جب موبائل نہیں تھا تو زندگی کتنی سکون تھی ‘ ہر چھوٹا بڑا سکون کی نیند سوتا تھا ‘ موبائل کی فراوانی سے انسانی زندگی میںبھونچال آچکا ہے‘ بیوی شوہر سے بیزار اور شوہر بیوی سے کنارہ کش ‘ اولا د ماں باپ سے باغی اور ماں باپ بچوں سے لاپرواہ‘ ہر شخص حالات‘ موسم اور وقت کو بھول کر موبائل کوہاتھوں میں اٹھائے اور سینے سے لگائے یوں پھرتا ہے جیسے زندگی کا سب سے اہم اثاثہ یہی ہو ۔چند دن پہلے کی بات ہے کہ میں نے ایک خاتون کو دیکھا جو موبائل کانوں سے لگائے کسی سے جھگڑتی جارہی تھی ‘ چند لمحوں کے بعد وہی خاتون موبائل پر بات کرتے ہوئے ایک قیمتی گاڑی کو ڈرائیوکرتی دکھائی ‘ کچھ ہی دور جا کر اس نے جب مخالف سمت ٹرن لیا تو دوسری جانب سے بھی ایک ایسا ہی شخص سامنے آگیا ،بس پھر کیا تھا ایک دھماکہ ہوا اور دونوں خون میں لت پت تڑپتے دکھائی دئے ۔ایک مرتبہ میں نہر کے ساتھ ساتھ جوہر ٹائون کی جانب بائیک پر جارہاتھا صبح کے وقت ہر شخص کوجلدی ہوتی ہے گاڑی ہو یا بائیک سب طوفانی رفتار سے رواں دواں دکھائی دیتے ہیں ۔کسی یونیورسٹی کا ایک طالب علم موبائل پر مسیجنگ کرتا ہوا سڑک عبور کررہا تھا ،ابھی وہ سڑک کے درمیان میں پہنچا ہی تھا کہ ایک تیزرفتار گاڑی نے اُٹھا کر نہر میںپھینک دیا۔ ایک مرتبہ مجھے ایک سرکار ی آفس میں جانے کا اتفاق ہوا ۔میں ڈائریکٹر سے ملنا چاہتا تھا‘ آفس کا دروازہ بند تھا،باہر ایک چپڑاسی بیٹھا تھا ۔میں نے اسے بتایاکہ میں ڈائریکٹر سے ملنا چاہتاہوں ،اس نے بے رُخی سے جواب دیا صاحب میٹنگ میںہیں آپ کل آجائیں ۔حسن اتفاق سے دروازے کے کچھ حصے سے اندر دیکھا جاسکتا تھا ،مجھے ڈائرکٹر کے علاوہ کوئی اوراندر دکھائی نہ دیا۔ میں دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگیا ۔ عجیب منظر میرے سامنے تھا ،ڈائرکٹر صاحب کی آنکھیں سرخ تھیں اور چہرے کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں، یوں محسوس ہورہا تھا کہ مجھے دیکھ کر وہ پریشان ہوگیا ۔ میںنے پوچھا آپ کا چپڑاسی تو کہہ رہاتھا کہ اندر میٹنگ ہورہی ہے ،کیا آپ کے حکم پر وہ جھوٹ بول رہا تھا؟آپ عوام کے دئے ہوئے ٹیکسوں سے بھاری تنخواہیں اور مراعات لیتے ہیںاور وفتر ی اوقات میں موبائل پر چیٹنگ کے سوائے کچھ نہیں کرتے ۔ ایک بار اچانک میری اہلیہ کے سینے میں درد کااحساس ہوا ۔میں اسے فوری طور پرلے کر شفاخانے کےکارڈیالوجی پہنچا ‘ تو ڈاکٹر ایک کمرے میں اکٹھے ہوکر چائے سموسے کھارہے تھے اور چند موبائل پر چیٹنگ میں مصروف تھے ۔ میںنے بیگم کی ناساز طبع کے بارے میں انہیں آگاہ کیا، ایک ڈاکٹر نے کہا آپ جائیں میں آتا ہوں۔ پندرہ بیس منٹ گزرنے کے بعد جب کوئی نہ آیا تو میں دوبارہ گیا ‘ میں نے کہا ڈاکٹر صاحب میری اہلیہ کرسی پر بیٹھی تڑپ رہی ہے، اسے کوئی بیڈہی عنایت فرما دیں۔اس نے جواب دیا یہاں کوئی بیڈ خالی نہیں ہے ،اگر کرسی مل گئی تو اس پر بھی شکر اداکریں ،ورنہ مریض فرش پر ہی لیٹے رہتے ہیں ۔ بگڑتی ہوئی حالت دیکھ کر میں اسے پرائیویٹ ہسپتال لے گیا لیکن ایک بات کاافسوس ضرور ہوا کہ دُکھی انسانیت کی خدمت کا جذبہ لے کر ڈاکٹر بننے والے بیشتر حضرات شاید اپنا مقصد بھول چکے ہیں ۔ پبلک ڈیلنگ کے جتنے بھی ادارے ہیں تمام اداروںمیں افسروں سے لے کر ماتحتوں تک ایک ہی کام کرتے دکھائی دیتے ہیں، وہ ہے موبائیل پر انگلیوں کی تھرک اور آنکھوں کا مسلسل اسکرین پر مر کوزیت۔ جب آوے کا آوہ ہی بگڑ جائے تو پھر کون کسے روک سکتا ہے ؟چند دن پہلے کئی اخبارت میں یہ خبرنظر آئی کہ سکول ٹائم میں ٹیچرز موبائل استعمال نہیں کرسکتے ۔ میں نے سوچا کاش یہ حکم تمام سرکاری دفاتر کے لیے ہوتا ہے ،بطور خاص پبلک ڈیلنگ والے دفاتر میں تو موبائل لانابھی ممنوع ہونا چاہیے ۔ اب تو اوپر سے نیچے تک سب موبائل کے ہی دیوانے ہیں ،اب تو چھابڑی فروشوں بھی موبائل کے بغیر نظر نہیں آتے ۔میرے مشاہدے میں کتنے ہی ایسے والدین ہیں جن کی لاپرواہی کے نتیجے میںان کے تمام بچوں کو چشمے لگ چکے ہیں ‘ میں سمجھتاہوں ایسے بے پرواہ والدین کو سزا ملنی چاہیے جنہوںنے بچوں کو اس قدر آزادی اور موبائل خرید کر دے رکھا ہے ۔ ایک دن میں سکول کے باہر بیٹھا اپنے پوتے پوتیوں کا انتظار کررہا تھا تو سکول سے نکلنے والے اکثر بچے اور بچیوں کی آنکھوںپر عینکیں لگی دکھائی دیں۔ ذہن میں یہ سوال کلبلایا کہ یہ معصوم بچے جو بچپن میں ہی اپنی نظر کمزور کر بیٹھیں گے، وہ زندگی کے باقی ماہ و سال کیسے گزاریں گے ؟ دور حاضر کے لوگوں کو ایک لمحے کیلئے یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ موبائل کا استعمال ایک حد تک محدود رکھنا چاہیے ،حد سے زیادہ اہمیت دینے اور بچوں کی جانب سے لاپرواہی برتنے سے خطرناک نتائج برآمد ہوتے ہیں جو آج کل جابجا دیکھے جاسکتے ہیں ۔