تکبر بالاجماع ایک شیطانی صفت اور ایک گمراہ کن عمل ہے۔سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا تکبر حق کو جھٹلانے اور لوگوں کو حقیر و ذلیل سمجھنے کا نام ہے۔ پیغمبراسلام حضرت محمدعربی ؐ پر جب یہ آیت اُتری :’’اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراتے رہیں ۔‘‘تو رسول اللہ ؐ وادیٔ بطحا کی طرف گئے اور وہاں موجود صفا نامی ایک چھوٹی سی پہاڑی پر چڑھے ، بآواز بلندفرمایا:’’یاصباحاہ‘‘یہ وہ الفاظ ہیں جو اہل مکہ اُس وقت پکارتے تھے جب انہیں کسی خطرے کا اندیشہ درپیش ہوتا۔ یہ آواز سنتے ہی اہل قریش پہاڑی کے نیچے جمع ہوگئے ،رسول اللہؐ نے اُن سے مخاطب ہوئے : اگر میں تم لوگوں کو بتائوں کہ اس پہاڑی کے پیچھے سے دشمنوں کا ایک لشکر آنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا مانوگے؟لوگوں نے جواب دیا کہ ہمیں تو آپؐ سے کبھی جھوٹ کا تجربہ ہوا ہی نہیں (لہٰذا آپ سچ ہی بول رہے ہوں گے)آنحضرتؐ نے فرمایا:پھر میں تمہیں اُس سخت عذاب سے ڈراتا ہوں جو تمہارے سامنے آرہا ہے (بخاری۔4971)۔یہ سن کر آپ ؐ کے لوگوں کے مجمع میں موجود آپ ؐ کے سگے چچا ابو لہب نے از راہ ِ تکبر وجہالت کہا :اے محمد ؐ تو تباہ ہو(نعوذ باللہ)کیا تونے اسی لئے ہمیں جمع کیاتھا؟ ابو لہب کے یہ گستاخانہ الفاظ سن کر لوگوں کا سارا مجمع منتشر ہوگیا‘ گویا کہ ابو لہب کاتکبر اس کی اپنی ذات اور وہاں موجود دوسرے تمام لوگوں کے لئے حق سے دوری کا سبب بنا۔
سورۃاللہب کا نزول: قرآن کریم کی سورہ ٔ لہب میں اللہ تعالیٰ ابو لہب اور اس کی بیوی دونوں کے لئے ایک بہت بڑی تباہی اور شدید وعید کا اعلان کر تاہے:
’’ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ خود ہلاک ہوگیا۔نہ اس کے کام اس کا مال آیااور نہ جو کچھ اس نے کمایا۔عنقریب وہ شعلے والی آگ میں داخل ہوگا۔اور اس کی بیوی (بھی آگ میں داخل ہوگی)جو ایندھن اُٹھانے والی ہے۔اس کی گردن میں مضبوط بٹی ہوئی رسّی ہوگی‘‘
ترجمہ از’’ دعوت القرآن‘‘
ترتیبِ مصحف کے اعتبار سے یہ سورت قرآنِ مجید کی ایک سو گیارویں(۱۱۱)سورت ہے جو مکہ میں نازل ہوئی۔ابو لہب نے چونکہ دین ِ حق کو جھٹلایا تھا اور دوسروں کو بھی حق سے روک رہاتھا ،لہٰذا اللہ تعالیٰ نے یہاں ماضی کے صیغے میں اُس کے عبرت ناک مستقبل سے دنیا کو آگاہ کیااوراُس کی بیوی اُمِ جمیل کے آگ میں ڈالے جانے کی خبر بھی سنا دی۔یہ ایک بدکرداراورچغل خور عورت تھی، ہمیشہ لوگوں میں فساد پھیلاتی رہتی تھی۔دونوں میاں بیوی رسول اللہؐکے بدترین دشمنوں میں سے تھے، انہیںجب بھی موقع ملتا تھاآپؐکی مخالفت وعندا میں ساری حدیں پھلانگتے تھے۔چنانچہ تفسیر’’دعوت القرآن‘‘ میں ابوزنادؒ کی ایک روایت موجودہے ،وہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے قبیلہ بنودیل کے ایک شخص ربیعہ بن عبادؓ جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے‘ نے بتایا کہ میں نے نبی کریمؐ کو زمانہ ٔجاہلیت میں ذوالمجاز بازار میں دیکھا ‘آپؐ فرمارہے تھے : اے لوگو!لا الٰہ الا اللہ کہو فلاح پائوگے۔‘‘لوگ آپؐ کی بات سننے کے لئے جمع ہوجاتے مگر آپؐ کے پیچھے پیچھے ایک شخص تھا‘ اُس کا چہرہ روشن‘آنکھیں بھینگی اورسرپر بالوں کی دو مینڈھیاں تھیں۔وہ رسول اللہؐ کے بارے میں کہتا: لوگو!اس کی بات نہ سننا، یہ( خاکم بدہن) بے دین اورکاذب ہے(نعوذباللہ)۔آپ ؐ جہاں بھی تشریف لے جاتے ‘وہ آپؐ کے پیچھے پیچھے ہوتا۔میں نے آپ کے بارے میں پوچھا تو لوگوں نے مجھے رسول اللہ ؐ کا نسب بتایااور انہوں نے مجھے بتایایہ آپ ؐ کا چچاابو لہب ہے(جلدپنجم صفحہ۔379)۔
حق دشمنی کا نتیجہ :۔ ابو لہب کا اصل نام عبدالعزیٰ تھا ‘یعنی بُت عزیٰ کا بندہ۔البتہ وہ لوگوں کے درمیان ابولہب کے لقب ہی سے معروف تھا۔اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اُس کا چہرہ آگ کے مشابہ سرخ تھا، اسی مناسبت سے اُسے ابو لہب کہا جاتا تھا ۔’ ’اللہب‘‘بے دھوئیں کے شعلے کو کہا جاتا ہے۔ بہر حال سورۂ لہب کے نزول کے قریب قریب آٹھ سال بعدغزوئہ بدرکا معرکہ پیش آیا جس میں مسلمانوں کو زبردست فتح نصیب ہوئی اور کفاران ِ مکہ کا سارا سازو سامان بے سود ثابت ہوا۔مسلمانوں کی فتح یابی کی اطلاع جب مکہ پہنچی تو ابو لہب اس قدر مایوس اور خوف زدہ ہوا کہ گھر کے اندر محصور ہوکر رہ گیابلکہ غم وغصے کے عالم میں کھاناپیناتک چھوڑدیا۔اسی اثنا میں اسے عَدَسَہ نامی ایک بیماری نے آپکڑلیا،اس کے پورے جسم پر چھوٹے چھوٹے دانے(pustules) نکل آئے جو اس کی ہلاکت کا باعث بنے۔ اس کی لاش کئی روز تک اس کے گھر میں بے گور وکفن پڑی رہی ‘جب اس سے بدبو آنے لگی اور آس پاس میں رہنے والوں کو تکلیف دینے لگی تو لوگوںنے لکڑیوں کے سہارے اس کی لاش کو کھینچ کھانچ کر بستی سے دور ایک گڑھے میں ڈال دی۔
فون نمبر8825090545