آخر کار وہ موبائل فون میں ہی تحلیل ہو گیا! اُس کے احساسات، خواہشات اور جذبات یخ بستہ ہوکر رہ گئے۔ اُس کی گفت و شنید میں کڑواپن پیدا ہوچکا تھا۔ بار بار ڈائیل کرنے سے اُس کے سارے رابطے گِھس گئے تھے۔ اُس کا فون نمبر اکثر یا تو بزی(BUSY)آتاتھا یا اُس کے فون سے وہی ایک جواب بار بار ملتا تھا’اِس روٹ کی سبھی لائنیں ویست ہیں‘۔ رزاق اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ دونوں میاں بیوی دن بھر مزدوری کرکے شام کو کھاتے تھے۔ جس دن اُنہیں مزدوری نہیں ملتی تھی اُس دن وہ نان شبینہ کے محتاج بن جاتے تھے۔ اُن کے پاس کچی جھونپڑی اور ایک عدد بکری کے سوا اور کوئی اثاثہ نہیں تھا۔ رزاق کا باپ علی بکری بھی ہمسائے کے درختوں کے پتوں پر ہی پالتا تھا۔ لیکن اس افلاس زدہ حالت میں بھی علی اور اس کی بیوی سارہ نے اپنے بیٹے رزاق کو سکول بھیجا۔ رزاق بھی ایک قابل، محنتی اور ہونہار لڑکا تھا۔ وہ ہر سال امتحان میں اول آتا تھا۔ یہاں تک کہ اُس نے بی۔ اے کا امتحان اول درجہ میں پاس کیا۔ رزاق کی محنت، شرافت اور قابلیت کا چرچا سارے علاقہ میں عام تھا۔ والدین اپنے بچوں کو رزاق کی مثال دے کر اقدار کی تفہیم سمجھاتے تھے۔
غریب گھر کا ستارہ، جوگردش میں تھا، اچانک تابدار ہوا۔ غریب کی دعا قبول ہوئی۔ رزاق محکمہ مال میں بحیثیت پٹواری تعینات ہوا۔ مدت کے بعد گھر میں خوشیاں لوٹ آئیں۔ دھیرے دھیرے رزاق کی خواہشات پر جمی یخ اُمیدوں کی گرمی سے پگھلنے لگی۔
ایک دن رزاق نے بازار سے ایک اعلیٰ کوالٹی کا سیل فون خریدا، جو اُس کے ایک دیرینہ خواب کی تعبیر تھی۔ رزاق اب فرصت کے لمحات موبائل فون پر ہی صرف کرتا تھا۔ وہ رات بھر فیس بُک چلاتا تھا۔مسلسل موبائل چلانے سے نہ صرف اُس کی بینائی کمزور ہوتی گئی بلکہ اُس کی صحت بھی بگڑنے لگی۔ فرض، احساس، سچ، حیا ء اور حق جیسے الفاظ اُس کے لئے مہمل بنتے گئے! اب جب بھی کوئی رشتہ دار، دوست یا ہمسایہ اُس سے فون پر رابطہ کرنا چاہتا تھا تو اُسے ایک ہی جواب سننے کو ملتا تھا۔
’’آپ کے دوارا ڈائیل کیا گیا نمبر ویست ہے‘‘
دن بہ دن اب رزاق کے حالات بد سے بدتر ہورہے تھے۔ اب اُس کے فون پر فالس بیل آبجتی تھیں۔ رزاق موبائل میں ہی گم ہوکررہ گیا۔ وہ محسوسات کی دُنیا میں کہیں کھو گیا تھا۔
علی اور اس کی بیوی سارہ اب ہر ایک کو اپنے بیٹے کی کربناک روداد سناتے تھے۔ بے چارے غریب والدین پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ غریب کی جھونپڑی میں پھر اندھیرے نے ڈھیرہ جمایا۔
اس طرح رزاق کی عبارت بھی اُن ہزاروں ابن و بنات کی طرح شفقت کی کتاب سے غائب ہوئی جو شب و روز موبائل چلا کر اپنا قیمتی وقت بربار کرتے ہیں۔ جو فرض کے احساس کو بھول جاتے ہیں!
مجبور اور بے بس والدین کے ہاتھ تہجد کی نماز پڑھنے کے وقت اپنے بیٹے کی دعا کے لئے اُٹھتے تھے۔ رزاق تنہایوں میں کھو جاتاتھا۔ مایوسیاں اُس کا مقدر بن گئی تھیں۔ آکر کار لاچار باپ اپنے بیٹے رزاق کو شہر کے ایک بڑے ماہر نفسیات ڈاکٹر کے پاس علاج کے لئے لے گیا۔رزاق کی کیس ہسٹری جاننے کے بعد ڈاکٹر نے علی سے کہا۔
’’ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا!‘‘
’’جناب! ایسا کیا ہوا ہے ہمارے بیٹے کو!؟‘‘ علی نے تعجب سے پوچھا۔
’’تمہارے بیٹے نے دراصل موبائل فون کو ضرورت سے زیادہ استعمال کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمہارا بیٹا اب نوموفوبیا(Nomofobia)کے مرض میں مبتلا ہوا ہے۔‘‘
’’نومو فوبیا ‘‘بیماری کا نام سُنکر ایک غریب باپ پھوٹ پھوٹ کر رویا!!
رابطہ: آزاد کالونی پیٹھ کا انہامہ،بیروہ
موبائل نمبر؛9906534724