ابھی گرمی کا موسم شروع بھی نہیں ہوا ہے کہ وادی کے متعدد علاقوں میں پانی کی قلت سے ہاہار کار مچنے لگی ہے۔ایک طرف آ?بپاشی کی چھوٹی بڑی نہروں اور ندی نالوں میں پانی کی سطح متواتر بڑھ رہی ہے دوسری جانب جس طرح پینے کے پانی کی قلت کا مسئلہ پیدا ہوا ہے ،وہ اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ محکمہ آب رسانی میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہے۔ اگرچہ شہر سرینگر اور بیشتر قصبہ جات میں کافی عرصہ سے پانی کی سپلائی میں روزانہ کٹوتی کا سلسلہ جاری ہے اور صرف صبح و شام کے اوقات میں چند گھنٹوں کیلئے پانی فراہم کیا جاتا رہا ہے، مگر ادھر کچھ عرصہ سے یہ سلسلہ بھی قائم نہیں رہ پایا اور متعدد علاقوں ، خاص کر دیہات میںپانی کی سپلائی کئی کئی دن تک منقطع کر دی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے لوگوں کا جینا دو بھر ہوگیاہے ۔ اس پر طرہ یہ کہ شہر سرینگر کے کئی علاقوں میں ناصاف پانی سپلائی ہو رہاہے، جو گزشتہ ہفتے اپنے انتہا کو پہنچ گیا تھا، جس پر اگر شور نہ مچتا تو محکمہ شاید خبر بھی نہ لیتا۔یہ حیرت کا مقام ہے کہ جموں و کشمیر، جو پانی کے قدرتی ذخائر اور وسائل سے مالامال ہے اورسبھی سیاسی، سماجی، اقتصادی اور علمی حلقے ان وسائل کو ریاست کی معیشی آ زادی کی بنیاد گردانتے ہیں، کے اندر اس بنیادی ضرورت کی قلت کا سامنانہایت ہی افسوسناک ہے۔ ندلی نالوں میں سطحِ آ?ب میں خاطر خواہ اضافہ کے باوجود پانی کی قلت اس امر کی چغلی کھاتی ہے کہ صاف پانی کی تقسیم کاری کانظام خامیوں کا شکار ہے اور اسے جدید ضروریات اور موثر بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ انتظامیہ کی طرف سے قلت کے اثرات کو کم کرنے کیلئےوقت وقت پربستیوں میں ٹینکروں کے ذریعہ پانی کی فراہمی کو ممکن بنانے کی کوششیں کی جاتی ہیں ،تاہم ضروریات کے مقابلے میں یہ کوششیں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔ آج بھی شہر کےمضافات اور گائوں دیہات میں لوگ سڑکوں پر بالٹیاں ہاتھوں میں لئے پانی کی تلاش میں دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں، کئی دیہات میں تو لوگوں کو اس غرض سے میلوں کی مسافت طے کرنے پر مجبور ہوناپڑتا ہے۔ایسی صورتحال میں کئی لوگوں کو ندی نالوں کے ناصاف پانی کے استعمال پر اکتفا کرنا پڑتا ہے، جو بعد ازاں بیماریوں کی افزائش پر منتج ہو کر دوہری پریشانیوں کا سبب بنتا ہے۔ اخبارات میں ان حوالوں سے اگرچہ ا?ئے دن رپورٹیں شائع ہوتی رہتی ہیں، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انتظامیہ اس حوالے سے خوابِ خرگوش میں ہے اور ذمہ دار افسران کو عوام کی ان شکایات کی طرف اپنی توجہ مبذول کرنے کیلئے فرصت نہیںملتی۔یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک طرف ریاستی واٹر ریسورسز مینجمنٹ اینڈ کنٹرول ایکٹ کے تحت گھریلو صارفین پر پانی کے فیس میں وقت وقت پر اضافہ ہوتا رہتا ہےتودوسری جانب پانی کی سپلائی کے معیار میں بتدریج تنزلی آ?رہی ہے۔لوگ آ?بیانہ ادا کرنے کے ضرور مکلّف ہیں اور یقینی طور پر انہیں اس سروس کے عوض فیس ادا کرنی چاہئے، جو انہیں حکومت فراہم کررہی ہے تاہم متعلقہ حکام کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ صارفین کو معیاری سروس بھی فراہم کرے۔جہاں تک پانی کی سپلائی کا معاملہ ہے تو چونکہ اس کا براہ راست تعلق انسان کی بنیادی ضرورت سے ہے تو یہاں حکام کو اور بھی زیادہ چاک وچوبند اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے تاکہ زندگی کی اس بنیادی ضرورت کو حاصل کرنے کیلئے انہیں دردر کی ٹھوکریں نہ کھا نا پڑیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ متعلقہ محکمہ اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں تساہل برت رہا ہے۔اب گرمیوں کا سیزن شروع ہو رہا ہے اور پانی کی ضروریات میں اضافہ ہو گا، لہٰذا حکومت کیلئے یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ گرمی کے سیزن میں ضروریات کو پورا کرنے اور تقسیم کاری میں بہتری لانے کے لئے کیا اقدامات کئے جائیں ،تاکہ عوام کو زندگی کی اس بنیادی ضرورت سے محرومی کا سامنا نہ رہے۔ ریاست کی موجودہ انتظامیہ چونکہ عوام الناس کی بنیادی ضروریات کو ترجیحی بنیادوں پر پورا کرنےکے وعدے کرتی رہتی ہے، لہٰذا اسے پانی کے وسائل و ذخائر کے تحفظ اور دوران ترسیل و استعمال اس کے اس کا ضیاع روکنے کے اقدامات کی نشاندہی کرنے، نیز تقسیم کاری کے نظام کو مزید مؤثر اور پختہ بنانے کیلئے ایک جامع پالیسی مرتب کرنی چاہئے۔ نیز اس بات کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ صارفین کو آلودہ پانی فراہم نہ کیا جائے۔