ہماے ہاں عام رواج ہے کہ کسی اصطلاح یا اصطلاحات کا زیادہ ذکر آئے یا اس کی تکرار سنائی دے تو لوگ اُکتاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ وہ بات خواہ جتنی سچی اور دُرست ہو، اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ اس کی دو وجوہ ہیں: پہلی یہ کہ ہمارے ہاں ان اصطلاحات کے نام پر عوام کو بے وقوف بنانے کا عمل جاری رہا۔ دوسرا ہمارے ہاں علمی رویہ نہیں، یار لوگ کچھ پڑھنے، سمجھنے کی زحمت نہیں فرماتے۔ بعض تو کتاب یا مطالعہ سے ایسے بھاگتے ہیں جیسے لفظ نہیں سانپ، بچھو ہیں جو اُنہیں ڈنک مار دیں گے۔ ففتھ جنریشن وار فیئر کی اصطلاح کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔ اسے سمجھنے، پڑھنے کی زحمت کوئی نہیں کرتا۔پرواسٹیبلشمنٹ قوتیں اس اصطلاح کو استعما ل کر رہی ہیں تو یہ باقیوں کے لیے کافی ہے کہ بلاسوچے سمجھے اس کی مخالفت کریں۔ انہیں یہ خیال نہیں کہ اس کا ہدف اسٹیبلشمنٹ یا کوئی اور قوت نہیں بلکہ ملک یعنی ریاست ہے۔ بات بڑی سادہ ہے، مشکل الفاظ اور اجنبی، نامانوس اصطلاحات میں پڑے بغیر یہ سمجھ لیجئے کہ اب جنگیں لڑنے کا اسٹائل بدل گیا ہے۔ کسی زمانے میں فوجیں ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتی تھیں، جس کی فوج زیادہ دلیر، طاقتور وہ جیت گیا۔ پھر ہتھیار اہم ہوئے، جدید ہتھیار، ٹیکنالوجی والے میدان مار لیتے۔ ہتھیار جدید ہوتے گئے، معاملہ نیوکلیائی بموں، میزائلوں تک جا پہنچا۔ پھر معیشت زیادہ اہم ہوئی۔ سوؤیت یونین ہزاروں نیوکلیائی ہتھیاروں کے باوجود شکست کھا گیا، اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے کہ معیشت برباد ہوگئی تھی۔ یہ سب عسکری اصطلاح کے مطابق فرسٹ جنریشن وار فیئر، سیکنڈ جنریشن وارفیئر، تھرڈ جنریشن وار فیئر تھے۔ فورتھ جنریشن وار فئیر میں دہشت گردی کے ہتھیار کو برتا گیا۔ مختلف ممالک میں دہشت گرد تنظیمیں پیدا ہوئیں یا کی گئیں۔ بعض ماہرین کے خیال میں روس کو زچ کرنے کے لیے بالواسطہ طریقے سے چیچن مسلح مزاحمت کو بھی مدد فراہم کی گئی۔
یہاں پر چلتے چلتے سمجھ لیں کہ جنریشن سے مراد زیادہ جدید، ایڈوانس معاملہ ہے۔ ایک میزائل تیار ہونے کے چند سال بعد اس کا جدید یعنی سیکنڈ جنریشن ماڈل آجاتا ہے، پھر تھرڈ جنریشن۔ دوائیوں میں بھی ایسا ہے۔ کئی روایتی اینٹی بائیوٹک کے زیادہ جدید تھرڈ جنریشن اینٹی بائیوٹک آچکی ہیں۔ خیر عالمی قوتوں کو یہ محسوس ہوا کہ تھرڈ جنریشن اور فورتھ جنریشن وار فیئر کے امتزاج کے باوجود بعض جگہوں پر کامیابی نہیں ہو رہی۔ یہ محسوس کیا گیا کہ کہیں کہیں پر خراب معیشت، کم عسکری قوت کے باوجود مکمل شکست نہیں ہو پا رہی۔ وہاں قوم کا اتحاد اور یکجہتی رُکاوٹ تھی، وطن پرستی اور ایک قوم ہونے کی وجہ سے مزاحمت جاری ہے۔ تب نیا مرحلہ آیا، جسے ففتھ جنریشن وار فیئر کہا جا رہا ہے۔ یہ نظریات کی جنگ ہے۔ مختلف نظریاتی، مسلکی، فکری ایشوز کھڑے کر کے کسی بھی قوم کو تقسیم کرنا۔ ان کے مابین ایسی نفرتیں پیدا کر دینا، جس سے کوئی خاص مسلکی، لسانی، علاقائی گروہ یا آبادی اس قدر ناخوش، بیزار اور ناراض ہوجائے کہ ملکی سالمیت کی جنگ اس کے لیے اہم نہ رہے۔ مختلف جگہوں پر اس کے مختلف ماڈل آزمائے گئے۔ کہیں پر حکمران شخصیت یا خاندان کے خلاف بغاوت کے جذبات پیدا کرنے، کسی ملک میں حکمران طبقات یا حکمران جماعت کے خلاف نفرت اور شدید غصہ پیدا کرنا۔ جہاں ایک سے زیادہ لسانی، مسلکی، علاقائی سیاسی قوتیں یا کمیونٹیز موجود ہوں، وہاں ان کے باہمی اختلافات بڑھانا، کشیدگی میں اس حد تک اضافہ کہ اتحاد پارہ پارہ ہوجائے اور قومی موقف یا بیانیہ کی کوئی صورت باقی نہ رہے۔ اس کے مختلف ہتھیار ہیں۔ اخبارات، ٹی وی چینل وغیرہ کو مانیٹر کرنا آسان ہے، وہاں زیادہ گڑ بڑ نہیں ہوسکتی، کسی حد تک سنسر یا کنٹرول میں معاملہ آجاتا ہے۔ اس لیے زیادہ آسانی سے سوشل میڈیا اور سائبر میڈیا استعمال کیا جاتا ہے۔ نفرت انگیز تحریر، تقریر، ویڈیوکلپ، زہریلا مواد شائع کرنے والی ویب سائٹس وغیرہ وغیرہ۔ سوشل میڈیا سائٹس فیس بک، ٹوئٹر کے ذریعے یہ کام کرنا بہت آسان ہے کہ کسی بھی ملک میں بیٹھ کر بے شمار فیک اکاؤنٹ بن سکتے ہیں، جنہیں بند کرانا بھی آسان نہیں۔کسی بھی من پسند تحریر یا کلپ کو وائرل کیا جاسکتا ہے۔ فیس بک میں یہ بھی آسانی ہے کہ کلوز گروپس بن سکتے ہیں۔اپنے ہم خیال افراد اس گروپ میں شامل کر لیں ،ہمارے ہاں ایک اور بھی رواج ہے کہ اگر کوئی شخص اس قسم کے خطرے سے خبردار کرنے لگے تو اس کی بات کو سازشی نظریہ کہہ کر ٹال، نظرانداز، حوصلہ شکنی کر دی جاتی ہے۔ تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ ’’بیمار‘‘ ذہن لوگ ہر معاملے میں سازش کی بو دیکھتے ہیں اور ان کا مقصد صرف سازشی نظریے گھڑنا ہے، ورنہ کیا عالمی قوتوں کو اور کوئی کام نہیں جو ہر وقت ہمارے خلاف سازشیں کرتے رہیں وغیر ہ وغیرہ۔ خاکسار یہ بات مگر عاجزانہ یقین سے کہہ سکتا ہے کہ اس کالم میں جو کچھ بیان کیا گیا، وہ کوئی سازشی تھیوری نہیں۔ ہمارے اردگرد پچھلے چند برسوں میں رونما ہونے والے واقعات کے بغور مشاہدے سے یہ نتائج اخذ کئے گئے۔ چند مختصر مثالیں دینا چاہوں گا۔ نائن الیون یعنی ۱۱؍ ستمبر ۲۰۱۱ء کو امریکا پر حملہ ہوتا ہے، خود امریکیوں کے دعوے کے مطابق یہ القاعدہ نے کیا اور طیارے ہائی جیک کرنے والے اس کے ایجنٹ تھے، افغانستان پر حملہ کر کے طالبان حکومت ختم کر دی جاتی ہے۔ اُسامہ بن لادن اور ا لقادعدہ کا نائب فرار ہوجاتا ہے۔ایک لمحے کے لیے تمام امریکی دعوے دُرست مان لیں، تب بھی امریکا کو القاعدہ کا پیچھا کرنا چاہیے تھا تاکہ درپیش خطرہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے۔ اس کے بجائے عراق کو ہدف بنا لیا جاتا ہے۔ مغرب میں مقیم چند مشکوک عراقی نمودار ہو کر دنیا کو یہ کہانی سناتے ہیں کہ صدام حسین کے پاس ’’تباہی پھیلانے والے ہتھیار‘‘ موجود ہیں۔ امریکی جنرل کولن پاؤل اقوام متحدہ میں دھواں دھار تقریر کر کے اقوام عالم کو ’’قائل ‘‘کرتا ہے۔ دنیا کے نامور اخبارات واشنگٹن پوسٹ اورنیویارک ٹائمز پروپیگنڈے کے لیے اپنے صفحات پیش کردیتے ہیں۔ حتیٰ کہ ایک روز امریکی اپنے برطانوی اتحادی کے ساتھ عراق پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ عراق پر قبضہ ہوگیا، مگر ہتھیاروں کے نام پر ایک نلکی تک نہ ملی۔ بعد میں جنرل کولن پاؤل اپنی کتاب میں شرمندگی ظاہر کرتا ہے کہ اس نے جعلی اور جھوٹی اطلاعات کی بنیاد پر یواین میں تقریر کی تھی۔ نیویارک ٹائمز اپنے سرورق پر قارئین سے جھوٹ اور غلط چھاپنے پر معافی مانگتا ہے۔
عراقیوں کو مگر اس سے کیا ملا؟ عراقی عوام ایک دوسرے سے نفرت کرنے والے مسلکی گروہوں میں بٹ گئے، کرد عراق کے ٹکڑے کرنے کے درپے ہیں۔ نائن الیون سے پہلے عراق بے پناہ معاشی پابندیوں کے باوجود مستحکم وخوش حال تھاجب کہ آج کا عراق ایک تباہ حال ملک ہے۔ جب عراق جیسی کہانی مزید دہرانا ممکن نہیں رہتا، تب کتاب کا ایک نیا باب کھلتا ہے۔ عرب بہار کے نام پر ایک ایسی ’’عوامی بیداری‘‘ کی تحریک چلتی ہے کہ دنیا بھر میں تبدیلی کے خواہاں، آمریت مخالف لوگ پُرجوش ہو کر اس کی حمایت میں لکھتے ہیں۔ ایک لہر آتی ہے جو مصر، تیونس، یمن میں حکمران بدل دینے کی شروعات کر تی ہے۔ مصر میں اخوان کی جیت سے پاکستانی اسلام پسند بھی خوش ہوتے ہیں، وہ بے خبر ہوتے ہیں کہ اس جیت کے پیچھے اصل منصوبہ اخوانیوں کو ذبح کرنے کا ہے۔ یہ ابھی ہارر فلم کا آغاز ہو تاہے۔ اُدھر لیبیا میں فرانس کی جنگی قوت استعمال کر کے قذافی حکومت ختم کی جاتی ہے۔کرنل قذافی قتل ہوئے، مگر اس پرسکون اور نہایت خوشحال چھوٹے سے ملک میں سکون ہونے کے بجائے قبائلی اختلافات ایسے اُبھرے کہ آج خانہ جنگی ہے۔ یمن پر ۳۷ سال حکومت کرنے والے آمر کے ہٹنے پر ہم لوگ بھی خوش ہوئے، مگر اس وقت معلوم نہیں تھا کہ ہدف یمن میں خانہ جنگی اور سعودی عرب کے لیے حوثی قبائل کو خطرہ بنانا تھا۔ شام نے تو ہر ایک کو بھونچکا کر دیا۔ پاکستان اور عرب دنیا کے اسلام پسند بشارالاسد سے بیزار اور ناخوش تھے کہ بہت سا خون ناحق اس خاندان کے ذمے تھا۔ بشار کے خلاف مسلح مزاحمت کو بہت ساری جگہوں پر خوشی سے دیکھا گیا۔ آج اگر پیچھے مڑ کر دیکھیں تو ہر صاحبِ دانش یہی کہے گا کہ کاش !شام میں یہ سب شروع نہ ہوتا۔ حسین ملک تباہ ہوگیا، لاکھوں شامی شہید، لاکھوں مہاجر بنے، اب بھی شام کامستقبل مخدوش نظر آرہا۔ بچ نکلنے والے خوش نصیب ممالک میں وطن پرستی کا جذبہ طاقت ور تھا یا پھر اسٹرکچر ایسا کہ ففتھ جنریشن وار فیئر عناصر سرایت نہ کر سکے۔ ایران اپنی تمام تر معاشی تنگ دستی کے باوجود صرف ایرانی نیشنل اِزم کی وجہ سے بچ پایا۔ایران میں مذہبی حکومت بدلنے کے لیے ہر قسم کے جتن کیے گئے۔ اخبارات کے ریگولر قارئین کو یاد ہوگا کہ چند سال پہلے ٹوئٹر کے ذریعے ایران میں بہت بڑی اپوزیشن تحریک چلائی گئی۔ لاکھوں لوگ تہران اور بڑے شہروں میں اکٹھے ہو جاتے۔ آج وہ کہاں ہیں؟ ایرانی صرف اس لیے تباہ ہونے سے بچ گئے کہ ایرانی اربابِ حل وعقد نے سوشل میڈیا کے ذریعے لڑی جانے والی ففتھ جنریشن وارفیئر کے پیچھے امریکی ہاتھ دیکھ لئے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارت، کویت جیسے ممالک عرب بہار سے محفوظ رہے کہ ان کا اسٹرکچر قبائلی تھا، حکمرانوں نے بروقت قدم اٹھا کر لوگوں کو ریلیف پہنچایا، ٹیکسوں، اشیا ضرورت کے نرخ نصف تک کم کر دیے۔ پریشر ککر سے گیس خارج ہوتی رہی اورخوش قسمتی سے دھماکا نہ ہوا۔ففتھ جنریشن وار فئیر آسان لفظوں میں کسی غیر ملکی دشمن ریاست، غیر ریاستی عناصر وغیرہ کی جانب سے نظریات کی ایسی جنگ ہے جس میں کسی ملک کے عوام کو فکری طور پر منتشر اور تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ یہ سائبر وار ہے، جو سوشل میڈیا کی مدد سے لڑی جاتی ہے۔ فیک ویڈیو، فساد پھیلانے والی فیس بک پوسٹیں، شرانگیز ٹوئٹس، اداروں کو متنازعہ بنانے کی سوچی سمجھی تحریر، مسلکی، لسانی اور علاقائی فساد پھیلانے کی سازشیں۔ دشمن پر حملہ، میزائل پھینکے بغیر۔صرف فتنہ پھیلانے، شکوک پیدا کرنے والی تحریریں، ویڈیو، اسٹیٹس مختلف فیک آئی ڈی کی مدد سے ڈال کر وائرل کر دی جائیں اور قوم کا حوصلہ پست ہو۔ جہاں پہلے ہی سے بعض فالٹ لائنز موجود ہوں۔ مختلف صوبوں کے مابین عدم اطمینان، عدم تحفظ موجود ہو، وہاں جلدی آگ بھڑ ک اٹھتی ہے۔ جب ملکی ادارے پہلے ہی سے کسی حد تک متنازعہ بن چکے ہوں۔ اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت ہو، عدلیہ پر جانب داری کے الزامات عائد کئے جارہے ہوں، سیاست میں شدید قسم کی تقسیم موجود ہو۔ ایک جماعت کے ہیرو، دوسری کے ولن ہوں، ایسے میں دلوں کے اندر جلتے ناپسندیدگی کے الاؤ معمولی سی کوشش سے نفرت کے بھانبھڑ بن جاتے ہیں۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ففتھ جنریشن وار فئیر صرف حکومت، اسٹیبلشمنٹ یا ایجنسیوں کا مسئلہ نہیں۔ یہ ہم سب کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ ملک ہمارا ہے، خدانخواستہ اسے کوئی نقصان پہنچا تو وہ ہمارا نقصان ہے۔ہم سب اس کے اسٹیک ہولڈر ہیں۔ اس دنیا میں بہت کچھ واضح نہیں ہوتا۔ انصاف بعض اوقات نہیں مل پاتا، اس کے لیے ہمیشہ لڑتے رہنا چاہیے۔ مت بھولیں کہ یہ کوئی چھوٹی لڑائی نہیں، لمبی جدوجہد ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ ضروری نہیں کوئی غیر ملکی ایجنٹ بن کر، پیسے لے کر ففتھ جنریشن وار فیئر کے ایجنڈے کو آگے بڑھائے۔کئی لوگ نادانستہ طور پر بھی اس کے لئے استعمال ہو ہی جاتے ہیں۔ بعض لوگ کسی معاملے میں غیر ضروری جذباتیت، حساسیت کا شکار ہو کر بہت آگے چلے جاتے ہیں۔ سرخ لکیریں عبور کرنے سے وہ بعد میں گرفت میں آجاتے ہیں۔ اس میں ان کا اپنا قصور ہے۔ ردعمل ہمیشہ متناسب اورمتوازن ہونا چاہیے۔ خلوص، نیک نیتی کبھی غلط کام کا جواز نہیں بن سکتی۔ ہمارے ہاں بعض فقرے بڑی ہوشیاری، ہنرمندی سے تخلیق کیے جاتے ہیں، ایسے چبھتے ہوئے جملے، ون لائنر جو سننے والوں کو اچھے لگیں اور وہ انہیں بلا سوچے سمجھے آگے بڑھا دیں۔ ففتھ وار فئیر میں ان کی بنیادی اہمیت ہے۔ اگر کوشش کروں تو دو تین کالم ایسے سوچے سمجھے خطرناک جملوں پر لکھے جاسکتے ہیں، جو مکمل طور پر غلط اور کنفیوزنگ ہیں یا پھران میں سچ، جھوٹ کی ملاوٹ ایسے ہوئی کہ عام آدمی دھوکا کھا جائے۔
اس لیے یہ تسلیم کر لیں کہ ففتھ جنریشن وار فیئر صرف تین الفاظ نہیں بلکہ اس کا ایک پس منظر اور اس کی اپنی قوت ہے۔ یاد رکھیں کہ انکار (Denial) صرف ریاست نہیں کرتی بلکہ کبھی عوام اور فعال طبقات بھی حقائق کو دُرست طریقے سے نہ سمجھنے پر سرے سے ان کے انکاری ہوجاتے ہیں۔ دوسرا یہ سمجھ لیں کہ اس قسم کی جنگوں کے اہداف کیا ہیں؟ ہمارے جیسے ممالک میں یہ عوام کو نسلی‘ لسانی‘ مسلکی، علاقائی، گروہی اور نظریاتی طور پر تقسیم کرنے کا کام کرتے ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ ہر انسان کو اپنی زبان، قبیلہ ، برادری، قومیت سے محبت ہوتی ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ رب کریم نے یہ محبت دلوں میں پیدا کی ہے۔سرکارؐ مدینہ نے بہت بار مکہ مکرمہ سے شدید محبت کا اظہار کیا، اپنے قبیلے سے آپؐ کو محبت تھی۔ اس سے روکا بھی نہیں گیا۔ ہاں یہ کہا گیا کہ ظلم پر اپنے قبیلے کا ساتھ دینا عصبیت ہے۔ اپنی زبان، قبیلے، برادری، قومیت سے محبت برائی نہیں، ایسا کرتے ہوئے دوسروں کے لیے نفرت، ناپسندیدگی، بیزاری پیدا کرنا غلط ہے۔ یہ نفرت کے جذبات بڑی ہنرمندی سے پیدا کیے جاتے ہیں۔ ہتھیار یہ ہے کہ مشترک باتوں کو ہدف بنا کر ختم کیا جائے۔ مشترک چیزیں ہی ہمیں ایک دوسرے سے جوڑتی ہیں۔ انسان ہونا، مسلمان ہونا اور پھر وطن کا شیدائی ہونا ان کے مابین رشتے ہیں۔ وطن کے مفادات سب کو ایک کر دیتے ہیں۔ ریاست نے ایک خاص لاشعوری انداز میں عوام کے مابین مشترک رشتے اورتعلق کی کئی جہتیں قائم کر دیں۔ ان میں بات کرنے کے لیے بہت کچھ موجود ہوتا ہے۔ سمجھ دار قومیں ان رشتوں کو مضبوط کرتی ہیں۔ ہمارے ہاں دو غلط کام ہوئے۔ بیڈ گورننس کی وجہ سے عوام کاانتظامیہ، حکومت، ریاست سے اعتماد کم ہوا۔ ملک کے کسی بھی گوشے میں کوئی فرد، خاندان کسی بھی وجہ سے خوف زدہ ہو، مسائل کا شکار ہو تو وہ پولیس کی طرف جانے سے ڈرے گا۔ ریاست کا انتظامی چہرہ پولیس ہے۔ یہ ظالم خوف ناک چہرہ اسے حکومت، ریاست کے قریب نہیں آنے دیتا۔ یہ سلسلہ طول پکڑتا ہے، صحت، تعلیم، روزگار، غرض ہر معاملے میں لوگوں کا فاصلہ بڑھتا جاتا ہے۔ غرض جس ادارے کو غیر متنازع ہونا چاہیے تھا، وہ متنازع ہوگیا۔ ہم اپنے بے شمار مسائل کے خود ذمے دار ہیں، ہم نے ازخود غلطیاں بے پناہ کی ہیں، مگر اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے کئی سنگین مسائل، جنگیں، رقابتیں عالمی قوتوں اور دوست ممالک کی آویزشوں سے پیدا ہوئے۔ باقی باتیں اپنی جگہ، یہ سب ففتھ جنریش وار فیئر کے لیے آئیڈیل ماحول فراہم کرتا ہے۔