قارئین کرام ! صیام کریم کا آخری عشرہ بھی اب قریب الاختتام ہورہاہے۔ اس ماہ ِ غفران میں برکات اور رحمتوں کی روح پرور بارشیں نقطہ ٔ عروج پر آ رہی ہیں۔ خوش بخت اور خوش خصال ہیں وہ روزہ دارجس نے رمضان المبارک کا استقبال وَجد وشوق اور جذب وجنوں کے ساتھ کیا ، پھر دن کے صیام اور رات کے قیام سے بدنی عبادات کا حق اداکیا، قرب خداوندی اور خوشنودی ٔرب کالامثال ا نعام پایا، جس نے احتساب ِ نفس اور پاکی ٔ ذات میں کوئی کسر نہ چھوڑی ، روزہ داری سے حا صل کردہ خلوص و محبت اور نرمی وملائمت کی سوغات آنے والے ماہ وسال میں لٹانے کا مصمم عزم کیا ، جو اشک ِندامت کی بوچھاڑیں کر کے اپنے غلطیوں اور گناہوں کا دامن دُھل کر اپنی لغزشوں کی بخشش کروانے میں کا میاب رہا ، جس نے اپنا د کشکولِ طلب صرف اور صرف اللہ کے حضور ہمہ وقت پھیلاکر اسے اجابت ِدعا سے بھر وا دیا، کام دھندے میں دیانت واَمانت برت کر آذوقہ کمایا، حلال وحرام کی تمیز کر نے میں کوئی تساہل نہ کیا ، کسی کا حق نہ مارا ، کوئی ڈنڈی ماری نہ کی ، کس کا دل نہ دُکھایا، کسی کے جذبات مجروح نہ کئے ، اپنوں اور غیروں کے ساتھ ٹوٹے رشتے جوڑنے میں خوش گوار پہل کی، اپنوں کے ہی نہیں غیروں کے بھی کام آیا ، جھوٹ سے نفرت کی ، سچائی کا پرستار بنا ، راست بازی اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ۔ اگر نصاب سے زائد دھن دولت، زمین زراعت، مال ِتجارت اُ س کی تحویل میں سال بھر رہا تو اس کی مالیت گن گن کر پوری خداخوفی کے ساتھ مستحقِ امداد غریب رشتہ داروں ، ہمسایوں، دل جوئی کے اُ میدوار مفلس نو مسلموں ، جان پہچان والے مریضوں، مستند یتیم خانوں، امانت دار خیراتی اداروں، حقیقی فلاحی انجمنوں ، سوزِ دل رکھنے والی اور اتحاد ِملت کی داعی دینی تنظیموں ، عام مصیبت زدہ ناداروں میں اپنی زکوٰۃ و خیرات پورے انصاف کے ساتھ کا ملاً بانٹ دی ، اُس بندہ ٔ خدا کے لئے پیشگی لاکھ لاکھ عید مبارک۔ وہ کامیاب، وہ بامراد، وہ سعادت یافتہ ،اس کی سعی وکاوش اللہ کو قبول ، وہ اللہ سے راضی ،اللہ اُس سے راضی ۔ وہی مثالی انسان ، بندگانِ خدا کے لئے رول ماڈل ، اسلام کا چلتا پھرتا نمونہ، ایمان کا چہیتا، اخلاق کا پیکر، خداپرستی ،انسان دوستی، آخرت پسندی کا دلداہ، جنت الفردوس کا وارث ہے! بے شک موجودہ گٹھاٹوپ اندھیروں میں مولائے کریم کے ایسے خوش نصیب بندے اُجالوں کے سفیر بن کر دھرتی پر جی رہے ہیں اور واقعی اُنہی کے طفیل قیامت کبریٰ اب تلک موخر ہورہی ہے ۔
قرآن وحدیث سے مستفاد ان حقیقتوں اور پیمانوںکے ئینے میں اپنی جانچ پرکھ کے مجھے اور آپ کو خود فیصلہ لینا ہوگا کہ ہم روزہ داری سے محض فاقہ کشی اور بے خوابی حاصل پا کر خالی ہاتھ رہے یا کچھ فوائد سمیٹ سکے ۔اس آئینے کے سامنے خود کو کھڑا کر کے اپنا محاسبہ کر نا بھی جواں مردی کا کام ہے ۔
گزشتہ دنوں اس احتسابی آئینے میں راقم کو اپنے معاشرے کے ’’بہی خواہ کہلانے والے بعض غریب پروروں ‘‘ کی بد صورتیاں دیکھنے کا سوئے اتفاق ہو ا۔ اس تعلق سے مجھے وَٹس اَپ پر ایک آڈیو سننے کا موقع ملا۔ د رد و کرب میں ڈوبی آواز میں ریکارڈا س آڈیو میں ایک معصوم بچی اُن’’ خیراتی اداروں‘‘ کی کارستانیوں کی ایک جھلک دکھا تی ہے جو مساکین و یتامیٰ کے نام سے کفن چوری کاکام کر تے ہیں۔ یہ لوگ کسی غریب کنبے کے دُکھ درد کی تشہیر سے اپنا ضمیر بیچ کھا تے ہوئے ایک بیوہ اور اس کے بے سہارا یتیم کنبے کی عزتِ نفس کی بولی لگا کر سماج میں اُس کا جینا اور بھی دشوار کرتے ہیں ۔ معصوم بچی نے دُکھ اور افسوس سے رُندھے لب و لہجہ میںاپنے لفظوں کی سچائی سے یہی حقیقت اجاگر کی ہے تاکہ انسانیت فروشوں کا یہ نامعلوم گروہ بے نقاب ہو ۔ یہ جعل ساز اور فریب کار اپنی خدمت انسانی کی آڑ میں اپنی دوکانداری چمکا نے کے لئے دین دُکھوں ، محتاجوں اور حالات کے ستم رسیدہ کنبوں کے رنج وغم اور احتیاج کی تشہیر کر کے ان پر کتنا اتیا چار کر تے ہیں ، آڈیواسی امر پر دلالت کر تا ہے ۔ ان سچے الفاظ کے آئینے میں ہم اپنے گردونواح کے این جی اوز، یتیم خانوں، خیراتی اداروں وغیرہ کی حقیقت سمجھ سکتے ہیں جو صیام میں اخباری اشتہارات اور دیگر ذرائع ابلاغ سے تاثر دیتے ہیں کہ عبدالستار ایدھی ہماری خدمت کے سامنے ہیچ ہیں مگر ہمیں دیکھنا ہوگا کہ آیا یہ خد مت خلق اللہ کر تے ہیں یا ماہرانہ دو کانداری اور جیب کتری تاکہ ہماری حلال کمائی غلط راہ میں ضائع نہ ہو۔ آیئے اس معصوم بچی کی زبانی یہ دُکھ بھری کہانی اصلاحِ اھوال کی نیت سے سنتے ہیں ۔ ملاحظہ ہو :
’’پیارے اَنکل جی۔۔۔!ہم آپ کے دفتر کے پیچھے والی بستی میں رہتے ہیں۔۔کچھ دن پہلے آپ ہمارے گھر آئے تھے، یہ دیکھنے کے لئے کہ ہم غریب ہیں کہ نہیںتاکہ آپ ہماری مدد کر سکیں۔کچھ دن بعد آپ پانچ لوگوں کے ساتھ ہمارے گھر آ ئے۔ہمیں راشن دیا۔میری امی ،بھائی اور بہنوں کے لئے عید کے نئے کپڑے دئے، (ہماری) تصاویر بنوائیں اور چلے گئے۔
انکل! آپ کو معلوم ہے جب میں چار سال کی تھی تو میر ے ابو کی وفات ہو گئی تھی۔ابو کے جانے کے بعد دادی نے امی کو گھر سے نکال دیا۔ہم دربدر کی ٹھوکریں کھاتے رہے۔امی لوگوں کے گھروں کے برتن صاف کرتی رہیں۔جب پیسے ملتے تو اس سے ہم اپنا پیٹ بھر تے تھے۔امی کا پیٹ تو امیر لوگوں کی گالیوں سے ہی بھر جاتا تھا ،جن کے گھروں میں وہ کام کرتی تھیں۔۔۔
کل امی پھر رو رہی تھیں۔۔۔وہ چپ ہی نہیں ہو رہی تھیں، جب آنکھوں سے آنسو خشک ہو گئے تو سو گئیں۔۔۔میں ان کے پاوں دبانے لگی۔پاؤں دباتے دباتے امی کے ہاتھ میں پڑے اخبار پر پڑی۔اخبار میں میری بھائی اور امی کی آپ سے راشن وصول کرتے ہوئے ایک تصویر تھی۔میں سمجھ گئی امی کیوں رو رہی تھیں۔پچھلے سال بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ان تصاویر کی وجہ سے محلے والوں نے ہمارا خوب مذاق اُڑایا تھا۔جب ہم کپڑے پہن کر باہر کھیلنے گئے تھے تو محلے کے بچے بھکاری بھکاری کہہ کر ہمارا مذاق اُڑایا کرتے تھے۔۔۔
نکل۔۔۔!آپ سے ایک درخواست ہے کہ آپ اپنے نئے کپڑے اور جوتے واپس لے جائیں۔اب امی کے آنسو ہم سے برداشت نہیں ہوتے۔آپ سے ایک اور درخواست ہے کہ اگر کسی غریب کی مدد کیا کریں تو اس کی تصویر اخبار میں نہ دیا کریں، اس کے بعد اسے کتنی تکلیف ہوتی ہے اس کا آپ کواندازہ نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں نیکیاں چھپانے اور غریب کی عزتِ نفس کا خیال رکھتے ہوئے اس کی مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔۔۔آمین‘‘
آئینہ سامنے ہے!!!
فون نمبر:8825051001