Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

گھر واپسی

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: March 31, 2019 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
5 Min Read
SHARE
دنیا میں کون ایسا سنگ دل ہوگا جو زندگی کے آخری مرحلے میں بھی اپنے وطن جانے کا متمنی نہ ہو ۔ کس کی آنکھیں اتنی پتھرائی ہونگیں جو بچپن کی یادوں سے منور اپنے چمن کو دیکھنے کی تمنا نہ کریں۔ شاہد احمد نوجواانی کے عالم میں تلاش معاش کی غرض سے انگلستان آیا تھا اور پھر یہیں کا ہوکر رہ گیا ۔ اپنے وطن سے دور رہ رہا شاہد گھر میں والدین اور دو بھائیوں کو چھوڑ کر آیا تھا۔ابھی ایک بھائی زندہ ہے ۔ والدین کا انتقال کچھ برس قبل ہو چکا ہے اور چھوٹا بھائی تشدد اور افراتفری کی نذر ہوگیا ۔ شاہد احمد دوبارہ کبھی واپس نہ کیا ۔ نہ والدین کے جنازے میں اور نہ بھائی کے قتل کا حساب مانگنے۔ شاہد میاں جدید سوچ کا قابل اور ہونہار نوجوان تھا لیکن پر آشوب حالات سے تنگ آکر انگلستان چلا آیا تھا۔ اسے تشدد سے کافی نفرت تھی ۔ اسی لئے وہ واپس جانے کا خیال تک ذہن سے نکال چکا تھا۔ اسے کوفت تھی کہ اسے کربناک اور لہولہان خاک کے سپرد  نہ کیا جائے۔ لیکن کافی اصرار کے بعد وہ بالآخر اپنے وطن جانے پر راضی ہوا۔ 
ذہنی کشمکش ،تذبذب اور اضطراب کی کیفیت کے ساتھ وہ ہوائی جہاز میں سوار ہوا۔ پرانی دردناک یادیں ذہن کے البم پر نمایاں ہو رہی تھیں اور خوف و مسرت کا ملا جلا سنگم اسے بیقرار کئے ہوئے تھا۔ ہوائی جہاز کی آواز اور رفتار قدرے مدھم ہوتی گئی اور اسکی دھڑکنیں تیز۔۔۔ سانسیں جیسے کہیں خیرات بٹ رہی تھی کہ بے حساب لی جارہی تھیں۔ ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے ۔ 
وہ گاڑی میں سوار ہوکر گاؤں کی طرف نکلا، راستے میں آتی ہر شئے خاردار تار میں جکڑی اسکے بچپن کی یادیں تازہ کر رہی تھی ۔ خاک و خون،  لہولہان  لاشیں اور وہ چنار جو گاؤں میں سب سے بڑا اور پرانا تھا ۔ وہی چنار جس پر ہر ہفتے ایک لاش لٹکتی رہتی تھی اور لوگ خاموشی سے اسے دفنا کر اگلی لاش کا انتظار کرتے۔ شاہد میاں یہ دیکھکر بہت حیران ہوا کہ اتنا وقت گزرنے کے بعد بھی کچھ نہیں بدلا۔ نہ وہ سڑک نہ سڑک کے گرد اونچے درخت،  نہ خون کی بو اور نہ آنسو گیس کا کلیجہ چیر دینے والا دھواں۔ اس کا دم گھٹ رہا تھا ۔ آزاد فضا میں زندگی کے حسین ایام گزارنے کے بعد وہ کس طرح اس پر آشوب اور خاردار تار میں جکڑی فضا میں سانس لے سکتا تھا۔ وہ اب اپنے گھر میں تھا ۔ شام تو گزر گئی مگر رات کا خوفناک سناٹا اور کشت و خون کے ڈراونے خیالات نے رات بھر جگائے رکھا اور رات کروٹیں بدلنے کی کشمکش میں گزری۔ اگلی صبح وہ چائے کی چسکیاں لے رہا تھا کہ باہر شور مچ گیا۔ وہ باہر نکلا اور ہجوم کے پیچھے چلا گیا۔ یہ ہجوم اسی چنار کے پاس آکر رک گیا جس پر آج ایک اور لاش لٹک رہی تھی ۔ سب پر سکتہ طاری تھا اور سب کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ بے بسی کے آنسو اورخوف کے آنسو، روز مر جانے کے آنسو اور نہ جانے کس کس کے آنسو۔۔ شاہد  آنکھیں پتھر کئے لاش کو دیکھ رہا تھا ۔ اسی سکوت کے عالم میں ایک بلند بانگ نعرے نے فضا میں ہلچل مچا دی ۔ 
’’جواب دو جواب دو ۔۔  خون کا حساب دو‘‘
آج پہلی بار یہ نعرہ کس نے بلند کیا تھا۔ اس ہجوم میں جہاں سب کے ذہنوں پر خوف کا پہرا ہے اور قلوب پر دہشت کے تالے ، کس کے حلق سے یہ انقلاب کی چیخ نکلی۔ سب کی نظریں نعرہ باز کو ڈھونڈ رہی تھی مگر کسی کو کچھ نظر نہ آیا ۔ 
اگلے ہفتے ایک اور لاش دفن ہوئی مگر اس بار نعرہ بلند نہیں ہوا۔ اس لاش کی قبر پر کتبہ لگایا گیا جس پر یہ عبارت درج تھی :
’’ اس یرغمال فضا میں مرحوم نے جس چنار کے سائے تلے انقلاب کا پہلا نعرہ بلند کیا تھا۔ اسی چنار کی ایک شاخ پر شاہد احمد کا جسد خاکی لحد کا انتظار کر رہا تھا‘‘ ۔
ہندوارہ،موبائل نمبر؛7780912382
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

پونچھ کے سرکاری سکولوں میں تشویش ناک تعلیمی منظرنامہ،بنیادی سرگرمیاں شدید متاثر درجنوں سرکاری سکول صرف ایک استاد پر مشتمل
پیر پنچال
فوج کی فوری طبی امداد سے مقامی خاتون کی جان بچ گئی
پیر پنچال
عوام اور فوج کے آپسی تعاون کو فروغ دینے کیلئے ناڑ میں اجلاس فوج نے سول سوسائٹی کے ساتھ سیکورٹی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا
پیر پنچال
منشیات کے خلاف بیداری مہم بوائز ہائر سیکنڈری سکول منڈی میں پروگرام منعقد کیاگیا
پیر پنچال

Related

ادب نامافسانے

افسانچے

July 12, 2025
ادب نامافسانے

ماسٹر جی کہانی

July 12, 2025
ادب نامافسانے

ضد کا سفر کہانی

July 12, 2025

وہ میں ہی ہوں…! افسانہ

July 12, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?