Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

عیب جوئی

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: June 14, 2019 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
18 Min Read
SHARE
 دین   اسلام نے خلق کو اللہ کا عیال کہہ کراس بات کی طرف اشارہ کیا کہ بنی نوع انسان کے آپسی تعلقات کس قدر خوشگوار ہونے چاہئے۔حدیثِ قدسی ہے کہ ’’مخلوق اللہ کا عیال ہیں۔‘ ‘ حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ اس عیال کو اللہ اپنی ذات کے ساتھ منسوب کر رہا ہے، جو اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کنبے کا ہر فرد دوسرے فرد کو ایک ہی خالق کے عیال کا حصہ سمجھ کر ہمیشہ اس کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ روا رکھے۔ یہ ذہن میں رہے کہ خالق اپنے عیال کے ظاہر سے بھی واقف ہے اور دلوں کے اندر مخفی بھیدوں سے بھی واقف۔ایک ہی کنبہ اور ایک ہی خاندان کے افراد ہونے کی حیثیت سے ہر فرد پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ کو کوئی نقصان یا ایذاء نہ پہنچائے، اسی طرح وہ اپنے اہل خانہ سے کبھی حسد کرے نہ ہی اس کے لئے دل میں بغض رکھے۔جب تک ایک دوسرے کے تئیں خیرخواہی پر مبنی جذبات نہ ہوں تو منفی جذبات کا پیدا ہونا یقینی ہے. نتیجتاً ہر فرد دوسرے فرد کی کمزوریاں ڈھونڈنا شروع کرتا ہے اور ان اخلاقی برائیوں کو جگہ دیتا ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے سورۃ ا لحجرات میں روکا ہے۔ان ہی برائیوں میں ایک برائی ہے ’’عیب جوئی‘‘۔قرآن پاک میں تجسس(عیب ڈھونڈنے کی غرض سے کھوج کرید) سے منع کیا گیا ہے۔امام اوزاعیؒ فرماتے ہیں ’’تجسس ‘‘کہتے ہیں کسی چیز میں کرید کرنے کو اور تجسس کہتے ہیں ان لوگوں کی سرگوشی پر کان لگانے کو جو کسی کو اپنی باتیں سنانا نہ چاہتے ہوں۔تجسس کرنے والے کے ہاتھ جب کوئی کمزوری آتی ہے تو وہ اس کو اچھالتا ہے، انسان کی فطرت میں نسیان ہے، اس وجہ سے انسان غلطیاں بھی کرتا ہے، ایسے میں ایک ہی کنبے کے افراد ہونے کی حیثیت سے ہونا یہ چاہئے تھا کہ ہم ایک دوسرے کی کمزوریوں کو دور کرتے نہ کہ اچھالتے. جب فرد میں حسد اور بغض جیسی منفی برائیاں پیدا ہوتی ہیں تو وہ ہمیشہ اس ٹوہ میں رہتا ہے کہ کب دوسرے کی کمزوری ہاتھ لگے اور اس کی عزت کو سر عام نیلام کردے۔ اسلام تو چاہتا ہے کہ ہر فرد دوسرے فرد کی عیبوں کو چھپائے نہ کہ انہیں منظرعام پرلائیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص کو حضرت ابن مسعود ؓکے پاس لایا گیا اور کہا گیا کہ اس کی داڑھی سے شراب کے قطرے گر رہے ہیں۔ آپؓ نے فرمایا ہمیں بھید ٹٹولنے سے منع فرمایا گیا ہے، اگر ہمارے سامنے کوئی چیز ظاہر ہو گئی تو ہم اس پر پکڑ سکتے ہیں۔(ابوداؤد)
 مسند احمد میں ہے کہ عقبہ کے کاتب وجینؔ حضرت عقبہؓ کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ میرے پڑوس میں کچھ لوگ شرابی ہیں ،میرا ارادہ ہے کہ میں داروغہ کو بلا کر انہیں گرفتار کرا دوں ۔آپؓ نے فرمایا ایسا نہ کرنا بلکہ انہیں سمجھاؤ بجھاؤ ڈانٹ ڈپٹ کر دو ، پھر کچھ دنوں کے بعد آئے اور کہا وہ باز نہیں آتے اب تو میں ضرور داروغہ کو بلاؤں گا ۔آپؓ نے فرمایا افسوس افسوس تم ہرگز ہرگز ایسا نہ کرو ،سنو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ ؐنے فرمایا جو شخص کسی مسلمان کی پردہ داری کرے اسے اتنا ثواب ملے گا جیسے کسی نے زندہ درگور کردہ لڑکی کو بچا لیا ۔" کسی زندہ دفن کرنے والی لڑکی کو بچانے پر جو اجر ملتا ہے، وہی کسی کے عیب چھپانے پر، کس قدر اجر ہے لیکن آج کے میڈیا اور سوشل میڈیا کے دور میں عیب ڈھونڈنا باقاعدہ ایک فن بن گیا ہے۔اس چینل کی ٹی آر پی بڑھ جاتی جو زیادہ سے زیادہ تجسس کرے، جو لوگوں کے پرسنل لائف کے راز ٹٹولے، یہی حال سوشل میڈیا کا بھی ہے۔ لوگوں کی کمزوریاں اچھالنا اب عام سی بات بن گئی ہے جو جتنے راز اور پرسنل کمزوریوں کو اچھالتا ہے، اس کو اتنے likes ملتے ہیں ۔ہمارے ہاں ان رسائل اور اخبارات کی سرکولیشن زیادہ ہوتی ہے جو چٹ پٹی خبریں شائع کرتا ہے،لوگوں کی پرسنل لائف میں جھانکتا ہے۔ عیب جوئی کی وجہ سے آپسی تعلقات میں بگاڑ آتا ہی ہے ساتھ میں کوئی مثبت کام بھی نہیں ہوتا ، احادیث میں لوگوں کے مخفی عیب کو ڈھونڈنے پر سخت وعید سنائی گئی ہے ۔ حدیث میں آتا ہے " اے لوگو جو زبان سے ایمان لے آئے ہو مگر ابھی تمہارے دلوں میں ایمان نہیں اُترا ہے ، مسلمانوں کے پوشیدہ حالات کی کھوج نہ لگایا کرو ، کیونکہ جو شخص مسلمانوں کے عیوب ڈھونڈنے کے درپے ہوگا۔ اللہ اس کے عیوب کے درپے ہو جائے گا اور اللہ جس کے درپے ہو جائے اسے اس کے گھر میں رسوا کر کے چھوڑتا ہے۔ " 
اس کاایک پہلویہ بھی ہے کہ عیب ٹٹولنے سے منع کیا گیا ہے، ایک دوسرے سے لاتعلق ہونے سے نہیںبلکہ مومنین کی تو یہ صفت ہی بیان کی گئی ہے کہ وہ ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔مومن کبھی نہیں چاہے گا کہ اپنے اہل خانہ کا کوئی فرد کسی مشکل میں ہو اسلام جس چیز سے فرد کو روکتا ہے وہ لوگوں کے کمزور پہلوؤں کو اجاگر کرنے سے، اسلامی حکومت ہر کسی برائی پر قدغن لگاتی ہے لیکن کبھی لوگوں کے گھروں کے اندر نہیں جھانکتی۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور کا ایک واقعہ ہے:’’ایک مرتبہ رات کے وقت آپؓ نے ایک شخص کی آواز سنی جو اپنے گھر میں گارہا تھا۔ آپ ؓکو شک گزرا اور دیوار پر چڑھ گئے۔ دیکھا کہ وہاں شراب بھی موجود ہے اور ایک عورت بھی۔ آپؓ نے پکار کر کہا اے دشمن خدا ! کیا تو نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تو اللہ کی نافرمانی کرے گا اور اللہ تیرا پردہ فاش نہ کرے گا ؟ اس نے جواب دیا امیرالمومنین  ؓجلدی نہ کیجیے۔ اگر میں نے ایک گناہ کیا ہے تو آپ نے تین گناہ کئے ہیں۔ اللہ نے تجسس سے منع کیا تھا اور آپ نے تجسس کیا۔ اللہ نے حکم دیا تھا کہ گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ اور آپ دیوار پر چڑھ کر آئے۔ اللہ نے حکم دیا تھا کہ اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں اجازت لیے بغیر نہ جاؤ اور آپ میری اجازت کے بغیر میرے گھر میں تشریف لے آئے۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی غلطی مان گئے اور اس کے خلاف انہوں نے کوئی کارروائی نہ کی ، البتہ اس سے یہ وعدہ لے لیا کہ وہ بھلائی کی راہ اختیار کرے گا۔‘‘تجسس کبیرہ گناہ ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس گناہ کے مضر اثرات کا احساس نہیں۔ عیب ڈھونڈنے سے نا صرف ایک فرد اپنی عاقبت خراب کرتا ہے بلکہ اس کی زندگی پر بھی منفی اثرات پڑتے ہیں اور ایسے افراد سے معاشرہ کبھی تعمیر نہیں ہوتا، بلکہ معاشرہ میں بگاڑ ہی پیدا ہوتا ہے۔
(((())))
 
 
 
 
 
 
 
 
الزام تراشی ۔۔۔
شرکادروازہ
دین اسلام جس معاشرے کی تعمیر کرنا چاہتا ہے اس میں انسانوں کے درمیان محبت بنیادی شرط ہے۔ اس طرح کے معاشرے کو ایک جسم سے تعبیر کیا گیا ہے گویا جسم کے کسی ایک حصہ میں اگر درد پیدا ہو تو اس کے اثرات پورے بدن میں محسوس ہوتے ہیں. اس طرح کے معاشرے ہی پاکیزہ معاشرہ کہلاتے ہیں.یہاں اگر زور دیا جاتا ہے تو آپسی تعلقات بہتر بنانے پر دیا جاتا ہے۔اسلام چاہتا ہے کہ لوگ ایک دوسرے کا سہارا بنیں، ایک دوسرے کی مضبوطی کا سبب بنیں۔مسلم معاشرے کو اسی وجہ سے دیوار سے تشبیہ دی گی ہے ،جہاں ایک اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط کرتی ہے۔قرآن اور حدیث کا وافر ذخیرہ ایسی تعلیمات پر مشتمل ہے جو فردکو عامتہ الناس کے ساتھ خیرخواہی کا معاملہ سکھاتا ہے۔آپسی خیر خواہی ہی تو اسلام کا طُرح امتیاز ہے۔ وہ سب مثبت اقدار آپ دین میں پائینگے جن سے اسی خیرخواہی کو فروغ ملتا ہے اور ان سب منفی اقدار کی نفی پائینگے جن سے اس جذبہ خیرخواہی کو گزند پہنچنے کا احتمال ہے. ان ہی اقدار میں ایک اہم قدر ہے حسنِ ظن۔
 اسلام ایسا معاشرہ تشکیل دینا چاہتا ہے جہاں لوگ ایک دوسرے کے بارے میں حسنِ ظن رکھتے ہوں۔ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم لوگوں کے بارے میں کوئی بھی ایسی رائے قائم نہ کریں جس کی ہمارے پاس ٹھوس بنیاد (علم) نہ ہو،ہمیں تو سکھایا گیا ہے کہ انسان اصل میں خیرکامنبع ہے، فطرت ِ سلیم پرپیداہوتا ہے۔ البتہ کبھی جذبات سے مغلوب ہوکر یا لاعلمی اور نسیان کے سبب اس سے غلطی سرزد ہوسکتی ہے لیکن وہ اپنی سرشت میں برا نہیں ہے. یہاں ہر وہ عمل محبوب ہے جس سے دلوں میں محبت پیدا ہو. یہاں کسی دوسرے کے ساتھ مسکرا کر پیش آنے کو صدقہ کہا گیا ہے،  یہاں سلام میں سبقت کو اجر کا وعدہ ہے، اور اسی آپسی محبت کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کے دل ایک دوسرے کے بارے میں صاف ہوں۔ اسلام ان تمام چیزوں سے لوگوں کو روکتا ہے جن سے باہمی تعلقات میں کمی ہوتی ہے ۔لوگوں میں بدظنی پیدا ہو تو معاملہ الزام تراشی تک پہنچ جاتا ہے اور ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے یہی الزام تراشی کا رواج عروج پر ہے. 
’آزاد دائرہ معارف ‘کے مطابق الزام تراشی کی تعریف یہ بتائی گئی ہے  :
"الزام تراشی ایک ایسا عمل ہے جس کی رو سے ایک شخص یا گروہ کسی دوسرے شخص یا گروہ کو نشانہء  ملامت بناتا ہے، کوستا ہے، منفی بیانات پیش کرتا ہے اور اس فرد ثانی یا گروہ ثانی کو سماجی یا اخلاقی طور پر غیر ذمے دار ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔"
الزام کبھی فرد پر لگایا جاتا ہے تو کبھی کسی خاص گروہ یا خاص مذہب پر، جیسا کہ اس وقت اسلام اور ان کے ماننے والوں پر ہر طرح کے الزام لگاے جاتے ہیں۔امت مسلمہ کو مجموعی طور پر تعلیم دی گئی ہے کہ وہ کسی طرح کے پروپیگنڈا کا شکار نہ ہو ں۔کسی بھی پروپگنڈا کے وقت فرد کا رویہ حسن ظن کا ہونا چاہیے۔جب امی عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا پر الزام لگایا گیا تو مسلمانوں کو کہا گیا کہ آپ نے ابتدا میں ہی اس پروپیگنڈا کو قبول کیوں کیا۔الزام تراشی بہت بڑا گناہ ہے۔ اسلام میں زنا جیسے قبیح گناہ کے لیے سو کوڑوں کی سزا ہے اور اگر کسی نے زنا کا الزام لگایا اور وہ ثابت نہ کرسکا تو اس کو 80 کوڑوں کی سزا ہے، 
آج میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعہ پروپگنڈا ایک بڑی انڈسٹری بن گیا ہے۔یہ میڈیا ہی ہے جو انسان کی سوچ تبدیل کرتا ہے، give bad name the Dog and kill him  اب بطور اصول استعمال ہو رہا ہے،اور اس پروپگنڈہ کی وجہ سے اب لوگوں کا قتل عام کیا جاتا ہے۔امت مسلمہ اس منفی پروپگنڈہ کی سب سے زیادہ شکار ہے۔ ایسے میںایمان کاتقاضاہے کہ ہم اس قبیح گناہ اوربداخلاقی سے ہرصورت خودکومحفوظ رکھیں۔کیونکہ نادانستہ طورپرہم کسی پرالزام یاتہمت لگاکراُس شخص کی ساخت،عزت وناموس ،اس کی زندگی یہاںتک کی اُس کے اہل وعیال کی زندگی بھی دائو پرلگالیتے ہیں۔ایمان لانے کے بعدایسے امورِفسق میںنام کمانااللہ کے غضب کودعوت دیناہے۔کیونکہ کسی بے گناہ شخص کی عزت ،ناموس اورجان کی اہمیت کعبہ سے بڑھ کرہے۔رسول رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے  "جوشخص کسی مؤمن کے بار ے میں ایسی بات کہے جواُس میں نہ ہوتواللہ تعالی اس شخص کوجہنمیوں کے پیپ میں ڈالدے گااوریہ اس پیپ میں اس وقت تک پڑارہے گاجب تک سزاپوری نہ کرلے"( سنن ابوداود: ۹۹۵۳) ایسی سخت وعید کے ہوتے ہوئے یہ کیسے ممکن ہے کہ امت مسلمہ کا کوئی فرد یا کوئی گروہ اس قبیح مرض کا شکار ہوجائے۔رسول رحمت صلی اللہ علیہ و سلم پر اور ان کے اصحابِ پر بھی مختلف الزامات لگائے گیے لیکن انہوں نے اس کا جواب جوابی الزام سے نہیں دیا۔دشمنوں پر بھی جوابی الزام کی اجازت نہیں ہے کجا کہ مسلمان آپس میں الزام لگائے۔مگر بدقسمتی سے امت مسلمہ میں یہ مرض پروان چڑھ رہا ہے ہے۔کسی پر کافر، بدعتی، مشرک، ایجنٹ،فاسق وغیرہ کا الزام لگانا اب عام سی بات ہوگئی ہے۔سوشل میڈیا میں ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ آئے روز ہم دیکھتے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ مساجد کے منبر سے بھی ایسی آوازیں آتی ہیں،حالانکہ ہمیں یہ کہا گیا تھا کہ جو کسی پر کفر اور فسق کا الزام لگاے اور اگر وہ کافر یا فاسق نہ ہو تو کہنے والا ہی کافر یا فاسق ہوگا ۔(بخاری ومسلم)
حیرانی ہوتی ہے جب امت مسلمہ کے افراد اس گناہ عظیم میں شامل ہوجائیں حالانکہ انہیں ایک دوسرے کا دفاع کرنے کو کہا گیا تھا ۔حضرت جابر بن ابی طلحہ الانصاری رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،"اگر کوئی شخص کسی مسلمان کی حمایت ایسے موقع پر نہیں کرتا جہاں اس کی تذلیل کی جارہی ہو اور اس کی عزت پر حملہ کیا جارہا ہوتو اللہ تعالیٰ بھی اس کی حمایت ایسے موقع پر نہیں کرتا جہاں وہ اللہ کی مدد کاخواہاں ہو اور اگر کوئی شخص کسی مسلمان کی حمایت ایسے موقع پر کرتا ہے جہاں اس کی عزت پر حملہ کیا جارہا ہو اور اس کی تذلیل وتوہین کی جارہی ہو تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی مدد ایسے موقع پر کرتا ہے جہاں وہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرے۔(ابو داؤد)اللہ رب العزت کے نزدیک ایک مسلمان کی عزت محترم ہے۔ رسول رحمت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بدترین زیادتی کسی مسلمان کی عزت پر ناحق حملہ کرنا ہے (ابوداؤد)
آج جب امت مسلمہ انتہائی مشکل دور سے گزر رہی ہے ایسے میں ضرورت ہے کہ امت مسلمہ میں باہمی خوشگوار فضا کو پروان چڑھایا جاے نا کہ آپسی منافرت ہو، الزام تراشی سے باہمی نفرت ہی پھیلتی ہے ۔جب امت مسلمہ کسمپرسی کی حالت میں ہو ایسے میں ضرورت ہے سب کو ساتھ لے کر چلے، رسول رحمت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی زندگی میں کبھی عبداللہ بن ابی کو بھی avoid نہ کیا۔ کسی فرد یا جماعت پر الزام لگانے سے پہلے ہمیں سوچنا چاہیے کہ کہیں ہم ایسا الزام لگا کر اپنی قوت کو سمیٹ تو نہیں رہے ہیں۔اپنی جمعیت کو کمزور تو نہیں کر رہے ہیں۔وسعت قلبی ہی ایسا وصف ہے جس سے اجتماعیت کو اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیابی ملتی ہے، جس قدر ہم میں ظرف ہوگا اس قدر لوگ ہم سے جڑ جائینگے۔
)(((((((((((((((((((
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

لیفٹیننٹ جنرل راجن شراوت کا جموں کے سرحدی علاقوں کا دورہ، آپریشنل تیاریوں کا لیا جائزہ
تازہ ترین
شرپسند عناصر کی جانب سے غلط استعمال کا خدشہ | بھدرواہ میں 74موبائل ٹاوروں پر انٹرنیٹ معطل
جموں
بانہال حادثہ میںموٹر سائیکل سوار نوجوان لقمہ اجل
خطہ چناب
رام بن ۔ بانہال سیکٹر میں بارشیں | گرمی سے قدرےراحت،ٹریفک کی روانی جاری
خطہ چناب

Related

کالممضامین

غلام نبی شاہد کے نظموں کا مجموعہ’’چاند گواہ ہے تبصرہ

May 23, 2025
کالممضامین

ظلمتوں میں نور کا ہالہ دیکھنے والاارشاد مظہریؔ میری بات

May 23, 2025
کالممضامین

مرزا بشیر احمد شاکرحکیم الامت کے آئینے میں تجزیہ

May 23, 2025
کالممضامین

سہل اندازی سےذرا نکل کر تو دیکھو | رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ (قسط دوم )

May 23, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?