وادی ٔکشمیر کو تاریخ میں یہ اعزاز و امتیاز حاصل رہاہے کہ خاصا نِ خدا کے دوش بدوش حکمائے اخلاق اور سماجی اصلاح کاروں نے اپنا خو ن جگر پلا پلا کر اس خطۂ مینو نظیر کو انسا نی اقدار اور مذہبی وراداری سے روشناس کرا یا۔ یہ اسی کا ثمرہ ہے کہ لا کھ خرا بیو ں اور کو تا ہیو ں کے باوجو د اور زور زبردستوں کی ماریں سہتے ہو ئے بھی اہل ِ کشمیر من حیث القوم زندہ وپائندہ ہیں۔ تا ریخ شاہد عادل ہے کہ اولیاء اللہ نے کشمیر یو ں کو دین ومذہب کی انسانیت نو از تعلیما ت کا شعور بخشنے کے بین بین کشمیری سماج کوتہذ یب، فنو ن ، ہنر مندیوں،صنعت ودست کاریوں اور ہمچو قسم کی معاشی سر گرمیو ں سے بہرہ ور کیا تو ارض ِ کشمیر کو خوش حالی کے علاوہ ایک فخر یہ تشخص عطا ہوا۔ اس تشخص اورانفرادیت کاچراغ آندھیوں میں بھی جوں توں جلتا رہا۔ حق یہ ہے کہ ان حوالوں سے ہم سب فرداًفرداً حضرت امیر کبیر شاہ ہمدا ن کی اولوالعزم شخصیت سے لے کر شیخ العالم شیخ نور الدین نورا نی ،سلطا ن العار فین حضرت شیخ حمزہ مخدوم( رحہم اللہ) تک کی تابناک ہستیوں اور دیگر سینکڑو ں ساداتِ کرام کے احسانات کے زیر با ر احسان ہیں۔ ان عبقری شخصیات کے تئیں محبت و عقیدت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی طور ان کے نقوش قدم کی پیروی کر یں اور کشمیر کو ’’پیر وأر‘‘ ہونے کے شرف کو دوبالا کر نے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں۔ افسوس صد افسوس کہ ہمارے حالات اس کے برعکس ہیں کیونکہ بے غبار سچ یہ ہے کہ ہم ان بر گزیدہ ہستیوں کی حیات آفرین تعلیما ت سے بہ حیثیت مجموعی عملاً برگشتہ ہونے کے گناہ گار ہیں۔ اس کی زندہ مثالیں اور واضح ثبوت ہمارے یہاں کی طبقاتی کشید گی اور مسلکی تقسیم کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ منفی چیزیں اب ایک منظم شکل میں ہمارے اندر پنپ رہی ہیں بلکہ سچ پوچھئے تو انہیں بعض کندہ ٔ ناتراش جان بوجھ کر فروغ بھی دے رہے ہیں۔ گو اس سلسلے میں سارا الزام اپنے ہی سر آ تا ہے، البتہ کشمیریوں کی اجتماعیت اور ملی وحدت تو ڑ نے کے لئے خارجی عوامل کو درکنار کیا جاسکتا ہے ،نہ ان کی ریشہ دوانیاں نظر انداز کی جاسکتی ہیں۔ ان انتشار پسند قوتو ں اور آستین کے سانپوںکے مکروہ عزائم جو کچھ بھی ہو ں اْن کا موثر توڑ ممکن ہے لیکن اس صورت حال کا کیا جائے اگر ہماری داخلی صفو ں میں بھی خلفشار،نفرتیں، غلط فہمیا ں اوربغض و عناد کی سوکھی گھا س مسلک اور مشرب کے نام سے اذہا ن و قلوب میں جمع کی جا رہی ہو جو ایک معمو لی دیا سلائی بھی قوم میں نااتفا قی اورسر پھٹول کے جہنم میں بدل دے ؟ ہم لوگ کئی ایک مسلم ملکوں اور قوموں میں آپسی سرپھٹول کے دلخراش کھیل تماشے اور ان کے حوصلہ شکن نتائج دیکھتے ہیں ، ایسے عناصر ملت یا عالم انسانیت کے کبھی خیر خواہ نہیں ہوسکتے کیوں کہ جن لوگوں میں حقیقی طور خو فِ خدا، انسان دوستی اور آخرت کی باز پرسی کی ٹھنڈ ی چھاؤں رچ بسی ہو، وہ کبھی انسا نی اقدار کے باغی نہیں ہوسکتے ، یہ لوگ بندگان ِخدا سے پیار محبت سکھاتے ہیں، انہیںسچی بند گی کے آداب سے آشنا کرتے ہیں، آزادیٔ ضمیر کی راہیں سجھا تے ہیں ، الفت و یگا نگت کی ڈور میں پروتے ہیں اور عوام الناس میں صحت مند قدریںمنتقل کر تے ہیں اوریہ انمول قدریں صالح طبائع کو آدمیت کے فرحت رساں سائے تلے وطن کے ساتھ ساتھ دنیا جہاںکے لئے باعث رحمت بناتی ہیں۔بد قسمتی سے دور جد ید میں مذ ہب کے ان روح پرور پہلو ؤں کی طر ف متو جہ ہو نے اور انہیں عملی زندگی میں اپنانے کی بجائے مذ ہب کو بالعموم ایک ظا ہر پر ستا نہ چیستا ن کی شکل و صو رت دے دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بنی نو ع انسان ایک جانب خدا ناشناس لوگوں کے ہاتھوں پٹ رہی ہے اور دوسری جانب مذہب ومسلک کے نام نہاد علمبرداروں کے ہاتھوں بے شمار تکلیفیں اور ایذائیں اٹھارہی ہے۔ اس اندھ کار کے بیچ پھنسا عام آدمی امن وسکون اور بھائی چارے کی تلا ش میں بھٹک رہاہے ، وہ اپنی روح کی پیاس بجھانے کے لئے تڑپ رہا ہے، اْسے ضمیر کی پکا ر پورا کر نے میں ٹھوکریں لگ رہی ہیں۔ بلاشبہ اس سارے درد کا علاج اسلام کے دامن ِرحمت اور تعلیم اخوت میں مو جو د ہے مگر جب خو د بہ حیثیت مجموعی مسلما ن باہم دگر مسلک اور مشرب کی دیواریں جا بجاکھڑ ی کرنے میں لگے ہوں تو عام آدمی کو روحانی آسود گی کاسامان کہاں میسر ہوسکتا؟ ارض ِکشمیر میں بھی یہ بد انجام داستان عرصہ سے بنتی جارہی ہے۔ غور طلب ہے کہ یہاں مختلف الخیا ل مذہبی ادارے اور انجمنیں روزکانفرنسیں اور اجتما عا ت بلا کر لوگوں کو ایک ہو نے اور نیک بننے کی وعظ و نصیحت کر نے میں اپنی تمام قوت ِگویائی صرف کر نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اور لو گو ں کواتحاداور بھائی چا رے کی جو ت جگا نے کی تاکیدیں بھی کی جا رہی ہیں۔ بلا شبہ یہ صلح جویانہ مزاج اور اتحاد پرورانہ سوچ قابل صدتعظیم ہے لیکن تنبیہ ونصیحت کے باوجود فتنہ پرور عناصرمسلک ومشرب کے لبادوں میں کچھ ایسی زہر ناک چا لیں چل رہے ہیں جن کا منطقی انجام عوامی اتحا د و یگانگت میں رخنہ اندازی اور تفرقہ با زی کی صورت میں نکلنا طے ہے۔ فی الحقیقت کشمیر میں نامساعد حالات کے چلتے انتشار پھیلانے والی ایسی حر کا ت کے پیچھے منفی سیاست بھی کارفرما ہوسکتی ہے ،جس کا توڑ کرنا متعلقین کے لئے لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ثابت ہورہاہے۔بایں ہمہ مذہبی قیادت کا فرض منصبی ہے کہ وہ عوام الناس میں اخوت ومحبت کی مشعل فروزاں کرنے کی مخلصانہ پیش قدمی کو اولیت دیں۔ یہ ایک مستحسن کام ہی نہیں بلکہ دین ا سلام کا بنیاد ی مطالبہ اوروقت کی نا گزیر ضرورت بھی ہے۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ کشمیری قوم حالات و حوادث کی چوٹیں مسلسل سہنے کے باوجود مزاجاً راسخ العقیدہ اوروسیع المشرب ہے ، آج بھی اس کی مذہبی روا داری اور وسیع القلبی کی قسمیں کھا ئی جا رہی ہیں، مگر اس کا یہ نشا نِ امتیاز بڑی تیزی مٹایا جا رہاہے۔اس لئے زمانے کا ناقابل التواء تقاضا یہ ہے کہ متعلقین وہ تمام قلیل مدتی ا ورطویل مدتی نتیجہ خیز اقدا مات فوری طور کر یں جن سے تما م مسالک اور مکا تب ِفکرمیں ایک دوسرے کے تئیں محبت ، احترام اوروسیع القلبی کا مظا ہر ہ ہو تاکہ مذہب و مسلک کے نام پر فتنہ و فسادپھیلانے پر کمر بستہ بدقما ش عناصر اپنے سیا ہ کا رانہ اہداف پو را کرنے میں ناکام رہیں۔ اس ضمن میں مستند علماء، معتبر اسکالروں، اہل دانش اور قوم کے بہی خواہ حقیقی قا ئدین پر اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام النا س کو ہر حال میں اتحاد کی شاہراہ پر گامزن رکھیں۔ نیز تمام مذہبی اکابرین کو چاہیے کہ اپنے اپنے دائر ہ اثر میں فروعی اختلافات کوبطریق احسن سلجھانے میں کلیدی رول ادا کر نے میں کوئی پس وپیش نہ کریں۔