سرینگر//وادی میں پلاسٹک کے استعمال، آبی ذخائر پر ناجائز قبضے،جنگلوں کے بے تحاشہ کٹائو اور شہری علاقوں میں اندھادھند تعمیراتی عمل کو ماحول کے بگاڑ کی وجہ قرار دیتے ہوئے عالمی یوم ارض پر ماہرین نے ماحولیات مخالف سرگرمیوں پر روک لگانے کی وکالت کی۔امسال عالمی سطح پر یوم ارض’’ہماری حیاتیات کا تحفظ کرو‘‘ کے موضوع کے تحت منایا جائے گا۔یوم الارض 22پریل 1970سے ہر سال باقاعدگی کے ساتھ منایا جا تا ہے تاکہ عوام میں زمین کے قدرتی ماحول کے بارے میں شعور بیدار کرنا ممکن ہو سکے۔اس دن کی مناسبت سے اقوام متحدہ کے 175 رکن ممالک بھی خصوصی تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں تاکہ خطہ ارضی کو اس کی اصل حالت میں برقرار رکھا جا سکے۔ماہرین نے اس بات پر زور دیا کہ حیاتی انواع کے تحفظ کیلئے عملی اور ٹھوس اقدامات پر عمل درآمد کی اشد ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب تک اس حوالے سے ہونے والی مثبت پیش رفت کے باوجود حیاتیاتی انواع کے تحفظ اور ان میں ہوتی ہوئی کمی کو روکنے کیلئے بہت زیادہ کام کیا جانا باقی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ حیوانات اور نباتات کو بہتر تحفظ فراہم کرنے کے لئے باغات، قومی پارکوں اور جنگلی حیات کے مراکز کی انتظامیہ کے درمیان رابطہ کار کو مزید بہتر بنانا ہوگا۔ ان کا مزید کہناہے کہ اس حوالے سے مختلف قسم کی غیر قانونی سرگرمیوں کی سختی سے سرکوبی کرنا ہوگی،اورہر قسم کی حیاتی انواع کو بہتر اور مکمل تحفظ فراہم کرنے کیلئے قانونی اور اداراتی امداد فراہم کرنا ہوگی۔ محققین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں حیاتیاتی تنوع میں تیزی سے ہونے والی کمی انسانی صحت پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ بیرون ریاست یونیورسٹی میںماہر ارضیات ڈاکٹر ہلال کا کہنا ہے ’’ہم اس بارے میں بہت کم غور کرتے ہیں کہ حیاتیاتی تنوع انسانی صحت کیلئے کیوں ضروری ہے اور اس سے انسانوں کو کیا فوائد پہنچتے ہیں۔ انہوں نے کہاچار سال تک دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے 1300 محققین نے حیاتیاتی تنوع سے انسانی صحت کو پہنچنے والے فوائد پر تحقیق کرنے کے بعد یہ رپورٹ شائع کی، جس سے پتہ چلا ہے کہ حیاتیاتی تنوع دراصل قدرت کا انمول تحفہ ہے، جو انسانوں کی صحت کے لئے نہایت ضروری اور فائدہ مند ہے۔انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تنوع ایسی گوناگوں بیماریوں سے تحفظ فراہم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، جو کسی انفیکشن یا عفونت سے جنم لیتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اب تک یہی سمجھا جاتا تھا کہ دنیا میں حیوانات اور پودوں کی مختلف اقسام کی افزائش میں کمی پیدا ہونے سے انسانوں پر حملے کرنے والے بیکٹیریاز اور وائرس بھی کم ہوتے جا رہے ہیں، اس لئے بیماریوں میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ تاہم حقیقت اس کے برعکس ہے۔ڈاکٹر ہلال کا کہنا ہے کہ انسانی صحت کے لئے ماحولیاتی نظام کے فوائد پر تحقیق کرنے والے محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بہت سے پودوں اور حیوانات میں پائے جانے والے مخصوص قسم کے بیکٹیریاز، پیراسائٹس اور فنگس وغیرہ انسانوں کے لئے بہت سی بیماریوں کا سبب بننے والے جراثیموں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ایک اور ماہر ماحولیات ڈاکٹر شبیر احمدنے کہا کہ ماحول میں آلودگی کے ساتھ ہی موسمی تبدیلیاں بھی رونما ہوتی ہے اور اس کا خمیازہ بھی ہمیں ہی بھگتنا پڑتا ہے۔انہوں نے2014میں آئے تباہ کن سیلاب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر چہ1903بعد میں1950کی دہائی میں بھی برے اور تباہ کن سیلاب آئے تاہم ان سے زیادہ نقصان نہیں ہوا اور گزشتہ سیلاب کے دوران حکومت نے از خود اس بات کا اعتراف کیا کہ ایک لاکھ کرور کے نقصانات سے دو چار ہونا پڑا۔انہوں نے کہا کہ آپ ماحول کے ساتھ چھیڑ چھاڈ کرو گے تو ماحول بھی اپنا ردعمل دکھا کر آپ کے ساتھ چھیر چھاڈ کرئے گا۔عالمی یوم ارض منانے کی روایت کو2020 میں نصف صدی مکمل ہوجائے گی، لیکن زمین کے وجود کو لاحق خطرات ہرگزرتے دن کے ساتھ مزید سنگین ہوتے جارہے ہیں۔ ڈاکٹر شبیر احمد راتھر نے بتایا کہ یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ ہوس زر اور پر کشش زندگی کے حصول کے لیے کی جانے والی منفی انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں گرین ہائوس گیسوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور یہ اضافہ مسلسل جاری ہے جس کے نتیجے میں گلیشیئرز کے پگھلنے کا عمل تیز ہو گیا ہے۔