حضرت انسان کواللہ تعالی کی ودیعت کردہ بے شمار نعمتوں میں سے ایک نہایت ہی اہم نعمت آنکھ بھی ہے۔یہ اللہ تعالی کا عطیہ بھی ہے، انعام واکرام اور نعمت عظمی بھی ۔انسانی اعضاء میں آنکھ بظاہر جسم کا بہت ہی چھوٹا عضو ہے مگر اپنی اہمیت وافادیت کے اعتبار سے نہایت ہی عظیم ، اہم اور حساس ہے۔
آنکھ اردو میں اسم مونث ہے اور عربی میں بھی ۔عربی میں اس کے لیے چھ الفاظ اورآنسو بہانے کے لیے بیس الفاظ مستعمل ہیں۔ آنکھ کو عربی میں ’’عین‘‘ اور فارسی میں ’’چشم‘‘ کہتے ہیں۔
اللہ تعالی نے ہر انسان کود و آنکھیں عطا فرمائی ہیں۔ ایک آنکھ والے انسان کو کانا اور ٹیڑھا دیکھنے والے کو احْوَل او ربھینگا کہا جاتاہے۔ دونوں آنکھوں سے معذور شخص کو اندھا کہتے ہیں۔ مسیح دجال داہنی آنکھ سے محروم ہوگااسی لیے اسے کانا دجال بھی کہتے ہیں۔اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کا ف، ف، ر لکھا ہوگا جسے صرف مومن حضرات ہی پڑھ سکیں گے۔
جسم انسانی کا ہر عضو اپنی جگہ بہت ہی اہمیت اور قدر وقیمت کا حامل ہے مگرکسی ایک کے چھن جانے کے بعد ہی انسان کو اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔اگرانسانی جسم کے تمام اعضاء کی ساخت ، ان کی باریکیوں اورفوائد پر غور کیا جائے تووہ اپنے صانع کے وجود کا پتہ بتاتے ہوئے نظر آئیں گے۔ خود اللہ تعالی نے انسانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی خلقت پر غور کریں ۔آنکھ کے ذریعے انسان دنیا کی ہر نعمت اور ہر شے کو دیکھنے پر قادر ہوتا ہے اور یہی آنکھ کا اولین وظیفہ بھی ہے۔اب یہ انسان کی خوش بختی یا بد بختی پر منحصر ہے کہ وہ دیکھناکیا چاہتا ہے۔دنیا کی نعمتوں اوراس کی صنعت کو دیکھ کر کچھ لوگ نصیحت اور عبرت حاصل کرتے ہیں توکچھ لوگ اخبارات اورکتابوں کی روشنی میں علم حاصل کرتے ہیں۔کچھ لوگ کمپیوٹر ، موبائل اسکرین اور ٹی وی پر دنیا اور اس میں پیش آنیوالے واقعات وحوادث اور کائنات کی وسعتوں میں پھیلے ہوئے عجائب و غرائب کو دیکھ کر خالق کائنات کے وجود کی دلیل اخذ کرتے ہیں۔
یہ آنکھ کی اہمیت اور قدر ومنزلت ہی تو ہے کہ اردو زبان میں اس سے بے شمار محاروے، ضرب الامثال اور کہاوتیں مشتق ہیں۔چنانچہ جب آنکھ دکھتی ہے، تکلیف میں مبتلا ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ آنکھ آگئی ہے یا آشوب چشم ہوگیا ہے، کسی کو آنکھ اٹھاکر دیکھنا(یعنی نظر بھر کر دیکھنا)یا آنکھ اٹھاکر نہ دیکھنا(یعنی خاطر میں نہ لانا) آنکھ اونچی نہ کرنا(شرم وحیا کی وجہ سے) کسی سے آنکھ بچاکر کچھ کرنایا آنکھ بند کرکے دینا، آنکھ بھر آنا(آنسوبہانا)آنکھ بھر کے دیکھنا(گہری نگاہ سے دیکھنا) آنکھ پھاڑ پھاڑ کر دیکھنا(غور سے ، حیرت سے، پیار سے دیکھنا)آنکھیں پھیر لینا(بے مروت ہوجانا، دنیا سے گذر جانا)آنکھ ٹھنڈی کرنا(تشفی وتسلی کرنا، دل خوش کرنا) آنکھ ٹیڑھی کرنا(بے وفائی کرنا) آنکھ چراکر دیکھنا(کن انکھیوں سے دیکھنا) آنکھیں خیرہ ہونا(چکا چوندھ ہونا) آنکھیں روشن ہونا(کسی کو دیکھ کر خوش ہونا) آنکھ سے آنکھ ملانا(برابری کرنا، پیار کرنا) آنکھ کا کاجل چرانا(چالاکی سے کوئی کام کرنا) آنکھ سے گرنا(ذلیل وخوار ہونا) آنکھ کھل جانا( حقیقت امر کا پتہ چل جانا) آنکھ لڑانا (عشق کرنا)آنکھ میلی نہ ہونا( کسی صدمے سے متاثر نہ ہونا) آنکھ ناک سے درست ہونا(بے عیب ہونا) آنکھ والا ہونا (جوہر شناس، صاحب بصیرت ہونا) آنکھوں آنکھوں میں(اشاروں اشاروں میں) آنکھوں پر بٹھانا(عزت واحترام کرنا، خاطر مدارات کرنا) آنکھوں سے اوجھل ہونا(چھپ جانا) آنکھوں سے پردہ اٹھ جانا(غفلت اور لاعلمی ختم ہوجانا) آنکھوں کا تیل نکالنا(باریک کام کرنا) آنکھوں میں خون اترنا(بہت غصہ آنا)آنکھوں میں رات کاٹنا(ساری رات جاگنا) آنکھیں پھیرنا (کترا جانا) آنکھوں کا ٹھنڈی ہونا( اولاد کے دیدار سے خوش ہونا) آنکھیں چھت سے لگنا(مرگ کے وقت) آنکھیں ڈبڈبانا(آنسو بھرجانا) آنکھیں سینکنا( حسینوں کے دیدار سے) آنکھیں کھلی رہ جانا(سکتے میں رہ جانا) آنکھیں موند لینا(مرجانا، بے خبر ہونا)وغیرہ وغیرہ جیسے بے شمار محاورے اردو زبان وادب میں روز مرہ کے استعمال میں آتے رہتے ہیں جن سے آنکھ کی اہمیت آشکارا ہوتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان جب کسی درد وغم ، حزن والم یا فرحت ومسرت کے جذبات سے آشنا ہوتا ہے تو انسانی اعضا میں سب سے پہلے آنکھ اس کا ساتھ دیتی ہے اور اشک بار ہوجاتی ہے یعنی ؎
مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ
فرط مسرت وانبساط میں آنکھیںکبھی موتی بکھیرتی ہیںتو کبھی اپنے کسی عزیز یا محبوب کے فراق پر اشک برساتی ہیں۔کچھ آنکھیں ذاتی جذبات وکیفیات اور دکھ درد کا شکار ہوکر روتی ہیں تو کچھ دوسروں کے مصائب اور پریشانیوں کو دیکھ کر آہ وزاری کرتی ہیں اورکچھ خوف خدا میںبرستی ہیں اور ایسی آنکھوں پر اللہ تعالی نے جہنم کو حرام قرار دے دیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اکلوتے بیٹے حضرت ابراہیم کا جب انتقال ہوا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا: آنکھ روتی ہے دل غمزدہ ہوتا ہے (الحدیث)انسان اپنی کسی پسندیدہ نعمت کے چھن جانے اور محبوب ساتھی ،دوست اور رشتہ دار کے فراق پر آنسو بہاتا ہے مگر اللہ کی خشیت اور خوف سے صرف پاکیزہ نفوس اور صاف ستھرے دل کے مالک اور متقی و پرہیزگارانسان ہی کی آنکھیں روتی اور اشکبار ہوتی ہیں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار حضرت ابن مسعود ؓسے کہا قرآن مجید کی تلاوت کرو۔ میری خواہش ہے کہ کسی اور کی زبانی قرآن مجید سنوں۔ انہوں نے سورۂ نساء کی تلاوت کی اورجب وہ روز محشر کی جوابدہی کے تعلق سے آیت کریمہ پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رونے لگے۔صحابہ ؓنے کسی موقعے پر آپؐ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے گناہوں کومعاف کردیا ہے ،آپ ؐکیوں روتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا کیا میں اس کا شکر گذار بندہ نہ بنوں۔
صحابہ کرامؓ کے بارے میں آتاہے کہ وہ اس طرح روتے تھے کہ ہچکیاں بندھ جاتی تھیں۔کثرت بکاء سے کبھی کبھی انسان کی آنکھیں سفیدہوجاتی ہیں یعنی اس کی بینائی ختم ہوجاتی ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارے میں قرآن مجید نے ذکر کیا ہے کہ اپنے پیارے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کے فراق اور غم میں کثرت بکاء کی وجہ سے ان کی آنکھیں سفید ہوگئی تھیں۔اور کبھی کبھی تو یہ آنکھیں یوں ہی برس جاتی ہیں۔ چھلک جاتی ہیں۔بشیر بدر کہتے ہیں ؎
کبھی کبھی تو چھلک پڑتی ہیں یوں ہی آنکھیں
اداس ہونے کا کوئی سبب نہیں ہوتا
ہر زبان کے شعراء کے اشعاروقصائداور نظموں میں آنکھوں کو خاص مقام حاصل ہے۔ میر نے کہا ہے ؎
میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سے ہے
منور راناؔ کا شعر ہے ؎
تذکرہ تھا تری آنکھوں کا سر بزم کہیں
اور مجھے میرؔ کا دیوان بہت یاد آیا
آنکھ کے مقابلے دل کو زیادہ وسعت حاصل ہے ۔ اسی لیے انسان تصورات و تخیلات کی آنکھ سے ان تمام اشیاء کا مشاہدہ کرسکتا ہے جن کے مشاہدے سے آنکھ قاصر رہتی ہے۔ بشیر بدرؔ کا ایک شعر اس تمثیل کے لیے قابل ذکر ہے ؎
آنکھوں میں رہا دل میں اتر کر نہیں دیکھا
کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا
ناصر کاظمی کا شعر ہے ؎
اس قدر رویا ہوں تیری یاد میں
آئینے آنکھوں کے دھندھلے ہوگئے
آنکھ ہمیشہ مرکز توجہ رہی ہے ، آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ ہوجاتا ہے اور بڑے بڑے واقعات رونما ہوجاتے ہیں۔ آنکھوں سے جو کچھ ہوجاتا ہے بعض اوقات بڑے بڑے ہتھیاروں سے بھی اس کا وقوع ناممکن ہوتا ہے ؎
لوگ نظروں کو بھی پڑھ لیتے ہیں
اپنی نظروں کو جھکائے رکھنا
فانی بدایونی کہتے ہیں ؎
یوں چرائیں اس نے آنکھیں، سادگی تو دیکھیے
بزم میں گویا مری جانب اشارہ ہوگیا
ایک محبت بھری نظر سے انسان رنج بھول اٹھتا ہے۔ غم غلط کربیٹھتا ہے۔عدم کا شعر ہے ؎
جب ترے نین مسکراتے ہیں
زیست کے رنج بھول جاتے ہیں
بعینہ اسی طرح ایک محبت بھری نظر سے انسان مقتول ہوجاتا ہے، شہید ہوجاتا ہے۔عہد بنو امیہ کے مشہور ومعروف عربی شاعر جریر بن عطیہ الخطفی کا بڑا ہی مشہور شعر ہے وہ کہتا ہے ؎
اِنَّ الْعُیُونَ الَّتِیْ فِیْ طَرَفِہَا حَوْرٌ
قَتَلْنَنَا ثُمَّ لَمْ یُحْیِیْنَ قَتْلَانَا
’’کارے کارے اور سفید نینوں نے اپنے غمزوں سے ہمیں اس طرح قتل کردیا کہ ہم پھر جانبر نہ ہوسکے‘‘
اسی مفہوم میں جلیل مانک پوری نے کیا خوب کہا ہے ؎
آنکھ رہزن نہیں تو پھر کیا ہے
لوٹ لیتی ہے قافلہ دل کا
فیض احمد فیض کے یہاں تو دنیا کی تمام نعمت صرف اس ایک نعمت پر قربان ہے اورمحبوب کی حسین وجمیل آنکھوں کے آگے دنیا کی ہر شے لایعنی اور بے حیثیت ہے۔ ان کا مشہور شعر ہے:
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
یہ اٹھے صبح چلے یہ جھکے شام ڈھلے
بڑی بڑی آنکھوں کو خوب صورتی کی علامت تصور کیا جاتا ہے۔ آج کے دور میں لینس لگاکر آنکھوں کے رنگ روپ کوبدلنے کا بھی کام لیاجاتا ہے جس سے انسان کے چہر ے کی بناوٹ وسجاوٹ اور حسن وجمال میں فرق پڑ جاتا ہے۔
انسانی اعضا کی طرح آنکھوں کو بھی ضعف اور کمزوری لاحق ہوتی ہے، آج کے ترقی یافتہ دور میں عینک اور چشموں کے استعمال سے اس کی کمزوری اور ضعف کو نہ صرف چھپایا جاسکتا ہے بلکہ مناسب چہرے پر مناسب عینک کے استعمال سے چہرے کی خوب صورتی اور حسن وجمال میں اضافہ ہوتا ہے۔ جب انسانی روح قفس عنصری سے پرواز کرتی ہے تو آنکھ اس کا پیچھا کرتی ہے اسی لیے آنکھوں کے چھت سے لگ جانے کا محاورہ بنایا گیا ہے، شریعت اسلامیہ میں آنکھوں یا جسم کے کسی عضو کی خرید وفروخت جائز نہیں ہے۔
ا ندھے کو بہرے کے مقابلے زیادہ پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔اندھا بہرے سے زیادہ پاکیزہ اور خوش قلب ہوتا ہے کیوں کہ آنکھوں سے محروم ہونے کی وجہ سے اندھا شخص دنیا کی بے شمار برائیوں اور خرافات کے مشاہدے سے محفوظ رہتا ہے جب کہ وہ اپنی قوت سماع سے استفادہ کرتے ہوئے اللہ کاکلام، دینی تقاریر اور پند ونصیحت سے بھر پور فائدہ اٹھا سکتا ہے۔بہرہ شخص قوت سماع سے محروم ہونے کی وجہ سے آیات الہی ، دینی تقاریر ، اچھی گفتگو اور نصیحت وموعظت کے سماع سے محروم ہوتا ہے جب کہ وہ اپنی آنکھوں کے ذریعے دنیا کی بے شمار غلط چیزوں پر نگاہ غلط انداز ڈال سکتا ہے۔
ایک مشہور حدیث ہے اکثر حضرات نے سنا ہوگاکہ پرانے زمانے میں تین قسم کے انسان تھے جن میں سے ایک اندھا ، دوسرا جذام کا اور تیسرا برص کا مریض تھا۔ اللہ تعالی نے ان کی آمائش کے لیے ان کے پاس فرشتے کو بھیجا ، اس نے تینوں سے پوچھا کہ انہیں کیا چاہیے، انہوں نے اپنے مرض سے شفا یابی کی درخواست کی فرشتے نے پھونک ماری اور تینوں شفایاب ہوگئے۔ اس کے بعد اس نے تینوں کو ان کی پسند کے مطابق مویشی عطا کیا اور چلا گیا۔ کچھ دنوں بعد ان کی آزمائش کے لیے وہ دوبارہ ایک مسکین اورمسافر کی شکل میں حاضر ہوا ، جذام اور برص کے مریضوں سے مدد کی درخواست کی انہوںنے اس سے اپنی اپنی آنکھیں پھیر لیں اور کسی طرح کے تعاون سے ہاتھ کھینچ لیا اور کہا کہ انہوں نے یہ دولت بڑی عرق ریزی سے کمائی ہے اگر اسی طرح بانٹتے رہے تو ایک دن وہ قلاش ہوجائیں گے۔فرشتے نے پھونک ماری اوروہ دوبارہ اپنی پہلی حالت پر لوٹ گئے۔فرشتہ اندھے کے پاس گیا، اس سے مدد کی درخواست کی اس نے کہا یہ سار ی دولت مجھے اللہ تعالی کی طرف سے ملی ہے، چنانچہ تمہیں جتناچاہیے لے لو، فرشتے نے کہا کہ میں فرشتہ ہوں تمہاری آزمائش کے لیے اللہ تعالی نے مجھے بھیجا تھا، تمہارے دو ساتھی ناکام ہوگئے اور تم اس آزمائش میں کامیاب ٹھہرے(الحدیث)
قارئین کرام!آنکھ قدرت کا بہت بڑا انعام اور عطیہ ہے۔اس سے انسان کی ساری دنیا روشن رہتی ہے۔آنکھوں کی بینائی ختم ہوجانے اور آنکھوں سے محروم ہوجانے کی صورت میں انسان کی دنیا اندھیری ہوجاتی ہے وہ بیکار اور دوسروں کا محتاج ہوجاتا ہے۔ لہذا صاحبان بصارت کے دل ودماغ میں ہمیشہ یہ تصور رہنا چاہیے کہ آنکھ اللہ کا ودیعت کردہ نہایت ہی قیمتی عطیہ اور سرمایہ ہے، اس کی حفاظت کرنی چاہیے اور اس کے غلط استعمال سے احتراز کرنا چاہیے۔ اس نعمت اور عطیہ پر اللہ تعالی کا شکر گذار ہونا چاہیے کہ اگر وہ کسی انسان کو کسی نعمت سے نواز سکتا ہے تو کبھی بھی ان سے چھین بھی سکتا ہے۔
رابطہ :صدر شعبۂ عربی بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری جموں وکشمیر
فون نمبر9086180380