ماہ قبل ایک بہن نے ہمیں اپنے گھر چائے کی پیالی پر مدعو کیا۔ یہ محترمہ اپنی بچی کی شادی کی تیاریوں میں مصروف تھی۔ باتوں باتوںمیں اُس نے اپنی بچی سے شادی کا سامان مع جیولری ، پارچہ جات اور کاسمیٹک سامان ہمیں دکھانے کے لئے لائے ۔ زیورات اورپارچہ جات دکھانے کے بعد جب کاسمیٹک اشیاء کی نمائش کی گئی جس کے ساتھ مجھے رتی بھر بھی دلچسپی نہیں ، یہ سامانِ آرائش ملٹی نیشنل کمپنیوں اور فارن ایجنسیوں سے خریدا گیا تھا ۔ میں نے دل پہ پتھر رکھ کر یہ پوچھنے کی جرأت کی کہ اس ایک دن کی مصنوعی خوبصورتی کے لئے کتنا خرچہ آیا ہوگا؟ موصوفہ نے اپنی امارت کی دھاک مجھ پر بٹھا تے کہا ’’یہی کوئی ایک لاکھ کے قریب‘‘۔ حسبنا اللہ! پائوں تلے زمین کھسک گئی اور حرف ِ شکایت زبان پر آہی گیا: بیٹا جی ! آپ کے میک اَپ کے خرچے سے ایک غریب لڑکی کی شادی خانہ آبادی ہوجاتی ، اتنی بڑی رقم آپ نے فضولیات میں ضائع کی‘‘۔ ماں بیٹی کے چہرے کے خدوخال دیکھ کر ایسے لگا جیسے اُنہیں اب میری موجودگی سے روحانی عذاب ہورہا تھا۔ میں نے یہ تاڑتے ہوئے کہا:’’ معاف کرنا بہن جی میں ذرا صاف گو ہوں‘‘
آج ہمارا معاشرہ اخلاقی پستیوں کے بحرِ بیکران میں ڈوب چکا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے ہم نے انسانیت ، عفت وعصمت اور شرم و حیا کا لبادہ کہیں دور پھینک ڈالا ہے اور بے نیازی ولاپروائی میں بھٹک ر ہے ہیں، اخلاقِ فاضلہ کی جگہ اخلاق ِرذیلہ اپنا ئے ہوئے ہیں، بگڑے سماج کی دیکھا دیکھی میں مادہ پرستی کی رنگینوں کے زیر اثر ہم صراطِ مستقیم سے بھٹک گئے ہیں، جہاں دنیا کی چمک دمک زیادہ ہے (امریکہ اور انگلینڈ) ان کی تقلید میں ہم لوگ اندھے ہی چلے جاتے ہیں۔ ہم نے وہ عظیم مشن ، وہ عظیم نصب العین، وہ دین مبین اپنی زندگیوں سے بے دخل کر دیا ہے جس کے لئے اُمت مسلمہ بنی ہوئی تھی۔ دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ خواتین ِکشمیر کی ا کثریت جس ے دردی سے اپنی دولت اور وقت کاسمیٹک کی خریداری میں ضائع کرتی ہیں، الامان والحفیظ! کوئی بھی صاحب ادراک بندہ واویلا کئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ شہروقصبہ جات کی سڑک سڑک گلی گلی میں جس طرح ہماری بچیاں نیم برہنہ کپڑوں میں ملبوس ہوکر ایسی شاپنگ کرنے میں محو نظر آتی ہیں، وہ معاشرے کی ہولناک تباہی کا پیش خیمہ قرار پاتی ہے ۔ صاف ہے خدا ہم پر ظلم نہیں کرتا بلکہ ہم خود ہی اپنے اوپر ظلم کے ذمہ دار ہیں۔
آج کی نسل ذلت و انحطاط کی پستی میں گر چکی ہے کیونکہ کفروباطل کے ڈھنڈورچی ذرائع ابلاغ نے ہمارے پاکیزہ ثقافت وکلچر کو اخلاقی باخستگی ، بے حیائی اور عریانی و فحاشی کی کھائیوں میں دھکیل دیا ہے۔اس گھمبیر صورت حال نے بچوں اور والدین میں اتنا خلاء پیدا کیا ہوا کہ ہے اسے پاٹنا بے بس والدین کے ہاتھوں میں رہا ہی نہیں ہے ۔ کہیں کہیںیہ بات بھی دیکھنے میںآتی ہے کہ مغربی تہذیب کے گرویدہ والدین اپنی اولاد کو فلمی ستاروں ، ماڈلوں اور سنگیت کاروں کی صف میں شامل کرنا باعث ِافتخار سمجھتے ہیں۔ یہاںضمناً اس بارے میں چالیس سال قبل کی بات یاد آتی ہے، ہمارے پڑوس میں ایک پنڈت بچی کی منگنی ہوئی ، وہ لڑکی لوک تھیٹر میں کام کرنے گئی تو اُس کی منگنی ٹوٹ گئی۔ سسرال والوں نے اُس کا یہ جاب پسند نہ کیا۔ ان دنوںپنڈت اور مسلم دونوں کمیونٹیاں میں شرم وحیا مقدم تھی، اب اس کا جنازہ نکل چکا ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ ہم خرافات میں کھوکر اخلاقیات کو طاقِ نسیاں کی زینت بناچکے ہیں۔ دل کے ارمان نکالنے کے نام پر ایک خانہ نشین عورت تک بھی بھرے بازار وں میںاپنے نامہ ٔ اعمال میں گناہ بھرنے میں منہمک نظر آئے تو کتنا رویئے! افسوس کہ ہمیں معاشرے میںایسی بُرائیوں پر کوئی اسے روکنے ٹوکنے والا بھی نہیں۔
آہ! یہ اُمت خرافات میں کھوگئی۔ ہم اپنا سٹینڈارڈ ہائی دکھانے کے جنون میں ہر دوسرے تیسرے روز اپنے گھر کے پردے، قالین ، صوفے ، کراکری ، فریج وغیرہ پُرانی اور بوسیدہ نظر آنے لگتے ہیں اور اپنے گھر کو محل بنانے کا ’’خناس‘‘ ہم پر اتنا زیادہ سوار ہوچکا ہے کہ لوگ گھر کی آرائش وزیبائش کے لئے بار بار قرضہ اٹھانے کی مکروہ بیماری میں مبتلا ہو کر حلال وحرام کی تمیز بھی کھو بیٹھے ہیں۔ بقول اقبالؔ ؑ لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی۔ ان کے پاس الماریوں میں کپڑوں کے بڑے ذخیرہ پڑے رہتے ہیں، مگر انہیں آئوٹ ڈیٹ سمجھ کر نئے سینے سلانے کی اندھی دوڑ میں لگے رہتے ہیں! ان نمائشی چیزوں کی بھوک ہمارے مٹانے سے بھی نہیں مٹتی۔ مارکیٹ کی چکا چوندی میں ہمارے بچوں بچیوں کو ہر نئے فیشن اور ہر ڈیزائن کی خریداری میں نمودو نمائش کی حدیں پار کریں ، وہ دن بھر شاپنگ مال میں ضائع کر یں تو بھی والدین یہ پوچھنے کی جسارت نہیں کرتے کہ تم کیوں شب وروز طاغوت کی بندگی میں محو ہو۔ واقعی جوقوم بے حیا ہوجاتی ہے، اللہ پاک اُسے مٹانا ہی پسند کرتا ہے۔ اللہ پاک ہم سب میں شرک، کذب، نفس کی غلامی، بت پرستی اور بے حیائی کے لئے زیروٹالرنس کا جذبہ پیدا فرمائے۔ آمین
رابطہ :۔9858770000