لئے زیادہ نفع بخش ہے اور جب (انسان کا) لباس آلودہ ہو تو پانی اور صابون اس کے حق میں زیادہ بہتر ہے‘‘[الوابل الصیب من الکلم الطیب – ج- ۱/ص- 92 ]یعنی جب انسان کا نامہ اعمال گناہوں اور معصیتوں سے پاک ہے تو تسبیح اس کے لئے عطر گلاب ہے جس سے اسکا نامہ اعمال معطر ہوگا۔ اور اگر انسان کا نامہ اعمال گناہوں اور معصیتوں سے آلودہ ہوا ہے تو اس کے حق میں استغفار ہی زیادہ بہتر ہے جو استغفار اس کے نامۂ اعمال کے لئے صابون اور پانی کا کام کرکے اس کے نامہ اعمال کو صاف و ستھر ا کردے گا۔
اسلامی تعلیمات کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو استغفار کی اہمیت روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی۔ اسلام نے اپنے ماننے والوںکو جن عبادات اور اہم ذمہ داریوں کا مکلف بنایا ہے اُن جملہ عبادات اور ذمہ داریوں کے ساتھ استغفار کو شامل رکھا ہے جس سے اس کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔ اسلام کے ارکان میں شہادتین کے بعد اہم رُکن صلاۃ یعنی نماز ہے۔ اگر نمازپر غور کیا جائے تو تکبیرتحریمہ سے لے کر سلام تک جملہ ارکان و واجبات میں استغفار کی تلقین کی گئی۔ دعا ئے استفتاح ہویا رکوع و سجود اور جلسہ و تشہد ہر ایک چیز میں اللہ سے مغفرت طلب کرنے اور گناہوں کے شر سے محفوظ رہنے کی تعلیم موجود ہے۔ سلام کے بعد اس اہم عبادات کے اختتام پر اللہ کے رسول ﷺ نے استغفار کی تعلیم دی۔ چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت ثوبان ؓ فرماتے ہیں کہ جب اللہ کے رسول اللہؐ نماز سے فارغ ہوتے تو تین مرتبہ استغفار کرتے یعنی (اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ، اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ، اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ)پڑھتے تھے۔[صحیح مسلم کتاب المساجد باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ- ح:591 ]
اسی طرح ارکان اسلام میں ایک اہم رُکن حج بیت اللہ ہے۔ جس کی ادائیگی کی تمنا ہر ایک مسلمان اپنی شعوری زندگی کی دہلیز پر قدم رکھنے کے ساتھ ہی اپنے دل میں رکھتا ہے۔ حج کے داخلی ارکان میں ایک اہم رُکن وقوف عرفہ ہے، جس کے متعلق اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: حج عرفات میں وقوف ہے۔[سنن ابن ماجہ کتاب المناسک باب من أتی عرفۃ قبل الفجر- ح:3015 ]اس اہم ترین عبادت ’’وقوف عرفہ‘‘ سے جب حجاج کرام فارغ ہوکر مزدلفہ کی طرف غروب آفتاب کے بعد روانہ ہوجاتے ہیں تو ان تمام حجاج سے اللہ رب العالمین کا یہ خطاب ہوتا ہے:’’پھر تم اس جگہ سے لوٹو جس جگہ سے سب لوگ لوٹتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ سے طلب بخشش کرتے رہو یقینا اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ ‘‘[سورۃ البقرۃ :199 ]
اللہ کے آخری رسول ﷺ پر اللہ رب العالمین کی طرف سے جو ایک اہم ذمہ داری عائد ہوئی تھی، وہ رسالت کی ذمہ داری تھی جس کے متعلق اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :’’ اے رسول ﷺ جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجئے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی اور آپ کو اللہ تعالیٰ لوگوں سے بچالے گا۔‘‘[سورۃالمائدۃ:67 ] یہ اہم ترین ذمہ داری (رسالت) بھی جب پائے تکمیل تک پہنچی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ سے حکم کیا:’’ تو اپنے رب کی تسبیح کرنے لگ حمد کے ساتھ اور اس سے مغفرت کی دعا مانگ، بے شک وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا ہے۔‘‘[سورۃالنصر:03 ]
مندرجہ بالا کچھ نصوصِ شرعیہ سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ اہم عبادات اور ذمہ داریوں کے ساتھ استغفار کا تذکرہ وتلقین استغفار کی اہمیت کو مزید واضح کررہا ہے۔ جب ایک اللہ کا بندہ اپنے معبود برحق سے مغفرت طلب کرتا ہے تو بندے کا استغفار کرنا اس کو کس کس چیز سے مستفید کرواتا ہے۔
استغفار کے فوائد:
استغفار کے فوائد میں ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے بندے کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ اللہ رب العالمین ارشاد فرماتے ہیں:’’اے میرے بندو! تم سب دن و رات گناہ کرتے ہو اور میں (اللہ) سب گناہ معاف کرتا ہوں، لہٰذا سب مجھ سے بخشش طلب کرو، میں تمہیں معاف کروں گا۔‘‘[صحیح مسلم کتاب البروالصلۃ ، باب تحریم الظلم – ح:2577 ]
انسان جو اپنے گناہوں سے اپنے لئے عذاب کو لازم کرواتا ہے استغفار کی بدولت گناہ بخش دئے جاتے ہیں اور گناہوں کے عذاب سے محفوظ و مامون پاتا ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ استغفار کرنے والا اللہ کے عذاب سے نجات حاصل کرتا ہے۔ چنانچہ اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے:’’اور اللہ ان کو عذاب نہ دیگا اس حالت میںکہ وہ استغفار بھی کرتے ہوں۔‘‘[سورۃ الأنفال:33 ]
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں کو دوچیزوں کی وجہ سے امن حاصل تھا۔ ایک نبی اکرم ﷺ اور دوسرا استغفار۔ نبی اکرم ﷺ چلے گئے اور استغفار باقی ہے۔ [تفسیر ابن کثیر – جلد :2 – ص:786 ]یعنی لوگوں کو دو چیزوں کی وجہ سے اللہ کے عذاب سے امان ملتا تھا ایک نبی اکرم ﷺ کی ذات مبارکہ جب تک کہ وہ اس دنیا میں موجود تھے لوگ اللہ کے عذاب سے محفوظ تھے اور یہ ایک سبب دنیا سے رخصت ہوا جبکہ دوسرا سبب ابھی باقی ہے اور وہ استغفار ہے۔
مستدرک حاکم میں حضرت ابو سعید ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’شیطان نے کہا: اے رب! مجھے تیری عزت کی قسم! جب تک تیرے بندوں کے جسموں میں ان کی رُوحیں باقی رہیں گی میں انہیں گمراہ کرتا رہوں گا۔ رب تعالیٰ نے فرمایا: مجھے میرے عزت و جلال کی قسم! جب تک وہ مجھ سے استغفار کرتے رہیں گے، میں انہیں معاف کرتا رہوں گا۔‘‘ امام حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ [المستدرک علی الصحیحین للحاکم- جلد 4 – ص290 – ح:7672 ]
امام حاکم رحمہ اللہ نے المستدرک میں ایک حدیث لائی ہے جس کو انہوں نے صحیح الاسناد کہا ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
’’جس نے کثرت سے استغفار کیا تو اللہ تعالیٰ اُسے ہر غم اور تکلیف سے نجات دے گا، اور ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ پیدا فرمادے گا، اُسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے وہم و گمان بھی نہ ہوگا۔ ‘‘[المستدرک علی الصحیحین للحاکم- جلد4 ، ص:291 ، ح:7677 ]
استغفار کی بدولت انسان کو بہترین سامان زندگی میسر ہوتا ہے۔ اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے:’’اور یہ کہ تم لوگ اپنے گناہ اپنے رب سے معاف کراؤ پھر اسی کی طرف متوجہ رہو وہ تم کو وقت مقرر تک اچھا سامان (زندگی) دے گا۔‘‘[سورۃہود:03 ]۔استغفار کی وجہ سے اللہ رب العالمین آسمان و زمین کی برکتوں سے نوازتا ہے اور مال و اولاد میں برکت عطا فرماتا ہے۔
امام شمس الدین القرطبی رحمہ اللہ نے اپنی مشہور تفسیر ’’الجامع الأحکام القرآن‘‘[ تفسیر القرطبي ، جلد 18 ، ص:302 ] میں امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ نقل کیا ہے کہ اُن سے آکر کسی نے قحط سالی کی شکایت کی تو انہوں نے اسے استغفار کی تلقین کی، دوسرے شخص نے فقرو فاقہ کی شکایت کی اسے بھی اُنہوں نے استغفار کی تلقین کی۔ ایک اور شخص نے اپنے باغ کے خشک ہونے کا شکوہ کیا ،اُسے بھی فرمایا استغفار کر۔ ایک شخص نے کہا میرے گھر میں اولاد نہیں ہوئی اسے بھی استغفار کی تلقین کی۔ مجلس میں بیٹھے ایک شخص نے عرض کیا کہ آپ نے سب کو استغفار ہی کی تلقین کیوں کی؟ آپ نے قرآن کی آیات تلاوت کرکے فرمایا کہ میں نے اپنے پاس سے یہ بات نہیں کی یہ وہ نسخہ ہے جو ان سب باتوں کے لئے اللہ نے بتلایا ہے۔ ‘‘ نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا: ’’ اپنے رب سے اپنے گناہ بخشواؤ(اور معافی مانگو) وہ یقینا بڑا بخشنے والا ہے، وہ تم پر آسمان کو خوب برستا ہو اچھوڑدے گا، اور تمہیں خوب پے درپے مال اور اولاد میں ترقی دے گا اور تمہیں باغات دے گا اور تمہارے لئے نہریں نکال دے گا۔ ‘‘[سورۃ نوح:10-12 ]
مندرجہ بالا نصوص شرعیہ سے استغفار کی اہمیت فضیلت اور فوائد معلوم ہوکر ہمیں بکثرت اس کا اہتمام کرنا چاہیے استغفار کے فوائد اور بہترین نتائج اس دنیوی زندگی میں حاصل ہوتے ہیں، وہی اس کا بہترین معاوضہ اور بدلہ آخرت میں بھی دیا جائے گا، جیسا کہ اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’خوشخبر ی ہے، اس شخص کے لئے جو اپنے نامۂ اعمال میں بہت زیادہ استغفار پائے گا۔ ‘‘[صحیح الجامع الصغیر للألباني- جلد2 ،ص:729، ح:3925]
اللہ رب العالمین ہم سب کو توبہ واستغفار کی توفیق عطا کرے اور ہمیں توبہ و استغفار کے فوائد و فضائل سے نواز کر ہم سب اور ہمارے والدین کی مغفرت فرمائے۔
آمین یا مجیب الدعوات
))))((((((((((