شاہ میری کے حسب نسب اور وطن کے بارے میں مؤرخین کے درمیان بے شمار اور متضاد روایتیں مشہور ہیں کچھ اس کا حسب نسب مہا بھارت کے ہرد پانڈو کے خاندان سے جوڑتے ہیں اور کچھ پاکستان کے شمالی علاقہ وادیٔ سوات کے حکمراں خاندان کے ساتھ، جبکہ مؤرخین اور محققین کی ایک بڑی تعداد اس کا تعلق خطۂ پیرپنچال کے راجوری کے بدھل علاقے سے جوڑتے ہیں جس کے متعلق زیادہ مستند اور قوی شواہد دستیاب ہیں، شاہ میری اس خطہ کے ایک عظیم جنگجو، بہادر اور حکمراں طبقے کا فرد تھا جس کے خاندان نے پیر پنچال کے دامن کے اس پہاڑی خطہ پر صدیوں مضبوط حکمرانی کی ہے، یہ قوم سخت گیر ہندو رسم و ریت کی پیروکار تھی جس کے آثار اِن کی آبادیوں کے قدیم کھنڈرات میں ہندو دیوی دیوتائوں کی پتھر کی مورتیوں کی صورت میں آج بھی دستیاب ہیں، یہ لوگ اس خطے کے اونچے، بلند اور خوبصورت پہاڑی ٹیلوں پر اپنی بستیاں آباد کرتے تھے جو آج بھی اس علاقے میں کوٹ کے ناموں سے مشہور اور زبان زدِ خاص و عام ہیں۔ اِس قبیلہ کا رہن سہن اور طرز معاشرت بڑا معیاری ہوتا تھا، خوبصورت پتھروں کو تراش کر عمدہ قسم کے رہائشی محلات اور حویلیاں تعمیر کرتے تھے، پانی کے چشموں اور باولیوں کو نہایت خوبصورت تراش شدہ پتھروں سے مزین کر کے ان کی صفائی و نزاکت کا خاص اہتمام رکھتے تھے جس سے اُن کے فن تعمیر ، عمدہ ذوق اور معیاری طرزِ معاشرت و رہن سہن کا پتہ چلتا ہے، گو کہ اب بھی اس خطہ میں راجوری کے بدھل علاقہ سے لیکر رام بن اور بانہال تک پیر پنچال کے دامن میں اس قبیلہ کے لوگ کھش(کھس) قوم کے نام سے آباد اور پہچانے جاتے ہیںلیکن کچھ لوگوں نے اپنے خاندان کے کسی بڑے سردار کے نام پر اپنا الگ قبیلہ بنا لیا ہے جو اسی کے نام پر متعارف ہو گیا، جیسے ٹھکر یا ٹھاکر وغیرہ۔ جو اس علاقے میں اس وقت بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں، یہ اسی کھش قبیلے کی شاخ ہیں جنکی خاندانی جسامت، وضع قطع، طرز معاشرت اور دیگر عادات و اتوار مکمل طور پر کھش قبیلے سے ملتی ہیں۔ مؤرخین کے مطابق شاہ میر نامی کشمیر کاحکمران جو سلطان صدر الدین کے دور میں وارد کشمیر ہوااور سلطان صدر الدین کی وفات کے بعد ۱۳۴۳ء میں کشمیر کا بادشاہ بنا اور شمس الدین کا لقب اختیار کیا جس کے خاندان نے ۲۱۸ سال کشمیر پر حکمرانی کی ، وہ ایک سچا اورراسخ العقیدہ مسلمان تھا جس نے کشمیر میں بعض اسلامی قوانین اوراسلامی تقویم سن ہجری رائج کیااس کے متعلق تحقیق یہ ہے کہ وہ راجوری کے علاقہ بدھل کا باشندہ تھا اوراس علاقے کے کھش قبیلے سے تعلق رکھتا تھا ۔ جبکہ بعض دیگر مؤرخین اسے سوات ہزارہ علاقے کا باشندہ تسلیم کرتے ہیں،لیکن زیادہ درست بات یہ ہے کہ شاہ میری بدھل علاقے کے کھش قبیلے کا آدمی تھا جس نے اسلام قبول کرکے شاہ میری لقب اختیار کرلیا ۔ اور یہاں سے کشمیر جاکر آبادہوگیا۔چونکہ آج بھی بدھل اور ا س سے آگے پیر پنچال کے دامن میں رام بن اور چناب خطے میں کھش قبیلے کے لوگ بڑی تعدادمیں آبادہیں جو خود کو ہندو مسلم کھش راجپوت سورج بنسی نسل سے بتاتے ہیں، یہ لوگ آج بھی طویل القامت ، صحت مند، بہادر اورحربی قسم کے ہیں،جوپہلوانی اور فوجی ملازمت کرتے ہیں، اور مذہباً ہندو اور مسلمان دونوں طبقوں میں تقسیم ہیں کھش مسلمانوں میں کھجال ،بھگال ،مٹھوال،درسوال وغیرہ قبائل جو آج بھی بدھل کے ڈنڈوت اور قرب و جوار کے علاقوں میں آباد ہیں اصل میں کھش قوم ہی کے لوگ ہیں جواپنے قبیلے کے مختلف بزرگوں کے ناموں پر بعد میں مزید قبیلوں میں تقسیم ہوتے گئے جب کہ اصلیت ان سب کی کھش ہے کھش قوم کے دونوں فریق ہندو ؤںاور مسلمانوں کے درمیان ،اخلاق و عادات طرزِزندگی اور مخصوص قومی رویات کی تمام اقدار مشترک ہیں ۔
مشہور محقق و تاریخ دان این کے زتشی نے تاریخ زین العابدین میں شاہ میر کے متعلق تفصیلاً لکھا ہے کہ شاہ میر کا اصل وطن بدھل تھا، وہ راج ترنگنی پنڈت جونہ راج کے حوالے سے لکھتا ہے کہ شاہ میر کا اصل وطن پنج گہوارہ تھا جو راجوری اور بدھل کے درمیان واقع ہے لیکن یہاں جونہ راج کو سہوہوا ہے چونکہ جونہ راج جس جگہ کو پنج گہوارہ یا گبر لکھتا ہے یہ جگہ بدھل اور راجوری کے درمیان کنڈی کے دریا آنس کی انتہا سے بھی بہت اوپر پیر پنچال کے اس برفانی خطے میں ہے جو سال کے اکثر و بیشتر حصوں میں برف کی لپیٹ میں رہتا ہے صرف موسم گرما کے چند ماہ مال مویشی والے لوگ اس جگہ کو بطور چراگاہ استعمال کرتے ہیں اوروہاں دور دور تک انسانی آبادی موجود نہیں اور نہ ہی سردیوں میں وہاں رہائش ممکن ہے البتہ گبر نامی گائوں بدھل قصبے ے بالکل ملحق مشرق کی طرف ہے جو سال بھر آباد رہتا ہے اور چونکہ بدھل کے ارد گرد کھش قبیلہ کے لوگ خاصی تعداد میں آج بھی موجود ہیں اس لئے شاہ میری کی اصل جائے پیدائش بدھل کا یہی گائوں گبر ہو سکتا ہے چونکہ جن لوگوں نے اس بارے میں لکھا ہے ، وہ اس علاقے کے جغرافیائی حالات سے واقف نہیں تھے اس لئے وہ گبر اور پنج گبر کے محل وقوع میں فرق نہیں کر پائے۔یا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کنڈی گالہ سے بدھل کے آخر تک کسی زمانہ میں یہ سارا علاقہ جن کا تذکرہ راج ترنگنی کلہن اور جونہ راجہ کرتا ہے ۔ پنچ گبر یا پنچ گہوارہ کہلاتا رہا ہو۔
محمد قاسم فرشتہ مصنف تاریخ فرشتہ کی تحریر سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ شاہ میر کا تعلق راجوری کے بدھل علاقے سے تھا وہ لکھتا ہے کہ شاہ میر نامی ایک شخص بہ لباس قلندری کشمیر میں وارد ہوا اور راجہ کا ملازم بن گیا وہ اپنا حسب نسب یوں بیان کرتا ہے شاہ مرزا بن طاہر بن آل بن گرشاپ بن نکودر، نکودر کا سلسلئہ نسب پانڈو تک پہنچتا ہے، اسلئے شاہ میر کا نو مسلم باپ طاہر پانڈو کی نسل سے ہے، چونکہ راجوری جرال مرزا گھرانے کا بھی راجواڑہ رہا ہے اسلئے فرشتہ شاہ میرکو سہواً مرزا لکھتا ہے۔راجوری پر پال راجگان کی حکمرانی سے قبل چھٹی صدی عیسوی کے بعد۳۱۔ ۶۳۰ ء میں جب چینی سیاح ہیون سانگ یہاں سے گزرتا ہے تو وہ اپنے سفر نامے ٹریولز آف یانگ سو میں جس سخت گیر و سخت خو مائل بہ سیاحی رنگ ہندو قوم کا نذکرہ کرتا ہے وہ کھش قوم ہے جو اس خطہ پر کشمیر کے حکمرانوں کی ما تحتی میں حکومت کرتی ہے تاہم بعد میں یہ قوم اس قدر مضبوط اور طاقت ور ہو جاتی ہے کہ قرب و جوار کے علاقے بھی اس کے اثر ونفوذ اور دست و بردسے خود کو تحفظ فراہم نہیں کر سکے حتیٰ کہ کئی دفعہ اس قوم نے کشمیری حکومت سے بھی بغاوت کر کے اس کی مضبوط حکومت کی چولیں ھلا کر رکھ دیں ، راجوری کی قدیم تاریخ میں کھش قوم کا قرب و جوار کی ریاستوں کے ساتھ معرکوں کا تذکرہ بھی ملتا ہے، راج ترنگنی پنڈت کلہن کے مطابق کھش ایک جابر ، لڑاکا اور سخت گیر قبیلہ تھا جو کشمیر کی برفانی پہاڑیوں کے اُس پار مغربی ڈھلوانوں پر نویں صدی عیسوی تک حکمرانی کرتا تھا جو راجوری سے بانشالہ (بانہال) تک پیر پنچال کے دامن میں آباد تھا۔
کھش قوم کا اہم پڑائو راجوری سے جانب مشرق دریاء انس کے ارد گرد ہوا کرتا تھا جس کے نام پر اس وقت بھی اس علاقے میںکئی گائوں آباد ہیں مثلاً کھاہ اور کھسالی نامی دو مشہور گائوں ان ہی کے نام سے موسوم ہیں ، اور اسوقت بھی ان علاقوں میں اس قبیلے کی خاصی تعداد آباد ہے ، کھش کے معنی جنگ جو کے ہیں اور آج بھی اس خطہ کی پہاڑی، گوجری ، ڈوگری اور کشمیری زبان میں یہ لفظ کھش کرنا یعنی گردن کاٹ دینے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ریاست جموں و کشمیر کے مشہور محقق و تاریخ داں جناب موتی لال ساقی لکھتے ہیں کہ کشمیر کی تاریخ میں کھشوں کا سب سے پہلے ذکر ۵۵۰ ء میں مہر کل کے حملے کے وقت آتا ہے جب وہ ہندوستان پر قابض ہونے کیلئے پونچھ راجوری کے کھش قبائل کے علاقے سے گزرتا ہے۔راج ترنگنی پنڈت جونہ راجہ کے مطابق مہر کل کی تمام سر گرمیاں کھش قوم کی طاقت کو کمزور کرنے کے لئے تھیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کے راجوری کو دارالخلافہ بنا کر اس قوم کے حملے کشمیر پر ہوتے تھے جس کے سد باب کیلئے مہر کل نے اس علاقے پر لشکر کشی کی اور ان لوگوں کو نیست و نابود کرنے کی سر توڑ کوشش کی ، کھش قبیلے کے متعلق ایک تحقیق یہ بھی ہے کسی زمانے میں ان لوگوں کا اصلی وطن ایران میں زگرس کا پہاڑی علاقہ ہوتا تھا جب کہ بعض لوگ انہیں ہند یورپی آریائی نسل سے بتاتے ہیں ، بر صغیر میں ان کا داخلہ مغرب کی طرف سے ہوا، مہا بھارت میں انہیں خون خوار لشکر کے نام سے متعارف کرایا گیا ہے۔چونکہ کشمیر کی برفانی پہاڑیوں کے اُس پار مغربی ڈھلوانوں کے اُس مقام پر ان کا قبضہ تھا، جو شاہراہ نمک کے ذریعے وادی کشمیر کی اہم گزر گاہ تھی اسلئے اس راستے کشمیر آنے جانے والے قافلوں کے ساتھ اکثر ان کی مڈ بھیڑ ہوتی رہتی تھی،بعض مصنفین و تذکرہ نویسوں کی تحریروں کے مطابق کشمیر کا نو مسلم اسلامی سربراہ شاہمیری راجوری سے جانب مشرق دریاء آنس کے اُس پار راج نگر بدھل سے محض ۱۰ کلو میٹر کی دوری پر پیر پنچال کے برفانی پہاڑوں کے دامن میں واقع موضع کھسالی کا باشندہ تھا، جہاں آج بھی کھش قبیلے کے لوگوں کی ایک خاطر خواہ تعداد آباد ہے کھش قبیلے کی وجہ سے اس گائوں کا نام کھسالی پڑ گیا۔
پروفیسر ڈاکٹر شمس الدین احمد صاحب راج ترنگنی جونہ راجہ کے حاشیہ ۵۵میں لکھتے ہیں کہ قدیم زمانہ میں کھش وہ قوم تھی جو ہمالیہ پہاڑی یا ایک بڑے علاقے میں رہتی تھی، یا چھوٹی سی جگہ میں آباد تھی جس کے مغرب میں دریائے و تشٹا کے گزر گاہ کا درمیانی حصّہ اور مشرق کی طرف کی بالائی وادی پنج گھور (پنج گھبر) کھش قوم کی رہائش گاہ ہے، اس سے آگے مشرق میں بان شال (بانہال) کے اوپر کی طرف اسی نام کا ایک درہ ہے، جہاں سے چندر بھاگا تک کھش قوم رہتی تھی، یہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ کھشوں کی بستیاں کھشالیہ(کھسالی) میں تھیں۔اور اس وادی کا ذکر جونہ راجہ نے بھی کیا ہے جو کشمیر کے جنوب مشرق گوشے میں واقع مارہ بل سے کشتواڑ تک جاتی ہے۔پروفیسر شمس الدین احمد صاحب نے جس کھشالیہ بستی کا ذکر کیا ہے وہ آج بھی راجوری کے راج نگر بدھل قصبے سے تقریباً ۱۰؍ کلو میٹر کے فاصلے پر کُنڈ ردھان گائوں کی بالائی اور پیر پنچال کے دامن اور تحصیل مہور کی حدود میں کھسالی کے نام سے متعارف ہے، جب کہ پروفیسر صاحب نے اسے کھشالیہ لکھا ہے، کھسالی اور اس کے اردگرد بہت سارے دیہات میں کھش قوم کے لوگ بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ جو بڑے خوبصورت، لمبے تڑنگے اور مضبوط جسامت کے لوگ ہیں اور اپنی مخصوص کھش زبان بولتے اور مخصوص طرزِ معاشرت کے پابند ہیں۔
مضمون نگار چیرمین الہدیٰ ٹرسٹ راجوری ہیں۔
رابطہ نمبر 9697808891