میں نے بھی بچپن میں سٹاپو کھیلا تھا۔
پائی کے پیڑ کے پاس
پائی کے ٹک شاپ کے اندر بیٹھے امیر بچے
آلو،مٹر،چھولہ پوری اور ڈبل بسکٹ کھاتے تھے
اور میں روز کی ملی چوّنی سے
ایک چوّنگم خریدتی تھی
اور پھر دن بھر اسی کو چباتی رہتی
میٹھا ختم ہونے کے بعد بھی
پھینکنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ پھر اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتی
سکول سے چھٹی کے وقت میری کن پیٹوں اور سر میں درد ہوتا تھا۔
دن بھر کے چبانے کی مشقت کا صلہ مجھے ہر روز یہی ملتا تھا۔
پائی کے پیڑ کے ساتھ بڑی یادیں منسوب ہیں۔
ہم لکڑ لکڑ کھیلتے تھے تو
ہر دو پھیروں کے بعد پائی کے پیڑ کی باری آتی
اور تبھی کوئی نہ کوئی آوٹ ہوجاتا
کیونکہ اُس پیڑ کے قریب کوئی دوسرا پیڑ نہ تھا۔
یوں تو وہ دیودار کا پیڑ تھا
خدا جانے وہ بونا کیوں تھا؟
مگر ہم بچوں میں بے حد مقبول تھا
اور اب سنا ہے کہ وہاں کوئی پیڑ نہیں ہے۔
سڑک کو کشادہ کرنے اور فلائی اوور کی بلندی کی خاطر
اس بونے پیڑ نے خود کو خوشی خوشی زمین بوس کردیا ہے۔
اور اب پائی کا آسیب ہماری یادوں کے جزیروں میں بھٹکتا رہتا ہے۔
ڈاکٹر کوثر رسول
اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی سرینگر