کشمیری پنڈتوںکی دیرینہ خواہش بھر آنے کی اُمید
سرینگر //ٹیٹوال سے 50اور کیرن سے 30کلو میٹر کی دوری پر واقعہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی نیلم وادی میں قائم 5ہزار سالہ قدیم مندر ’شاردا پیٹھ‘ کو پاکستان نے کرتار پور راہداری کی طرز پر کھولنے کا گرین سگنل دے دیا ہے ۔کشمیری پنڈٹ طویل عرصے سے دونوں حکومتوں سے مطالبہ کررہے تھے کہ پاکستانی کشمیرمیں واقع ان کے قدیم اورمقدس ترین مندر شاردا تک جانے کی اجازت ملنی چاہیے۔پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے شاردا راہداری کھولنے کیلئے باقاعدہ ایک تجویزپاکستان کو بھیجی جاچکی ہے ۔پاکستانی میڈیا کے مطابق حکومتی رکن اسمبلی چندروز میں وہاں کا دورہ کرکے رپورٹ وزیراعظم کوپیش کریں گے۔تحریک انصاف کے اقلیتی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمارنے میڈیا کوبتایا ’’ پاکستان نے شاردا مندرکی بحالی اور راہداری کھولنے کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے ، میں چندروز میں وہاں جارہا ہوں ، جہاں کورکمانڈرسے ملاقات ہوگی،اس ملاقات کے بعد وزیراعظم کورپورٹ پیش کروں گا، پاکستانی ہندو بھی اس مندرتک جاسکیں گے ، رواں سال ہی یہاں بحالی کا کام شروع کروادیا جائیگا‘‘۔متروکہ وقف املاک بورڈ کے ایک سینئرافسرنے بتایا کہ شاردا مندر کشمیرحکومت کے زیرانتظام ہے اور وہی راہداری کھولنے کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرسکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ فوجی علاقہ ہے جہاں قریب ہی کشمیر کی سرحد ہے۔اس علاقے کوانتہائی حساس سمجھا جاتا ہے اوریہاں غیرملکی سیاح بھی این اوسی کے بغیرنہیں جاسکتے۔معلوم رہے کہ شاردامندرپنڈتوں کا قدیم ترین مندرہے جو علم ودانش کی دیوی شاردا کے نام سے منسوب ہے۔ یہ مندرتقریبا5 ہزارسال پرانا ہے جو 237 قبل از مسیح میں مہاراجہ اشوکا نے تعمیرکروایا تھا۔ مندرکے قریب ہی مدومتی کا تالاب ہے ، اوریہاں اشنان کرتے ہیں۔کشمیر عظمیٰ نے اس حوالے سے حال ہی میں ایک مفصل رپورٹ بھی اس پر شائع کی تھی جس میں کشمیری پنڈتوں نے ہندوپاک سے مطالبہ کیا تھا کہ انسانی جزبہ کے تحت کرتار پور راہداری کی طرز پر شارداکو بھی عقیدت مندوں کی آواجاہی کیلئے کھول دیا جائے ۔ باترگام کپوارہ کے روندر کمار ٹھسو نامی پنڈت ،جو اس وقت جموں میں رہائش پذیر ہیں، نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’ 70برسوں سے ہمار ا یہ مطالبہ ہے کہ اس مذہبی مقامات کو کھولا جائے‘‘۔ اُن کا کہنا ہے کہ میرا سسرال 1947سے قبل سرحد پار آباد تھا لیکن بٹوارے کے بعد وہ یہاں آگئے اور اس طرح نہ وہاں مذہبی تقریبات ہوئیں اور نہ 70سال سے وہاں کوئی جا سکا ‘‘۔انہوں نے کہا کہ کیرن کے جمگنڈ علاقے سے تقسیم سے قبل لوگ وہاں پیدل جاتے تھے اور پوجا پاٹ کے بعد واپس آتے تھے ۔
پنڈتوں کا کہنا ہے کہ کپوارہ کے ٹکر علاقے سے آخری شہری نند لال سادھو تھے، جو 1948میں وہاں سے واپس آئے اور پھر وہاں واپس نہیں جا سکا ۔پنڈت برادی کا کہنا ہے کہ’ اگر پاکستان نے اس مذہبی مقام کو کھولنے کی بات کر دی ہے تو بھارت کے وزیر اعظیم نریند مودی کو ہمارے جذبات کی قدر کرتے ہوئے اس قدیم راستے کو کھولنے کی منظوری دینی چاہیے ۔ سرحد پار نیلم کے لوگ بھی اس راہداری کے کھلنے کا بڑی بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ کس طرح آپسی بھائی چارہ ہوا کرتا تھا ،جب پنڈت یہاں اس مذہبی مقام پر آکر پوجا پارٹ کرتے تھے ۔نیلم کے رہنے والے محمد عطیق خواجہ نامی ایک سماجی کارکن کہتے ہیں،یہ ایک اچھا قدم ہے اور اس کی خوشی سب سے زیادہ نیلم کے لوگوں کو ہے۔ اُس کا کہنا تھا کہ اس کو کھولنے کا فیصلہ دونوں اطراف کے لوگوں کیلئے فائندہ مند ثابت ہو گا ۔ معلوم رہے کہ شاردا مظفرآباد کے شمال مغرب میں 136 کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے نیلم کے کنارے واقع ہے اور سطح سمندر سے اس کی بلندی 1981 میٹر ہے۔ کیرن سے یہ مقام صرف 30کلو میٹر کی دوری پر ہے اور ٹیٹوال سے یہ مقام 50کلو میٹر دورہے ۔نیلم ایک خوبصورت علاقہ ہے اور مظفرآباد سے کیل تک ایک نیشنل ہائی وے بھی گزرتی ہے جس کو کرناہ ، کیرن کے لوگ آسانی سے دیکھ سکتے ہیں جبکہ کیرن اور مظفرآباد کے بیچ پاکستانی زیر انتظام کشمیر کا ضلع اٹھ مقام بھی آتا ہے ۔یاد رہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں واقعہ کیرن اور کرناہ 1947سے قبل ضلع مظفرآباد کے علاقے تھے تاہم جب تقسیم ہوئی تو نیلم پاکستانی زیر انتظام کشمیر اور آدھا کیرن اور کرناہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آگیا جس کے بعد نہ صرف کشمیری پنڈت شاردا جا سکے اور نہ ہی مسلم آبادی اپنے بچھڑے ہوئے لوگوں کو مل پائی۔ تاہم سال2005میں دونوں حکومتوںنے ٹیٹوال میں کشن گنگا پر ایک پل تعمیر کیا جس کے آدھے حصے کو پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی حکومت نے تعمیر کیا اور آدھا حصہ بھارت نے، جس کے بعد صدیوں سے بچھڑے لوگوں نے اس پل سے آر پار ہو کر بچھڑوں سے ملاقاتیں کیں ہیں ۔
وزیر اعظم کو خط لکھا تھا:محبوبہ
سرینگر // پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ شاردا پیٹھ کھولنے سے ہندوپاک میں کشیدگی مزید کم ہوگی۔انہوں نے کہا’’ زیادہ لمباعرصہ نہیں گذرا، میں نے وزیر اعظم کو خط لکھ کر کشمیری پنڈتوں کیلئے شاردا پیٹھ کھولنے پر زور دیا تھا‘‘۔انہوں نے کہا کہ اس بات کو بھی اجاگر کیا گیا تھا کہ لائن آف کنٹرول پر ہمیشہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی رہتی ہے، اس لئے اس اقدام سے کشیدگی کے اثرات زائل ہونگے۔