بیسیوں صدی کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے کہ یہ صدی نہ صرف سیاسی انقلابات کی صدی رہی ہے بلکہ اذہانِ انسانی کے زرخیزی کی بھی شاہد بنی ۔اگرچہ اسی صدی میں دو عالمی جنگوں نے ہمارے ذہنوں کو لہو لہان بھی کیا ۔ اسی زرخیز صدی میں اردو کی ایک ہمہ جہت شخصیت ڈاکٹر جمیل جالبی نے بھی آنکھیں کھولیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کی پیدائش ۱۲؍ جون۱۹۲۹ء کو علی گڑھ میں ہوئی تھی اور۱۸؍ اپریل ۲۰۱۹ء کو اس دنیائے فانی کو الوداع کہہ دی ۔ انہو ںنے اپنی آخری سانسیں کراچی (پاکستان) میں لیں ۔ ڈاکٹر جمیل جالبی ایک ہمہ جہت اور نابغۂ روزگار شخصیت کے مالک تھے۔ وہ بیک وقت محقق، نقاد، انشاء پرداز، مترجم،مؤرخ اور ایک صحت مند فکر ونظر کے معلّم تھے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی علم وادب کو وقف کردی تھی ۔ وہ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے ،’’ مقتدرہ قومی زبان پاکستان ‘‘کے چیئر مین کے عہدۂ جلیلہ پر فائز رہے اور اردو لغت بورڈ پاکستان کے صدر کی حیثیت سے انہو ںنے جو لسانی ، علمی اور ادبی کارنامے انجام دئے ۔ مرحوم ہماری ادبی تاریخ کا ایک روشن باب ہیں ۔ ان کے تصنیفی اور تالیفی کارناموں پر سرسری نگاہ ڈالنے سے ہی یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ وہ ایک فرد نہیں بلکہ ایک ادارہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کی فکر ونظر کا دائرہ کسی مخصوص منطقے تک نہیں تھا بلکہ ان کے افکارونظریات بحرِ بیکراں کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ انہوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز تو ایک مترجم کی حیثیت سے کیا تھا کہ انہوں نے جان آرویل کے ناول"Animal Farm" کا ترجمہ ’’جانورستان‘‘ کے نام سے کیا تھا ۔ پھر اس کے بعد ٹی ایس ایلیٹ ان کی فکر ونظر کے محور ومرکز بنے اور انہو ںنے ایلیٹ کے مضامین کے تراجم سے دنیائے اردو کو روشناس کرایا ۔ ان کی کتاب ’’ایلیٹ کے مضامین‘‘ جہانِ ارد و کے لئے سرمایۂ بصیرت کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ان کی درجنوں کتابیں اس حقیقت کی غماز ہیں کہ ان کا مطالعہ کس قدر وسیع وعمیق تھا ۔ وہ کسی کے پیروکار نہیں بلکہ خود اپنی راہ کے تنہا مسافر رہے۔ اردو میں تاریخ نویسی شروع سے ہی ایک مشکل فن رہاہے لیکن ڈاکٹر جمیل جالبی نے اس علمی وادبی مشکل فن کو نہ صرف سہل بنایا بلکہ معیار ووقار بھی بخشا ہے جو ان کا ہی حصہ ہے ۔ انہو ںنے’’ تاریخِ ادب اردو‘‘(چار جلدوں میں )لکھ کر یہ ثابت کردیا کہ ان کا ذہن قاموسی تھا۔ ان کی تصانیف میں ’’ارسطو سے ایلیٹ تک ، قومی کلچر کا مسئلہ ، تنقید وتجزیہ، نئی تنقید، ادب کلچر اور مسائل، محمد تقی میر، معاصر ادب ، جرأت لکھنوی: تہذیب کا نمائندہ شاعر، دیوانِ حسن شوقی، دیوانِ نصرتی، قدیم اردو کی لغت‘‘ وغیرہ کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انہوںنے اردو کے تخلیقی ، تحقیقی اور تنقیدی ذخیروں کو گنج ہائے گراں مایہ کی حیثیت بخشی۔ وہ اپنے عہد کے ایک نظریہ ساز نقاد تھے اور دانشور بھی ۔ ان کی تقاریر اور ان کے مضامین یہ شواہد پیش کرتے ہیں کہ انہیں ادب کے علاوہ سماجی اور مذہبی علوم پر کتنی دسترس حاصل تھی ۔ سائنس کا موضوع ہو کہ نفسیات کا ، سیاسیات ہو کہ طبیعات، تاریخ ہو کہ جغرافیہ ، جس موضوع پر لکھتے یا تقریر کرتے ایسا لگتا کہ علم ودانش کا ایک دریا ہے جو رواں دواں ہوتا ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہم عصروں نے ان کی ادبی وعلمی خدمات کے ساتھ ساتھ ان کی دانشوری کا بھی اعتراف کیا ہے۔ ان کا شخصی دائرہ عمل توخطۂ پاکستان تھا لیکن ان کی فکر ونظر کی دنیا لا محدود تھی ۔ دنیا کا کوئی ایساعلمی و تعلیمی ادارہ نہیں جہاں ڈاکٹر جمیل جالبی کی تصنیفات وتالیفات دستیاب نہ ہوں ۔ بالخصوص برصغیر میں تو اردوتحقیق وتنقید کی دنیا ڈاکٹر جمیل جالبی کے دم سے ہی آباد رہی ہے۔ان کی تحقیق وتنقید محض برائے تحقیق یا تنقید کی حیثیت نہیں رکھتی بلکہ ان کی تحقیقی وتنقیدی تحریروں میں بھی ایک نیا تخلیقی وژن موجود ہوتاہے ۔ پروفیسر عبادت بریلوی جیسے سخت ناقد بھی یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ ’’جالبی صاحب کی تحقیق میں بھی ایک تخلیقی رنگ وآہنگ پایا جاتا ہے یہ انداز اردو کے بہت کم محققوں کو نصیب ہوا ہے۔‘ ‘ ڈاکٹر محمد احسن فاروقی نے بھی ڈاکٹر جمیل جالبی کی تنقیدی بصیرت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’میری مستقل رائے ہے کہ ڈاکٹر جمیل جالبی حالیؔ سے لے کر آج تک کے تمام اردو تنقید نگاروں میں سب سے زیادہ اہم ہیں ۔ بلا شبہ ڈاکٹر جمیل جالبی کی خدمات کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی کیوں کہ انہوں نے علم وادب کا کوئی ایسا گوشہ نہیں جس پر اپنی بصیرت وبصارت کا نقش نہیں چھوڑ اہو۔‘‘ان کی کتاب ’’قومی کلچر کا مسئلہ‘‘ کے مطالعہ سے یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ وہ تہذیبی وتمدنی تاریخ پرکتنی گہری نگاہ رکھتے تھے اور ان کی کتاب ’’ادب ، کلچر اور مسائل‘‘ اس حقیقت کی آئینہ دار ہے کہ ایک ادیب کے لئے اپنے گردو نواح سے انسلاک پیدا کرنا کتنا ضروری ہے ۔ڈاکٹر جمیل جالبی کاایک بڑا علمی کارنامہ ’’قدیم اردو کی لغت‘‘ ہے ۔ ہم سب اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ ہمارے یہاں لغت نویسی پر توجہ کم دی گئی ہے ۔ بالخصوص سائنٹفک نظریہ کو سامنے رکھ کر اس طرح کا لسانی کام نہیں ہوا ۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے پاکستان میں اردو لغت بورڈ کے صدر کی حیثیت سے لغت نویسی کے فن کو جو معیار بخشا وہ ہمارے لئے مشعل راہ بھی ہے اور سنگ ِمیل بھی ۔ان کی علمی ادبی خدمات کے اعتراف میں پاکستان کا باوقار ادبی ایوارڈ ’’دائود ادبی انعام‘‘ انہیں چار بار نصیب ہوا ۔ ۱۹۶۴ء، ۱۹۷۳ء، ۱۹۷۴ء او ر۱۹۷۵ء میں ۔ ۱۹۸۵ء میں انہیں طفیل ادبی انعام سے نوازا گیا جب کہ ۱۹۹۰ء میں ’’ستارۂ امتیاز ایوارڈ ‘‘ اور ۱۹۷۶ء میں ’’ہلالِ امتیاز‘‘ ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا ۔ ۲۰۱۵ء میں ’’کمالِ فن ‘‘ ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ چوں کہ ان کی جڑیں ہندوستان کی زمین میں پیوست تھیں ،اس لئے وہ تقسیم ِ وطن کے بعد ہندوپاک کے علمی وادبی رشتوں کو مستحکم کرنے کی بھی جدوجہد کرتے رہے ۔ وہ کبھی کسی ذہنی تعصب کے شکار نہیں رہے ۔ ہندوستان کے کلاسیکل شعراء تو ہمیشہ ان کے مطالعے کا محور ومرکز رہا لیکن نوواردانِ اقلیم ِقلم کی تخلیقات پربھی اپنی آراء پیش کرتے رہے اور اپنی دستاویزی تصانیف کا حصہ بناتے رہے ۔ افسوس صد افسوس کہ اُردو ادب ڈاکٹر جمیل جالبی جیسی نابغۂ روزگار شخصیت سے ۱۸؍اپریل ۲۰۱۹ء کو محروم ہوگئی۔ یہ ان کی زندگی کا آخری دن تھا۔ غالبؔ نے شاید اسی طرح کی دلدادہ شخصیت کے لئے کہا تھا ؎
ہے وہی بد مستی ہر ذرہ کا خود عذر خواہ
جس کے جلوے سے زمین تا آسماں سرشار ہے
موبائل:9431414586
ای میل:[email protected]