گزرے وقتوں کی کوکھ بھی ہمیشہ بھری ہوئی ملتی ہے اور اس کوکھ کا کمال یہ ہے کہ وہاں بے ترتیب کچھ بھی نہیں ہے۔ ہر پل، دن، ماہ و سال ایک قرینے سے رکھے ہوئے ہیں۔ یہ سب کتنا حیران کن ہے۔ مگر اَن گنت حقائق ایسے بھی ہیں جو ہم تک نہیں پہنچ سکے۔ بہت سارے حکمرانوں نے کتب خانوں کو آگ لگادی کہ جنگ اور قبضے کو آنکھیں نہیں ہوتی، اس لیے ہر چیز فنا کردی جاتی ہے۔ اتنی بربادیوں کے باوجود بھی ہمارے پاس تھوڑا بہت علم ضرور ہے کہ ہم جان سکیں کہ بِیتے ادوار میں، شہر کم اور جنگ کے میدان زیادہ آباد ہوتے۔ اعتماد کم اور شک کے کانٹیدار درخت زیادہ اُگتے۔ رشتوں سے محبت کی تان تخت و تاج کے سامنے آکر دم توڑ دیتی۔ کیونکہ تخت و تاج سے زیادہ مقدس اور کوئی رشتہ نہیں ہوتا تھا ان کی نظر میں۔اکتوبر 1504ء بابر کے لیے ایک اچھا وقت تھا۔ اسی برس وہ کابل اور غزنی کا بادشاہ بن گیا۔اس نے جتنی حکومت کی حاصلات کے لیے تگ و دو کی تھی۔ اُمیدوں اور تمناؤں کے جتنے خیالی لشکر تیار کیے تھے ، اُن سب کے حصے میں کامیابی کے ہرے بھرے نخلستان آئے۔
بابر ابھی اپنی فتح کے خمار کے ابتدائی دنوں کالطف لے رہا تھا کہ اُسے 1505ء میں ہندوستان پر حملہ کرنے کی دعوت ملی اور وہ جلال آباد سے، خیبر لک سے پشاور کی طرف بڑھا مگر دریائے سندھ پار نہیں کیا۔ پھر کوہاٹ، بنگش، بنوں سے ہوتا ہوا مُلتان جا پہنچا اور پھر غزنی کے راستے کابل آیا۔ وہ اپنی ’’تزک با بری ‘‘میں میں لکھتا ہے کہ ’’میں نے اس سے پہلے کوئی گرم ملک نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی ہندوستان کا ملک۔ میں جب وہاں پہنچا تو مجھے وہاں بالکل ایک نئی دُنیا نظر آئی۔ سبزیاں، جھاڑیاں، درخت، جنگلی جانور۔ یہ سب میرے لئے نئے اور حیران کردینے والے تھے۔‘‘ کہا جاتا ہے کہ بابر کا ہندوستان پر یہ پہلا حملہ تھا۔ 1507ء میں اس نے ذوالنون کے بیٹوں کو شکست دے کر قندھار پر قبضہ کیا اور اسے اپنے بھائی نصیر مرزا کو سپرد کرکے کابل کی طرف روانہ ہوا۔ وہ جولائی 1507ء میں کابل پہنچنے پر لکھتاہے کہ وہ ’’بڑے مال غنیمت اور نام و شہرت کے ساتھ کابل میں داخل ہوئے۔‘‘
بابر1508ء کے یہاںکابل میں 17 مارچ کو نصیرالدین ہمایوںپیدا ہوا۔ اس کی والدہ کا نام ماہم بیگم تھا جو بابر کی سب سے چہیتی اہلیہ تھیں۔ ایک برس بعد یعنی 1509ء میں کابل میں ہی کامران مرزا پیدا ہوا جن کی والدہ کا نام گل رُخ بیگم تھا جس سے بابر بادشاہ کا عقد 1508ء میں ہوا تھا۔اگر تاریخ کے اوراق دیکھیں تو ہمایوں کی موت 1556ء میں ہوئی اور کامران مرزا نے یہ جہان 1557ء میں چھوڑا۔ ان دونوں بھائیوں نے جنم میں بھی ایک برس کا فاصلہ رکھا اور یہ جہان چھوڑنے میں بھی ایک ہی برس کا فاصلہ تھا۔ بس فرق فقط مٹی کا ہوا۔ ہمایوں کو ہندوستان کی مٹی نے اپنی گود میں لیا اور کامران کو مکہ کی مٹی نصیب ہوئی۔ ان دونوں بھائیوں میں اور بھی بہت ساری مماثلتیں تھیں، مگر ان کے درمیان ایک جیسی باتیں صرف واقعات کی حد تک نظر آتی ہیں۔ طبیعت کے حوالے سے نہیں۔ گُل رُخ بیگم سے دوسرا بیٹا عسکری مرزا بھی تھا۔ہم جو ان برسوں کے ماہ و سال میں سفر کریں گے تو اس سفر کو سمجھنے کے لیے ایک بنیادی نکتے کو ہمیں ضرور ذہن میں رکھنا چاہیے۔ میں یہ نکتہ’’ہمایوں نامہ‘‘ سے اُدھار لیتا ہوں۔گُل رُخ کا نام بابر نے اپنی تحریر میں نہیں لیا۔ اس تغافل کے معنیٰ یہ نہیں ہیں کہ، وہ کسی نچلے خاندان کی فرد تھیں۔ بہرحال ان تینوں خواتین (بابر نے 4 شادیاں کی تھیں۔ ماہم بیگم تیمور خاندان سے تھیں۔ باقی 3 کے نام: معصومہ بیگم، ‘گل رخ بیگم اور دلدار بیگم) کے سلسلے میں بابر اور ان کی بیٹی گلبدن بیگم نے جو تغافل برتا ہے،اُس سے یہ لازماً ظاہر ہوتا ہے کہ، وہ شہزادیاں نہ تھیں، یوں وہ یقیناً اچھے خاندانوں کی بیٹیاں تھیں مگر ان کو بیگم کا لقب کبھی نہیں دیا گیا سوائے ماہم بیگم کے۔ بابر بادشاہ نے اپنے خاندان کو کابل سے ہندوستان آنے کا حکم اس لیے دیا تھا کہ وہ اپنی محبت کی بنا پر ایسا کرنے پر مجبور تھا۔اس کے ماسوائے نقل وطن کے کچھ سیاسی مقاصد بھی تھےکیونکہ کابل اس وقت تیموری خاندان کی شہزادیوں سے قریب قریب بھرا ہوا تھا۔ یوں بھی کامران مرزا اور اس کی حکومت سے یہ سب کی سب بہت تنگ تھیں۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ، کامران مرزا جس ماں کا بیٹا تھا وہ ان بڑی خواتین کے ہم پلہ نہ تھیں۔‘‘
میرزا کامران
ہمایوں اورکامران مرزا کی شخصیت کے حوالے سے ہمیں 2 قسم کی تحریریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ایک مرزا کامران کو بہتر سمجھنے والے اور دوسرے وہ جو ہمایوں کو اس حوالے سے قصوروار نہیں ٹھہراتے۔ بہرحال یہ 40 برس ان بھائیوں پر کیسے گزرے ،ان کے ساتھ چل پڑتے ہیں۔ سفر کے اختتام پر آپ ہی بہتر فیصلہ کرسکیں گے۔بابر یقیناً ایک مستقل مزاج انسان تھا مگر ہمایوں میں اس خاصیت کی کمی تھی۔البتہ وہ سخی اور خوش طبیعت ضرور تھا اور مطالعے کے ساتھ لگاؤ اُسے وراثت میں ملا تھا۔ ساتھ میں پَل میں تولہ پل میں ماشہ والی طبیعت رکھتا تھا۔ اُس کی سب سے بڑی خو ش نصیبی شاید یہ تھی کہ وہ ماہم کی کوکھ سے جنما تھا، اس لیے وہ بابر کے دل کے بہت قریب تھا۔ 1530ء میں جب ہمایوں 22 برس کا تھا تو شدید بیمار ہوگیا اور اس کی صحت یابی کے لیے بابر نے اُس کی بیماری خود پر سوار کرلی اور 26 دسمبر 1530ء کو چہار باغ کے محل آگرہ میں یہ جہانِ فانی چھوڑا۔ جہان ناپائیدار چھوڑنے سے پہلے اُس نے اپنے تخت و تاج کا مالک ہمایوں کو بنایا۔ یہ اعلان اور شہزادوں کے لیے تو برداشت کرنے جیسا تھا مگر گل رُخ کے بیٹوں، کامران مرزا اور عسکری مرزا کے لیے مایوس کردینے والا تھا۔ اس اعلان نے ان کو نفسیاتی طور پر خود کو تنہا سمجھنے پر مجبور کردیا اور اس اکیلے پن کے خیال نے کامران کے ذہن میں ایسی جڑیں پکڑیں کہ یہ خیال بڑھتے بڑھتے ایک دلدل کی شکل اختیار کرگیا، اُس نے جو عمل کیے وہ اُسے اس مایوسی کی دلدل میں غرق کرتے گئے۔جس وقت بابر کے سانس کی ڈور ٹوٹی، کامران مرزا اُن دنوں قندھار میں تھا اور یہ خبر سن کر اُس نے عسکری کو قندھار میں چھوڑا اور وہاں سے آکر لاہور پر قبضہ کرلیا۔ ہمایوں نے مصلحتاً فرمان جاری کردیا کہ’’کابل، قندھار اور پنجاب کامران کے حوالے ہیں‘‘۔ اس اعلان پر شکریہ ادا کر نے کے لیے کامران، ہمایوں کو تحائف، غزلیات اور قصائد بھی نذرکرتا رہا۔’’دیوان میرزا کامران‘‘ کا مقدمہ تحریر کرنے والے محترم محمد محفوظ الحق لکھتے ہیں کہ’ ’یہ سلسلہ ٔارادت و محبت کچھ ہی دنوں تک جاری رہ سکا کیونکہ آگے چل کر دونوں بھائیوں میں گشیدگی شروع ہوگئی اور اس کا خاتمہ کامران کی نابینائی پر ہوا۔ یہ جنگ اور اس کا نتیجہ بہت عبرت خیز ہے۔ اکثر مؤرخین کا خیال ہے کہ اس لڑائی میں ہمایوں حق پر اور کامران ناحق پر تھا۔جوہر اوربایزید(جنہوں نے دربار کے واقعات لکھے ہیں) ہمایوں کے خوانِ کرم کے پروردہ تھے۔ اُنہوں نے حق نمک ادا کیا۔ گلبدن بیگم بھی ہمایوں کے ساتھ رہی اس لیے اُس نے بھی اُس کا پاس رکھا۔ رہا ابوالفضل اور اُس کے معاصرین وہ بھی ہمایوں کے بیٹے (اکبر) کے زلہ خوار تھے، اس لیے وہ بھی کامران مرزا سے بیزار نظر آتے ہیں اور ہر جگہ اُسے باغی، سرکش دشمن دولت ابد قرین کے خطاب سے یاد فرماتے ہیں۔
ہمایوں ہندوستان میں:
کامران جب کابل اور قندھار سے آگرہ پہنچا اور باغ گل فشاںمیں ٹھہرا تو گلبدن بیگم ہمیں بتاتی ہے کہ، کامران آگرہ پر قبضہ کرنے کے غرض سے آیا تھا۔ بہرحال کچھ بھی ہو،کامران نے ہمایون کی کبھی مدد نہیں کی۔ ہمایوں کے جو بھی اچھے دن گزرے تھے اُن پر شام ڈھلتی جا رہی تھی۔7جون 1539ء میں چوسہ کے مقام پر جنگ ہوئی جس میں ہمایوں کو زبردست شکست ہوئی کہ سلطنت کی بساط بکھر کر رہ گئی۔ وہ اپنے بھائیوں کی چالوں اور شکست سے زچ ہوکر آگرہ میں خانہ نشین ہوا۔ ان ہی دنوں میں ہندال جو الور گیا ہوا تھا ،وہ بھی لوٹ آیا، تینوں بھائی مل کر بیٹھے اور کامران نے ہمایوں کو فوجی مدد کا پکا یقین دلایا، مگر جب وقت آیا تو پتہ چلا کہ، شیرشاہ، گنگا پار اُتر چکا ہے اور کامران نے چند سپاہیوں کے سوا ایک آدمی بھی ہمایوں کی مدد کے لیے آگرہ نہیں بھیجا۔ یہ وعدہ خلافی کے سوا ایک خطرناک قسم کا دھوکہ تھا۔ہمایوں بھاگتا ہوا جب لاہور پہنچا تو ایک بار پھر چاروں بھائی (ہمایوں، عسکری، ہندال اور کامران) وہیں پر اکٹھے ہوئے اور شیرشاہ کے خلاف جنگ کرنے کا مشورہ کیا مگر یہ سارے صلاح و مشورے، باتیں اور محبتیں فقط چہروں تک ہی محدود تھی کیونکہ دل میں کچھ اور ہی تھا جو نفرتوں کے بیج کو پانی دیتا تھا۔’’دیوان میرزا کامران ‘‘کا ایک ورق جس پر مغل شہنشاہ جہانگیر اور شاہ جہاں کے دستخط بھی ثبت ہیں، کی روایت پہ ہمیں یہ بھی یقین کرنا چاہیے کہ یہ چاروں بھائی جب شوریٰ کے لیے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے تو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بالکل بات نہیں کی ہوگی کیونکہ آنکھیں سچ کو چھپا نہیں پاتیں۔ اتنے میں جب پتہ چلا کہ شیرشاہ لاہور کی طرف بڑھ رہا ہے تو ہمایوں نے بدخشاںپر قبضہ کرنے کا سوچا مگر کامران راضی نہ ہوا۔ ہمایوں کے سامنے سندھ کی طرف جانے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ہمایوں 'راوی پار کرکے، بھکر، ملتان سے ہوتا ہوا 'ببرلو پہنچا اور وہاں باغ میں قیام پذیر رہا لیکن حالات سازگار نہ ہوئے تو 'پاٹ میں آکر لنگر انداز ہوا۔ انہی دنوں میں 'میرزا ہندال کے قریبی عزیز ایرانی نژاد 'شیخ علی اکبر جامی کی بیٹی 'بلقیس مکانی حمیدہ بانو بیگم سے ستمبر 1541ء میں شادی کی۔ یہ شب و روز ہمایوں کے لیے کچھ اچھے نہیں رہے۔ اس کے بعد ہمایوں 1542ء میں 'جیسلمیر گیا ،وہاں سے اس بادشاہ کا قافلہ پیاس سے بے حال 'عمرکوٹ پہنچا۔ 'گلبدن بیگم لکھتی ہیں’’عمرکوٹ خوب جگہ ہے، وہاں کئی تالاب ہیں۔ یہاں ہر چیز بڑی ارزاں ہے۔ ایک روپے میں 4 بکریاں مل جاتی ہیں۔‘‘ اکبر کے جنم کے حوالے سے تحریر کرتی ہیں کہ’’اتوار کے دن صبح صادق کے وقت اس قلعے میں 1542ء (14 اکتوبر) میں اکبر کی ولادت ہوئی۔‘‘
حمیدہ بانو بیگم:
’’تاریخ معصومی‘‘ کے مصنف میر محمد معصوم بکھری لکھتے ہیں کہ’ ’عمرکوٹ میں لشکر کو زائد دن برداشت کرنے کی سکت نہیں تھی، اس لیے امیروں نے سندھ چلنے کا ارادہ ظاہر کیا، کچھ ہی دنوں میں وہ فتح باغ پہنچے۔ یہ پُرفضا مقام دریائے سندھ کے کنارے پر واقع تھا، باغات اور نہروں کی بہتات تھی، میوہ جات، پھولوں کی لطافت اور تازگی کے سبب پورے سندھ میں اپنی ممتاز حیثیت رکھتا تھا۔‘‘ہمایوں نے کچھ دنوں کہ بعد اپنے اہلِ خانہ جو عمرکوٹ میں تھا ،اُس کو یہاں بلالیا۔ ’’ہمایوں نامہ‘‘ کی مصنفہ گلبدن بیگم تحریر کرتی ہیں کہ ’’فتح باغ سے ٹھٹہ پہنچنے میں 6 دنوں کا وقت لگتا ہے، یہاں آموں اور دیگر میوؤں کے اچھے اور خو صورت باغ ہیں۔ حضرت (ہمایوں) یہاں 6 ماہ رہے اور پھر اس اہل حرم، اُمرا اور باقی لوگوں کو وہاں بلوالیا۔ اس وقت جلال الدین محمد اکبر کی عمر 6 ماہ تھی۔‘‘اکبر نے آنکھیں عمر کوٹ میں کھولیں اور اپنے جیون کے ابتدائی قدم فتح باغ کی زمین پر اُٹھائے اور یہ یادگار لمحے فقط تاریخ کے لیے ہی اہم نہیں ہیں بلکہ ہمایوں اور حمیدہ بانو بیگم کے لیے بھی زندگی کے یادگار لمحے رہے ہوں گے۔ کاش گلبدن بیگم جو ’’ہمایوں نامہ‘‘ کی مصنفہ ہیں ،وہ اس اہم موقعے پر ہمایوں کے ساتھ ہوتیں تو ان لمحوں کو وہ ضرور ہمارے سامنے لے آتیں مگر کامران مرزا نے گلبدن بیگم کو ہمایوں کے ساتھ سندھ کی طرف جانے نہیں دیا اور اپنے ساتھ رکھا۔
’’اکبرنامہ‘‘ میں اکبر ی بچپن کی عکاسی:
آخر 1543ء میں، بیرم خان گجرات سے بچتا بچاتا بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور شاہ حسن ارغون سے صلح کرنے کا خیال پیش کیا۔ ہمایوں خود بھی اس مسلسل پریشان اور مایوس کردینے والی صورت حال سے بیزار ہوگیا تھا جس کی وجہ سے صلح کے لیے راضی ہوا۔ایک لاکھ گینیاں (اُس وقت کا مروجہ سکہ)، سفر کا سامان، تین سو گھوڑے اور 300 اُونٹ دینے پر صلح ہوئی اور اس سامان کی رسد کے لیے پل تعمیر کروائی۔ بادشاہ نےصلح اور پُل بنانے پر تاریخ ’’صراط المستقیم‘‘ سے معلوم کی جو 950ھ ہے۔ بادشاہی لشکر جو سندھ میں 2 سے 3 برس تک رہنے کی وجہ سے تنگ ہوچکا تھا، وہ بہت خوش ہوا اور جشن بھی منایا۔ بادشاہ 1543ء میں اس پل سے گزر کر قندھار کی طرف روانہ ہوا۔ اسی برس جب ہمایوں سندھ سے قندھار کی طرف روانہ ہوا تو مرزا کامران نے، میر اللہ دوست اور بابا چوچک کو مرزا شاہ حسن کی طرف، اس کی بیٹی کا رشتہ مانگنے کے لیے بھیجا۔ مرزا شاہ حسن نے کامران مرزا کی یہ مانگ پوری کرلی اور اپنی بیٹی کی شادی اُس سے کرنے کا وعدہ کرلیا۔کامران کو جب پتہ لگا کہ ہمایوں قندھار کے لیے نکل چکا ہے تو اُس نےعسکری کو بھیجا کہ ہمایوں کو قندھار آنے سے روکے۔ اُن کے ذہن میں یہ بات تھی کہ ہمایوں یہاں پہنچ کر اوراپنی فوجی طاقت بڑھاکر ان دونوں کو بے دخل کردے گا۔ ان دونوں بھائیوں نے ہمایوں کو پریشان اور دربدر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہمایوں جب قزلباشوں کو لے کر ایران سے لوٹا تو عسکری سے قندھار چھین لیا۔ کامران اُس وقت کابل میں تھا اور یہ خبر سننے کے بعد فوج لے کر مقابلے کے لیے نکل پڑا مگر اُس کے کچھ اہم ساتھی جن میں مرزا یادگار بھی تھا ،وہ الگ ہوگئے اور ہمایوں سے جاملے۔ ایسے حالات میں وہ غزنی سے ناکام و نامراد ہو کر سندھ آیا اور کابل پر بھی ہمایوں نے فتح پائی۔ کابل پر قبضے کی تاریخ ’’اکبرنامہ‘‘ (جلد اول) میں موجود ہے: شب چہار شنبہ۔ شہر رمضان 952ھ (بمطابق 1545ء)۔
فتح باغ قلعے کے آثار:
کامران کو سندھ میں جب یہ خبر ملی کہ ہمایوں بدخشاں کی مہم پر نکلا ہے مگر بہت بیمار ہے تو شاہ حسین ارغون کی فوج لے کر چلا اور کابل پر قبضہ کرلیا۔
(بقیہ سنیچر کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)