ریاستی حکومت نے پلوامہ خودکش حملے کے بعد سرینگر جموں شاہراہ پر ادھمپور بارہمولہ تک ٹریفک کی آمد و رفت کے حوالے سے لگائی گئی قدغنوں کے فیصلے کو واپس لیکر ایک اہم عوامی مطالبے کے تئیں مثبت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ اگر چہ یہ فیصلہ قومی سلامتی کے نام پر لیا گیا تھا لیکن اس سے ریاستی عوام کو جن بےبیان مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، اُسکا ایک ترقی پسند سماج میں تصوربھی نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ اس کی وجہ سے نہ صرف عوام الناس کے معمولات بُری طرح متاثر ہوئے تھے بلکہ ریاست، خاص کر وادیٔ کشمیر کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ ماہرین نے اس فیصلے کو ابتداء میں ہی حقوق انسانی کی پامالی، سماجی زندگی میں خلل اور معیشت کو نقصان پہنچانے کی ایک کوشش قرار دیا تھا۔چانچہ عوامی سطح پر ہمہ گیر پیمانے پر اس فیصلے پر برہمی کا اظہار کیا جا رہا تھا اور سیاسی و نظریاتی صفوں کے آر پار کم و بیش سبھی سیاسی ، سماجی و تجارتی حلقے اس فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ سرکاری حکمنامےپر جس ہمہ گیر پیمانے پر ردعمل سامنے آیا تھا، وہ حکومت کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی تھا۔ یہ ردعمل نہ صرف تجارتی و ٹرانسپورٹ انجمنوں، سول سوسائٹی اور عوامی حلقوں کی طرف سے ہوا تھا۔اتنا ہی نہیں بلکہ کلیدی سیاسی جماعتوں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے عملی کارروائی کرتے ہوئے شاہراہ پر دھرنا دے کر اس فیصلے کے خلاف احتجاج بھی کیا۔ حکومت کی جانب سے اس فیصلے کے بارے میں پلوامہ فدائین حملے اور بانہال میں سی آر پی ایف کانوائے کے قریب پُراسرا دھماکے کو بطور دلیل پیش کیا جارہا تھا، تاکہ سیکورٹی فورسز کو آمد ورفت کے محفوظ مواقع میسر آسکیں۔ حکومت اپنی جگہ صحیح ہوسکتی تھی لیکن سیاسی قیادت خاص طور پر سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے حکومت سے یہ سوال کیا کہ، کیا ایتوار اور بدھ کے علاوہ ہفتے کے باقی پانچ دنوں کے دوران ایسے حفاظتی انتظامات کی ضرورت نہیں؟ یہ ایک ایسا سوال تھا، جس نے یقینی طور پر حکومت کو لاجواب کردیا ۔ اگرچہ اس مجموعی ردعمل کے نتیجے میں حکومت نے ضرورت مند عام لوگوں کے عبور و مرور کے لئے مجسٹریٹوں اور پولیس افسران کی تعیناتی عمل میں کہ یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ میڈیکل ایمرجنسیوں اور دیگر کئی ضروری معاملات پر اس فیصلے کا اطلاق نہیں ہوگا تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ برقرار ہے کہ اس سے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو عبورو مرور کی مشکلات درپیش تھیں۔ خاص کر ملازم طبقہ، جنہیں وقت کی پابندی کیساتھ نوکریوں پر حاضر ہونا لازمی ہوتا ہے۔ اسکے علاوہ تجارت پیشہ لوگوں کو زبردست مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑرہا تھا اور انہیںاس پابندی سے ایسے ہر دن کروڑوں روپے کےنقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تھا،جو پہلے ہی وادی کی بگڑی ہوئی معیشت کے لئے مزید بگاڑ کا سبب بن رہا تھا۔ دوسری انتہائی اہم بات یہ تھی کہ سرینگر جموں شاہراہ کی حالت انتہائی خراب ہے اور موسم کی معمولی خرابی کی وجہ سے کئی کئی دونوں تک شاہراہ پر ٹریفک کی آمد و رفت بند ہونا ایک معمول بن گیا ہے، جو پہلے ہی معیشت کی تباہی کی وجہ بنا ہوا ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے رواں برس وادی سے فروٹ باہر بھیجنے میں رکاوٹیں بھی اس طبقہ سے وابستہ تاجروں اور باغبانی کے شعبے سے وابستہ لوگوں کے لئے نقصان کا باعث بن چکی ہیں۔ ایسے حالات میں آمدرفت کے متبادل ذرائع کو مؤثر اور مضبوط بنانے کی ضرورت تھی اور اسکے لئے مطالبات بھی کئے جارہے تھے مگر اسکے برعکس میسر ذرائع کو بھی محدود کرنا ایک ایسا طرز عمل تھا جس پر اعتراضات کی بھر پور گنجائش موجود تھی۔یہی وجہ ہے کہ نظریاتی صف بندیوں کے آر پار کم و بیش سبھی سیاسی جماعتوں، جس میں ایسی جماعتیں بھی شامل تھیں، جو مرکز میں برسراقتدار اتحاد کی حامی ہیں، نے اس فیصلے کو غیر دانشمندانہ اور غیر عوامی قرار دیکر اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ انتخابی بخار میں اس فیصلے کے خلاف ردعمل نے ایک سیاسی نعرے کی حیثیت اختیار کی تھی۔حتیٰ کہ ایک سابق فوجی سربراہ جنرل وید پرکاش ملک اس فیصلے کو ’’احمقانہ خیال‘‘ قرار دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایسا فیصلہ عوام کے دلوں کو جیتنے کے بنیادی ایجنڈا کی خلاف ورزی ہے، جو کبھی بھی سود مند نہیں ہوسکتا۔ بہر حال انتظامیہ نے عوامی احساسات کا ادراک کرتے ہوئے فیصلہ واپس لینے کااعلان کرتے ہوئے ایک بروقت قدم اُٹھایا ہے، جسکا جس قدر خیر مقدم کیا جائے کم ہے۔