ہماری پیاری ریاست کرناٹک سمیت پورے ہندوستان میں لوک سبھا چناؤ کو لے کر جس طرح کی گہما گہمی پائی جاتی ہے اُس کا گہرائی سے جائزہ لیجئے تو پتہ چلے گا کہ ملک میں سیاسی واقتصادی حالات خیال و گماں سے کئی گنا زیادہ بدتر ہوچکے ہیں ۔اس وجہ سے ہر باشعور انسان کوغور و فکر کرنا ہوگا کہ اگر یہی قصہ چلتا رہے توا س وشال دیش کا بھوش کیا ہوگا ۔دراصل سیاسی بازی گروں نےہندوستان کی آب و ہوا میں اپنا حقیر مفادات پانے کے لئے اس قدر زہرگھول رکھا ہے کہ آج ملک کے حکمران یا پر دھان سیوک کا چناؤ ملکی فلاح وبہبود پہ نہیں بلکہ ذات ،دھرم ،گوتھر کو فوقیت دے کر کیا جارہا ہے۔اس انوکھے طرز سیاست کے چلتے مسلمانوں اور دلتوں کے حق میں نہ کوئی سیکولر کہلانے والی سیاسی جماعت کھڑی ہے اور نہ ہی سیکولرازم کا دَم بھرنے اوراتحاد و یکجہتی کی دہائی دینے والوں پر کوئی اعتبار کے قابل ہے ۔ آج دیش بھگتی کے نام پر ہندوتوادی سوچ کا غلبہ لوگوں کے سر چڑھ کر بول رہا ہےاور اگر یہی حال جاری رہا تو ہم پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیںکہ ملک بدشگونی کے دور سے گزررہاہے۔ اس خیال کی بنیادوہ شدت پسندانہ فکروعمل ہے جو چند سال سے ملک کے اطراف و اکناف میں فرقہ پرستوں کے یہاں مقبولیت پارہاہےاور اقلیتوں کے لئے خاص طور وُبال جان بناہوا ہے۔مثال کے طور پر حال ہی میں میرا شہر کے کئی علاقوں میں جانا ہوا ۔ایک پبلک پارک میں اتفاق سے پہنچے تو وہاں میڈیا کی پوری ٹیم اپنے کیمروں کے ساتھ موجود تھی اور پیش آمدہ انتخابات کے لئے عوامی آرا جاننے میں مشغول تھی۔ ان کے ارد گرد لوگوں کا ایک بڑا ہجوم جمع تھا، اتنے بڑے ہجوم کو دیکھ کر ہمارا بھی تجسس بڑھا کہ ذرا لوگوں کے جذبات ومحسوسات کا پتہ بر سر موقع چلایا جائے ۔ اسی نیت اور ارادے سے ہم بھی اُس بھیڑ کا حصہ بن کر لوگوں کے ذہنی میلانات کا جائزہ لینے لگے ۔ اس بھیڑ میں علاوہ بی جے پی سمیت کئی دیگر سیاسی پارٹیوں کے حامی موجود تھے۔بی جے پی کارکنان انتخابی تیاریوں کو لے کر اتنے سنجیدہ نظر آئے کہ اپنے نیتاؤں اور نمائندوں کو جتانے کی خاطر وہ دباؤ ، دھونس ، خوف اور جھوٹ ہر چیز کا سہارا لینے میں پورے جوش و خروش کے ساتھ پیش پیش نظر آئے، انہوں نے غلط سلط پروپگنڈے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا، تکلیف دہ بات یہ بھی دیکھی کہ اس نامناسب کام میں انہیں وہاں موجود کسی ایک بھی شخص نے نہ ٹوکا۔ دوسری طرف کانگریس ، جے ڈی ایس اور دیگر سیکولر پارٹیوں کے کارکنان تھے جو بےمطلب ہانکیں مار رہے تھے ۔ ان کے سیاسی مطالبے بھی بے وزن اور خواب آور نظر آئے اور ایسا لگ رہا تھا مانو انہیں کانگریس یا اپنی پارٹی کی ہار جیت سے کوئی لینا دینا ہی نہ ہواسی دوران زمینی سطح سے جڑے اور کئی حقائق کا سامنا بھی ہوا کہ کوئی کسی بھی سیاسی جماعت سے کیوں نہ جڑا ہو مگر فرقہ پرستانہ بولیوں میں ساری ٹولی کسی نہ کسی انداز میں بی جے پی کی ہی لکیر پیٹ رہے تھے۔ پارلیمانی الیکشن کے پس منظر میں ٹرولنگ نامی جو جنگ سوشل میڈیا پر چل رہی ہے، اب وہ سوشل میڈیا تک محدود نہیں رہی بلکہ سوشل میڈیا سے نکل کر شہر کی گلی کوچوں، پارکوں اور تمام پبلک مقامات پہ پیر جمار ہی ہے۔اس بلا کی ذمہ داری مودی کی جے جے کار کرنےوالے بھگواوادیوں پر عائد ہوتی ہے ،لیکن بہت زیادہ برا تو اُس وقت لگتا ہے جب کانگریس کارکنان پیٹھ پیچھے بی جے پی کی حمایت کر کے گویا جس تھالی میں کھا تے ہیں اُسی میں چھید کرنے کا گناہ بھی کر تےہیں ۔اس لئے کانگریس اور دیگر سیکولر پارٹیوں کو چاہئے کہ ہوش کے ناخن لیتے ہوئے اپنے کارکنوں کی ناک میں نکیل ڈالیں ورنہ یہ پانچ سال کیا آنے والے کئی سالوں تک اقتدار کا خواب محض خواب ہی بن کر رہ جائے گا ۔
ان ناگفتہ بہ حالات میں سیدھے سادھے بھولے بھالے مسلمان کانگریس کے حامی بن کر خود کو پھر ایک بار فریب دے رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ہمارا یہ بھروسہ ،اعتبار، اندھا یقین ہماری ہی واٹ لگائے گا کیونکہ اکا دُکا لوگوں کے علاوہ کانگریس کے زیادہ تر کارکنان بھی فرقہ پرستانہ ذہنیت کے حامی لگتےہیں جو سلو پوائزننگ کر کے ایک طرف کانگریس کو اندرونی طور سے کھوکھلا کر رہے ہیں، دوسری طرف مخفی طریقے سے بی جے پی کو ہی جتانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگار ہے ہیں، یا یوں کہیں ہار کے ڈر سے بوکھلائے کانگریسی خود ووٹ کاٹنے کا کردار ادا کر رہے ہیں ۔ اسے ہم آپسی تال میل یاسانٹھ گانٹھ بھی کہہ سکتے ہیں، جیسے دکنی زبان میں بھی کہتے ہیں :’’تو مارے جیسا کر میں روئے جیسا کرتوں ‘۔ کانگریس نے اس بارمسلم قیادت والی پارٹی ٹکٹوں میں سرے سے نظرانداز کیا ہے، مضبوط اُمیدواروں سے ہاتھ ملانے کے بجائے نوواردونِ ِسیاست کو میدان میں اُتارا ہے ۔ ا ٓخر یہ ان کی سیاست ہی توہے کہ جیتو یا ہارو ،دونوں صورتوںمیں ذاتی مفاد کو ترجیح دو ۔ان حالات وکوائف کو دیکھنے اور سمجھنے کے بعد بھی ہم میں بعض مسلمان کانگریس سے جنم جنم کا ساتھ نبھانے کی ضد پر اَڑے ہیں ۔ ہمارے سروں پر وفاداری کا بھوت سوار ہے اور اسی چکر میں گھن چکر بن کر ہم مختلف چوکھٹوں کی جبہ سائیاں کئے جا رہے ہیں،کبھی ملّی مصالح کے نام پر اور کبھی ذاتی مفادات کی خاطر۔ دونوں طریقوں سے ہم ازخود قوم کے مستقبل کو تباہ و برباد کر رہے ہیں۔ ہم خاص کر جی حضوری اور اندھ وشواسی شیوہ اپنا کر گویااپنی غیرت اور بقا کا جنازہ خودنکال رہے ہیں اور ہمارے یہکرم فرماہیں جو خود تو ڈوبتے ہی ہیں ،ساتھ میں قوم کو بھی نامساعد حالات کے بحر بیکراں میں ڈبو رہے ہیں۔سمجھ نہیں آتا کہ آخر ان لوگوںکی عقلوں پہ کونسا پردہ پڑا ہے؟حالات صاف ہے کہ کانگریس محض راہل گاندھی ،سونیا جی،پرینکا، ڈاکٹرمن موہن سنگھ ، غلام نبی آزاد یا دوچار اورلوگوں کے ساتھ سے قومی سطح پر کامیاب نہیں ہوسکتی بلکہ اس کے لئے پارٹی کوکئی وفادار و جاں نثار ایم پی ،ایم ایل اے، کارپوریٹرس اور لاتعداد لیڈراور کارکنان کا اتحاد اور اُن کا خلوص وثابت قدم شرط اول ہے مگر جہاں ہندوتوادی ذہنیت نے سیکولرازم کا عارضی لبادہ اوڑھا ہوا ہو، وہاں نہ کانگریس سے وفا نبھائی جاسکتی ہے نہ کبھی ملک و ملت کے لئے کام کیاجاسکتا ہے ۔ایسے میں مسلمانوں کے سچےہمدرد اورمحافظ کس آسمان سے نازل ہوں گے۔ ذہن نشین رہے کہ آج مسلمانوں کو جھوٹی ہمدردوں اور بنا سپتی قائدین کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ ہمیں اپنا آئینی حق اور مساوی سیاسی حصے داری چاہئے ۔یہاں یہ امر بھی غورطلب ہے کہ کانگریس کی قومی قیادت نے مسلمانوں کی 72 سالہ وفاداری اور خدمت کو فراموش کر کے ہمارے ساتھ اب کی بار سوتیلا پن اختیار کیا ہوا ہے ، حالانکہ مسلمانوں کو مطلوبہ نمائندگی دیناہی اُس کے لئے جیت کی ضمانت ہوسکتی ہے ۔باوجود یکہ مسلمانوں نے ہمیشہ کانگریس کی پشت پناہی کی، اس کے بدلے کانگریس نے ہمیشہ مسلمانوں کو ٹیشو پیپر کی طرح استعمال کر پھینک دیا یا کٹھ پتلیوں کی طرح انگلیوں پہ نچایا ۔ سردست اس کا ثبوت پارلیمنٹ میں چلی وہ بحث ہے جو کبھی بھلائی نہیں جائے گی جس وقت ہماری شریعت میں جبراً مداخلت کرتے ہوئے طلاق ثلاثہ کو مدعا بناکر پارلیمنٹ میں اچھالا گیا ۔ اُس مشکل وقت میں ہمارے بزرگ رہنما ممبر پارلیمنٹ مولانااسرارلحق قاسمی رحمہ اللہ جو بہترین عالمانہ ومدبرانہ انداز میں اسلام کی ترجمانی کرسکتے تھے، مگر کانگریس کی قومی قیادت نے انہیں پارلیمانی بحث ومباحثے میں حصہ لینے سے روک دیا!آج ہمیں ماضی سے جڑے ان تمام تندو تلخ واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے 2019 میں یہ فیصلہ لینا ہوگا کہ مستقل ہمیں کانگریس کے اشاروں پر ناچنا ہے یا اپنی غیرت و جرأت کے ساتھ ملک و ملت کی خاطر ایوانوں میں مسلمانوںسمیت دیگرقلیتوں اور پسماندہ طبقات کے حق میں مضبوط آواز بن کر کھڑا ہونا ہے ؟یہاں اس بات کو بھی ذہن نشین کرلیں کہ کانگریس جیتے یا بی جے پی ہارے، دونوں صورت حال میں مسلمانوں کا کوئی بھلا نہیں ہونے والا ہے۔اس ٹھوس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے ابھی سے ہم اگر اپنے آنگن کے پودوں کو پانی دیں تو انشاءاللہ وہ بہت جلد شجر سایہ دار بن کر تپتی دھوپ میں ہم پر سایہ فگن ہوں گے۔ اس کے برعکس دیمک لگے کھوکھلے تنے کو ہم کتنا بھی مضبوط کرنے کی کوشش کریں، وہ مضبوط تو نہیں بنے گا بلکہ جو اُس سے قریب ہے وہ اُسی پر آفت بن کر گرے گا۔سو وقت کا یہی بنیادی تقاضہ ہے کہ اوروں میں سہارا تلاش کرنے کے بجائے ہم خود کو مضبوط اور ناقابل تسخیربنایں ۔اس کے لئے مسلمانوں کو متحد ہوکر دلتوں اور دیگر تمام اقلیتی طبقات کو اپنے ساتھ شامل کر کے بی جے پی اور کانگریس کو اپنی طاقت و جرأت اور سیاسی بلوغیت سے روشناس کرانا ہوگا۔
آخر میں اس بات کو واضح کرنا بھی بے حد ضروری ہے کہ حال ہی میں ایک نیوز پورٹل کی جانب سے کئے گئے کانکلیو کی رپورٹ کے مطابق کئی اسکالرس،علماء ، دانشوروں نے انتخابات 2019 میں ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی حصہ داری ، موثر نمائندگی اور اقتدارمیں شراکت کو لے کر کھل کر بحث کی۔ ان سب کا کہنا تھا کہ ستر سال میں ہم نے کانگریس ،آرجے ڈی ،ایس پی ،ی ایس پی ،ٹی ایم سی ،اے ڈی ایس، سی پی ایم سمیت تقریبا سبھی پارٹیوں پر بھروسہ کیا، ان کے نمائندوں کو مسلم اکثریتی حلقوں سے ووٹ دے کر کر ایوان میں بھیجا،لیکن رواں انتخابات میں لوک سبھا کی جن سیٹوں پر آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین ( AIMIM )،سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا ( SDPI )،ویلفیئر پارٹی آف انڈیا،راشٹریہ علماءکونسل سمیت متعدد قابل ذکر مسلم پارٹیوں کے نمائندے انتخاب لڑ رہے ہیں ۔وہاں مسلمانوں کو انہیں بھر پور سپورٹ کرنا چاہئے، بڑی تعداد میں ووٹ دے کر انہیں پارلیمنٹ میں پہنچانا چاہئے۔ یہ لوگ ہندوستان کے مسلمانوں،کمزوروں،مظلوموں،اقلیتوں، دلتوں اور پسماندہ طبقات کی مضبوط آواز ہوں گے اور ان شاءاللہ ان کے حقوق کی لڑائی بھی لڑیں گےاور نظریاتی وسیاسی سطح پر بے نواؤں کی ترجمانی بھی کریں گے،جس طرح مظلوموں کے لئے انصاف ،اقلیتوں کے حقوق وسکون کا مطالبہ کرتے ہوئے اسدالدین اویسی کی بےباک آواز پارلیمنٹ میں گونجتی چلی آئی ہے۔بقیہ دیگر سیٹوں پر مسلم اور دلت و وٹر سیکولر پارٹیوں کو ووٹ دیں اور ان کے نمائندوں کو ایوان تک پہنچائیں۔ یاد رکھئے کہ کچھ نام نہاد سیکولر پارٹیاں مسلم قیادت کو پنپنے کا موقع نہیں دینا چاہتی ہیں، ان کی اولین کوشش ہوتی ہے کہ مسلمان سیاسی طور پر کمزور و بےبس بے اختیار اور محتاج بن کر ہمارے تلوے چاٹتےرہیں ۔ بہرصورت وقت رہتے اگر ہم نے صحیح قدم نہیں اٹھائے ،ستر سالہ غلامانہ سوچ کو نہیں بدلا تو اللہ نہ کرے مستقبل میں ہم سے ووٹ دینے کے حق بھی محروم کر لئے جائیںگے ۔ اس لئے بہتری اور برتری اسی میں ہے کہ آج ہم یہ عزم کرلیں کہ ہمیں ہر حال میں متحد ہوکر مسلم قیادت والی پارٹیوں کو کامیاب کر کے پارلیمانی ایوان تک پہنچاتے ہوئے اپنی سیاسی طاقت کا لوہا منوائیں گے، قوم کو مضبوط بنائیں گے، ملک کو فرقہ پرستوں کے خلاف متحد کریں گے ہے اس کے لئے ہمیں جاگ اُٹھنا چاہئے اور وقت کی اذان کا فہم و ادراک کر نا چاہیے ۔