شادی بیاہ دو دلوں اور دو نفوس کے بیچ وہ پاکیزہ اور مقدس بندھن ہے جس سے خاندان کی بنیاد پڑتی ہے اور کہیں رشتے ایک ساتھ جنم لیتے ہیں۔ شادی اگر مناسب وقت پر کی جائے تو بہتر ہے اور بلاوجہ تاخیر سے کی جائے تو کہیں برائیوں کو جنم ملتا ہے۔ شادی کی وساطت سے سے وجود میں آنے والا خاندان اپنے فرائض بہتر انداز میں سر انجام دے سکتا ہے۔ اسلام نے شادی کے سلسلے میں بہت زیادہ تاکید کی اور اسے انسانی سماجی ضرورت نیز مرد و عورت کی تکمیل َذات کا ذریعہ گردانتے ہوئے اپنے وقت پر انجام دینے پر زور دیا ہے بلکہ اس سے آسان سے آسان تر بنانے کی پوری سعی بھی کی ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’ تم میں سے جو مرد عورت بے نکاح کے ہوں ان کا نکاح کر دو اور اپنے نیک بخت (مومن) غلام کا بھی، اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے بے نیاز بنا دے گا۔ اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔‘‘ (القرآن، النور:۲۳)
اس آیت مبارک کے اندر خطاب سرپرستوں (Guardian) سے ہیں کہ وہ اپنی زیر ولایت غیر شادی شدہ لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی کی تدبیر و سعی کریں، رشتوں کی تلاش و جستجو میں لگے رہیں۔ شرعی طور پر قابل قبول رشتے کی فراہمی کے باوجود ان کی شادی میں تاخیر ہرگز نہ کریں۔آج کل والدین اپنی اولاد کے لئے بہتر سے بہتر شریک حیات کی تلاش کرنے کی جستجو میں کئی معقول اور قابل قبول رشتے ٹھکرا دیتے ہیں جس سے لڑکوں اور لڑکیوں کی عمریں بڑھتی چلی جاتی ہیں لیکن ان کے خوابوں کا رشتہ کہیںنہیں ملتا۔ والدین کو اپنی غلطی کا احساس تب ہوتا ہے جب موزوں رشتے اور شادی کے لائق عمر کی حد ہاتھ سے نکل چکی ہوتی ہے۔ جہیز اور بے جا اخراجات کے علاوہ ہماری نوجوان نسل شادی کو ایک بوجھ سمجھنے لگی ہے ،اس لئے بھی وہ جتنے دن ممکن ہو خود کو اس سے دور ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے سوچ کے مطابق انہیں اپنی زندگی کو اپنی مرضی سے جینے کی ’’آزادی‘‘ نہیں ملتی اور جب وہ شادی کرنے کو آمادہ ہو بھی جاتے ہیں تو شریک حیات کے انتخاب کے متعلق بھی ان کے بے جا مطالبات کی لمبی فہرست ہوتی ہے۔ والدین ان کی پسند کا رشتہ ڈھونڈنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ اس طرح زندگی کے کچھ اور بیش قیمتی سال رائیگاں ہوجاتے ہیں۔آج کل نوجوانوں کے درمیان غلط دوستیاں اور نامناسب تعلقات، وقت کی بربادی، تباہ کن گناہوں کی لت، پڑھائی یاکام کاج میں دل نہ لگنا، صحت کا خراب ہونا وغیرہ چیزیںبھی نکاح میںرکاوٹیں بن جاتی ہیں۔ حالانکہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث مبارک سے اس ذمہ داری کی نزاکت و اہمیت کا خوب اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ آپ صلعم کا ارشاد ہے :’’تورات میں لکھا ہے کہ جس شخص کی بیٹی۲۱ سال کی عمر یعنی بلوغت کو پہنچ جائے اور اس نے اس کا نکاح نہیں کیا اور وہ گناہ کی مرتکب ہوئی تو گناہ اس کے والد پر ہوگا۔‘‘ (مشکوتہ، الالبانی ۳/۹۳۹ )
ہمارے سماج میںشادیاں رچانے میں تاخیر اب آہستہ آہستہ ایک ناسور بن چکا ہے جس نے ہمارے معاشرے کے اخلاقی ڈھانچے میں دراڑیں پیدا کرکے اسے زمین بوس کر دیا ہے۔ کبھی ہمارے اپنے
بے جاوہم و گمان ، غلط تصورات ، کبھی ہماری بے جا خواہشات رکاوٹ بنتی ہیں، کبھی ہمارے رسم و رواج، کبھی ہمارے بے جا توقعات ہم کو آگے بڑھنے سے روک لگاتی ہیں، کبھی یہ غلط خیال کہ جلدی شادی تعلیم میں اور آگے بڑھنے میں رکاوٹ بنتی ہے۔حال ہی میں اس موضوع پر ’’یوتھ پبلک ویلفیئر فورم ۔ امید کی کرن (Youth Public Welfare Forum- Ray of Hope ) (ایک غیر سرکاری و غیر سیاسی رضاکارتنظیم ہے) نے ۹۲ اپریل ۹۱۰۲ کو ہاک پروڈکشن (Hawk Production) کے اشتراک سے سرینگر میں منفرد انداز کا ایک پروگرام انعقاد کیا جس میں مختلف پیشوں سے وابستہ لوگوں نے شرکت کر کے شادی کانہ آبادی کے تعلق سے اپنے قیمتی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اس بارے میں تاخیر کے خلاف رائے عامہ منظم کر نے اور آگہی مہم چلانے کا عہد کیا۔ اس پروگرام کی ہر طرف سے کافی پذیرائی ہوئی۔ ایسے سماجی پروگرام مستقبل میں بھی منعقد کرانے کی اہم ضرورت ہے تاکہ بر وقت شادیوں کی سوچ عام ہو جائے۔
ایک طرف جہاں شادی میں تاخیر کا مسئلہ قابل امر ہے تو دوسری طرف مخلوط تعلیمی نظام، بے پردگی ، غیر محرموں میں تعلقات او روابط میں کوئی رکاوٹ نہ ہونا، بڑھتی ہوئی عریانیت، موبائل کا بے جا استعمال ، سوشل میڈیا کا اخلاقی ضو ابط سے ماوراء استعمال سے بعض جوان گناہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ شادیاں موخر ہوتی ہیں۔ اسلام میں نہ صرف بدچلنی سے بچنے کی سخت تاکید کی گئی ہے بلکہ اس کے اسباب ومحرکات سے بھی دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ خبردار زنا کے قریب بھی نہ بھٹکنا کیونکہ وہ بڑی بے حیائی ہیاور بہت ہی بری راہ ہے۔‘‘ (الاسراء :۲۳)ظاہر سی بات ہے خدا نے جنسی خواہشات مرد اور عورت دونوں کے وجود میں ودیعت کررکھے ہیں اور ان خواہشات کے لئے صحیح اور جائز راستہ صرف شادی کی شکل میں شریعت اسلامی نے متعین کررکھا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول مبارک کے مطابق شادی سے صرف دو شخص ہی گریز کرتے ہیں ایک نامرد تو دوسرا بدکار۔
آئیے اب شادی خانہ آبادی میں تاخیر کے چند اسباب کو ایک سر سری نظر دوڑاتے ہیں:
(۱ ) لاڈ و پیار: والدین عموماً اپنے بچوں کو ہمیشہ کم عمر ہی تصور کرتے ہیں جب کہ ان کی عمر کافی ہوچکی ہوتی ہے۔ اپنے آرزوؤں، تمناؤں اور رسم و رواج کے علاوہ دکھاوا پوراکرنے کے لیے پیسہ کا نہ ہونا بھی اس میں شامل ہے۔ والدین کی بے حسی یعنی دھیان نہ دینا بھی بعض جگہ تاخیر کا سبب بن گیا ہے۔
(۲ ) تعلیم: بعض اوقات شادی کو تعلیم کی رکاوٹ تصور یا تعلیم ہی کو معیار بنایا جاتا ہے جس سے وقت پر مناسب رشتہ نہیں ملتا ہے۔
(۳ ) مالی حالت: غربت و تنگ دستی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ روزگار کے مطابق ہم پلہ رشتہ نہ ملنا، بچوں کی کمائی پر انحصار ہونا، روزگار کی تلاش و جستجو کرنا، بھاری بھر کم مہر کا مطالبہ، اپنے مقابل میں تمام خوبیوں اور کامیابیوں کا دیکھنا، جہیز کے لئے سونا چاندی تیار کرنا۔ مزید برآں جہیز ی ڈیمانڈ وغیرہ کے نتیجہ میں بھی مناسب رشتہ ملنا مشکل ہوجاتا ہے کہ عمر پھسلتی ریت کی مانند رائیگاں ہو کر رہ جاتی ہے۔حالانکہ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ مدارس اسلامیہ سے فارغ التحصیل حفاظ کرام کی ماہانہ اجرت 3 یا 4 ہزار روپے سے زیادہ نہیں ہوتی لیکن پھر بھی وہ اپنی ازدواجی زندگی بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ گزارتے ہیں۔
(۴ ) ثقافت : اپنے رہن سہن ، اپنی ذات کے مطابق ، اپنی معیار زندگی، اپنے قوم و قبیلہ میں رشتہ تلاش کرنا بھی شادی میں تاخیر کا اہم سبب مانا جاتا ہے۔ بعض لوگ Cross Culture شادیوں کے مخالف ہے۔ اسلام ا س لایعنی فکر وعمل کے برعکس ہمیں دکھاتا ہے کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ اور زینب رضی اللہ عنہا کے رشتے نے کس طرح اس سوچ پر پانی پھیر دیا ، کم ازکم اسلام اس کی اجازت قطعاً نہیں دیتا، دین ِ حق میں معیار تقویٰ ہے نہ کہ ذات برادری اور پیشہ۔
(۵ ) احباب و اقارب : شادی کے معاملے میں دوستوں اور رشتہ داروں کا ایک اہم کردار ابتداء ہی سے دیکھنے کو ملتا ہے لیکن ان کے منفی سوچ سے، حد درجہ ناز نخرے اور ہٹ دھرمی سے اور بد اخلاقی روشیں اختیار کرنے سے ہم پلہ رشتہ ملنا مشکل ہو جاتا ہے اوراس سے عمر ویران صحرا کی طرح بن کر رہ جاتی ہے۔ وقت کے رئیس حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی شادی خانہ آبادی اتنی آسان تھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع بھی نہ ہوئی۔
(۶ ) حسن اور دولت کو فوقیت : دین کو چھوڑ کر دولت و حسن کی ترجیحات پر رشتہ کرنا کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتا حتیٰ کہ اگر شہرت آسمان کی بلندی کو چھو رہی اور حسن دیوانہ بنا رہا ہو۔
(۷ ) کم عمر کو ترجیح: ہمارے معاشرے میں بڑی عمر کے مرد و خواتین کے نکاح کو معیوب اور ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔ عموماًکم عمر رشتہ کو ہی ترجیح دی جاتی ہے جس سے زیادہ عمر والے لڑکے اور لڑکیوں کو نظر انداز کرنے سے تاخیر کا سبب بن جاتا ہے۔
(۸ ) وہم اور خوف: ازدواجی زندگی کو کامیاب رکھنے کا خوف ہر دم کھٹکھٹانا، ساس، سسر، بہو اور نند کے درمیان رشتہ میں تلخی پیدا ہونے کے ڈر کا احساس صرف وہم و خیال تک ہی محدود ہو سکتا ہے۔ لہٰذا توکل اس ذات پر کرنا چاہیے جو دو دلوں کے بندھن کو ازدواجی زندگی جیسے مقدس دھاگے سے گانٹھ دیتا ہے۔
(۹ ) فحاشی و عریانیت : فی زماننااخلاقی بے اہ روی، بے حیائی اور بے پردگی اپنے عروج پر ہے۔ اس سے بھی شادی کے مقدس رشتے اور اس کی ذمہ داریاں اٹھانے سے گریز کیا جاتا ہے۔ ایسے منچلے اور بے ہنگم طبیعت نوجوان مردو خواتین کو بلا ضرورت گھر سے نکلنے کی آزادی میں شادی اپنے پاؤں میں زنجیر لگتی ہے۔
ان کے علاوہ کئی اور وجوہات بھی ا س مسئلے کے پس پردہ کارفرما ہو سکتی ہیں۔ جو بھی ہو بہر حال ان سب وجوہات کی موجودگی میں معاشرے میں آئے دن بڑھتی عمر کے بے نکاح نوجوان لڑکے لڑکیوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ ا س سے نوجوان نسل کا تباہی کے دہانے پرپہنچنا فطری امر ہے۔ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہم سب مل کر اس ناسور کے خلاف متحرک آواز بنیں اور اس کے عملی سدباب کر نے میںحتی الوسع کر دار ادا کر یں ۔ ا س ضمن میںعلمائے کرام، ائمہ مساجد، دانشور و مفکرین ، قلم کاروں، تجزیہ نگاروں، صحافیوں، شاعروں ، قانون دانوں ، سول سوسائٹی، سرکاری و غیر سرکاری تنظیموں، مدارس اسلامیہ، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹی سطح کے معلمین اور طلباء ، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ افراد، ذی عزت شہر یوںاور دیگر مؤثر آوازوں کو ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع ہوکر متذکرہ ناسور کے خلاف اپنا رول نبھانا چاہیے۔ ا س بارے میںسماج میں بُرے رسومات ورواجات کو پھیلانے والوں کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے، گیسٹ کنٹرول جیسے احکامات پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے، اپنی اولاد کی بلوغیت کے ساتھ ہی شادی کرنے کا کلچر اپنایا جائے، غریب و یتیم بچوں کے لئے فوری و آسان شادیوں کا بندوبست کیا جائے، محلہ سطح پر سماج سدھار کمیٹیاں تشکیل دے کر اس نا سور کو جڑ سے اکھاڑنے میں نمایاں کردار ادا کیاجائے ، جو لوگ شادی بیاہ کو خر چیلے اخراجات اور نمود ونمائش کا ہفت خوان بناتے ہیں ،ان کے خلاف مہذبانہ سماجی بائیکاٹ کیا جائے ۔ غرض نکاح کو مشکل معاملہ اور کاروبار بنانے کے بجائے اسے آسان اور سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا آئینہ دار بنایا جائے۔والدین اپنے بچوں کو عصری اور دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ بہتر ذہنی تربیت کا بھی خاص خیال رکھیں۔ قرآن و سنت کے مطابق شادیوں کو اصراف وتبذیر جیسی زحمتوں اور بے حیائی کا مظہر بنانے کے بجائے اسے حضرت زینب اور فاطمتہ الزہراء رضوان اللہ تعالیٰ عنہما کی شادی خانہ آبادیوں کی مانند جنم جنم کے ا س رشتے کو عملاًسنجیدگی، سادگی اور رحمت کا سنگم بنا نا ہوگا اور جہیز ی لین دین جیسی خون آشام بدعات کا علی الاعلان توڑ کر ناہوگا۔
دعاہے کہ للہ پاک ہم سب کو شادیوں کے سلسلے میں سنجیدہ ہونے اور اپنے محبوب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
……………………………………
ہاری پاری گام۔۔۔ ترال کشمیر
فون نمبر 9858109109