مجھے دنگوں میں الجھا کر فسادی
قوی اپنے مراسم کر رہے ہیں
وہ اک دوجے کی چاہت میں مگن ہیں
میرے بچے الجھ کر مررہے ہیں
ابھی طے کرنے ہیںکتنے مراحل
زباں پر لانے سے بھی ڈر رہے ہیں
میرے کاندھوں پہ بندوقیں چلا کر
وہ اپنے منھ کو کالا کر رہے ہیں
نوالہ منہ سے میرے چھین کر اب!
مرے کھیتوں میں دیکھو چر رہے ہیں
مجھے روٹی سمجھ کر بانٹنے میں
یہ دو بندر گھٹالہ کر رہے ہیں
آفاقؔ دلنوی
دلنہ بارہمولہ