ولیم شیکسپئر کا شمار انگریزی ادب کے عظیم شعر ا اور ڈرامہ نگاروں میں ہوتا ہے ۔وہ اپنی بلند پایہ شاعری سے انگلستان کے قومی شاعر بن گئے اور انہوں نے ڈرامہ نویس کی حیثیت سے بھی شہرت کے آسمان کو چھو لیا۔ ’’جولیس سیزر‘‘ (Julius Caesar)ان کا لکھا ہوا ایک مشہور ڈراما ہے ۔اس ڈرامے میں جولیس سیزرکے نام سے ایک اہم کردار ہے جسے روم کے ایک فوجی جنرل کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے ۔اس ڈرامے میں کیسیس(Cassius)، مارک انٹونی(Mark Antony) اور بروٹس(Brutus) نامی کردار بطورِاشراف ِروم نمودار ہوتے ہیں ۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ جولیس سیزرجب ایک جنگ میں فتح مندی کے ساتھ اپنے ملک روم واپس لوٹتاہے تو مذکورہ اشراف روم یعنی کیسیس، انٹونی اور بروٹس کو جولیس کے تئیں یہ اندیشہ لاحق ہو جاتا ہے کہیں وہ یعنی جولیس سیزز اپنی اس فتح کے عوض ملنے والی شہرت و مقبولیت کا غلط استعمال نہ کرے اور روم کا مطلق العنان حاکم بن کرروم میں مساوات اور عدلِ اجتماعی کو پھلنے پھولنے کا موقع نہ دے ۔ اس شہرت و مقبولیت کی وجہ سے جولیس سیزر کے رویہ میں بھی واقعتاً تبدیلی رونما ہو جاتی ہے اور اشرافِ روم علی الخصوص بروٹس اور کیسیس Julius Caesarکے رویہ سے یہ بھانپ جاتے ہیں کہ یہ شخص روم کا مطلق العنان حاکم بننے جا رہا ہے۔بہر صورت کیسیس اور بروٹس اسی اندیشہ کے پیش نظر جولیس سیزر کو قتل کرنے کا منصوبہ بناتے ہیں۔ سیزر کے قتل کا منصوبہ بنانے والے دونوں اشراف اس کے گہرے دوست بھی ہوتے ہیں۔لیکن اسے جولیس سیزرکو قتل کرنے کا سبب ان دونوں کے لئے یکساں نہیں تھا۔ جہاں ایک طرف کیسیس ذاتی عناد کی وجہ جولیس کو موت کی گھاٹ اتار دینا چاہتا ہے، وہیں بروٹس کو یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ جولیس سیزر روم کا بادشاہ بننے جارہا ہے اور اس کی بادشاہت رومی عوام کے مابین برابری اور مساوات کے خاتمے کا سبب بنے گی۔ اور وہ پورے ملک کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ لے گی۔
کیسیس ، بروٹس اور چند دیگر اشراف اسی میٹنگ ہال میں ہی جولیس سیزر کو قتل کرنے کا منصوبہ بناتے ہیں جس میں اس کی شرکت متوقع تھی۔چنانچہ جولیس سیزرپنی بیوی کے منع کرنے کے باوجود اشرافِ روم کے ساتھ سینٹ کی میٹنگ میں شامل ہوتا ہے اور موقع پاتے قتل کی سازش رچانے والوں میں سے ایک شخص جولیس سیزر پر خنجر کے ذریعے قاتلانہ حملہ کرتا ہے۔ وہ اس کے وار کو اپنے ہاتھوں سے روکنے کی کوشش کرتا ہے ۔اسی اثنا ء میں جولیس کا قریبی دوست بروٹس بھی جولیس سیزر پر قاتلانہ وار کرتا ہے ۔ چنانچہ بروٹس ،سیزر کا سب سے مخلص دوست اور معتمد ِ خاص تھا جس کی سچی دوستی،خلوصِ محبت اور فہم و فراست پر سیزر کو حد درجے کا اعتماد تھا۔لہٰذ جب سیزر نے یہ دیکھا کہ اس کا معتمد خاص اور مخلص دوست بھی اس کے قتل کرنے پر تلا ہوا ہے تو اسے حیرت آمیز صدمہ ہوتا ہے۔ وہ بروٹس سے مخاطب ہو کر بے ساختہ کہتا ہے’’Oh! Brutus you too‘‘یعنی بروٹس، تم بھی میرے قاتلوں میں شامل ہو؟اور پھر جولیس سیزر اپنے آپ سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ جب بروٹس جیسا مخلص ترین دوست بھی تیری مخالفت میں تیرا دشمنِ جاں ہو جائے تو اے سیزر! یقینا تجھے اپنے کرتوت کی وجہ سے ہی یہ دن دیکھنے کو مل رہا ہے ۔لہٰذا جسے بروٹس جیسا بے لوث دوست مارے اُس کے لئے مرجانا ہی بہتر ہے ۔
اس ڈرامے کی کہانی کا اطلاق اگر ہم موجودہ عالمی حالات پر کریں اور جولیس سیزر کے کردار کی روشنی میں ڈونلڈ ٹرمپ کی عجیب الخلقت اور قلت ِتدبر وتفہم کی حامل سیاسی شخصیت کو دیکھیں تو یہی نتیجہ سامنے آجائے گا کہ ٹرمپ نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا کواپنی تانا شاہی اور من مانی کے آگے سر تسلیم خم ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے لیکن دشمن تو دشمن اس کے اپنے خاص الخاص اور سیاسی دوست بھی اس کی حماقتوںکے سبب آج امریکہ کے مفاد اس کے حریف ِاول نظر آرہے ہیں۔بیت المقدس کو اسرائیل کا دارلحکومت( صحیح الفاظ میں صیہونیوں کا دار لفساد) بنانے کے متعلق ٹرمپ کا جو حالیہ اعلان سامنے آگیا ، جس کے شدید ردِ عمل میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کے اجلاس یکے بعد دیگرے منعقد ہوئے ، وہ ہو بہوشیکسپئر کے ڈرامے ’’جولیس سیزر ‘‘ کے اس منظر کی عکاسی کر رہاہے جس میں ’’سیزر ‘‘ تن تنہاء دکھائی دے رہا تھا کیونکہ اس کے قریب ترین اور مخلص ترین دوست بھی اس کی مخالفت پر اُتر آئے تھے۔یوں ہی اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ بھی پوری دنیا میں تنِ تنہاء اور الگ تھلگ لگ پڑا ہے۔ جن ممالک کی دوستی کا وہ دم بھرتا پھرتا تھا انہوں نے بھی اسے جنرل اسمبلی میں ذلت و رسوا ئی کے ہاتھوں مار ڈالا۔یورپی یونین کے بیشتر ممالک ،سلامتی کونسل کے مستقل ارکان یعنی روس، چین ،برطانیہ اور فرانس کے علاوہ عرب لیگ کے قریب قریب سبھی ممالک نے ٹرمپ مخالف قرار داد کی تائید میںووٹ دیا۔گویا مشرق و مغرب ٹرمپ کی مخالفت پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں متفق علیہ نظر آیا۔ تمام عرب ممالک بشمول مصر کی موجودہ امریکہ نواز السیسی حکومت اس قرار داد کو کامیاب بنانے میں پیش پیش نظر آئے۔ ایسے میں اگر ٹرمپ کے کاسہ سر میں جولیس سیزرکی طرح دیکھنے والی آنکھ اور اس کے باطن میں ضمیر نام کی کوئی چیز ہوتی نیز دوسری جانب بروٹس جیسا کوئی اس کا مخلص دوست بھی ہوتا تو ڈونلڈ ٹرمپ بھی ضرور وہی کہتا جو مرتے وقت جولیس سیزر نے کہا تھا کہ اے میرے فلاں جگری دوست! تو بھی اور میری مخالفت میں! لیکن یہاں تو معاملہ بالکل برعکس ہے مسٹر ٹرمپ کو اپنی غلط پالیسی کا اعتراف تو دور کی بات احساس تک نہیں ہے۔ اس نے پوری دنیا کی رائے کو غلط قرار دے کر اپنی ہی رائے کو اقوام عالم پر تھوپنے کی جی توڑ کوشش کی اور اس سلسلے میں عالمی سیاست کے ضابطۂ اخلاق کو بالائے طاق رکھ کر اپنے نہایت ہی غنڈہ گردانہ ہتھکنڈے کو استعمال کیا جس کا استعمال امریکہ وقتاً فوقتاً کرتا آیا ہے اور وہ ہے امریکہ مخالف ووٹ دینے والے ممالک کی معاشی امداد روکنے کا ہتھکنڈہ! امریکہ کے خود غرض حلیف ممالک ’’بروٹس ‘‘کی خلوصِ نیت کہاں سے لائیں اور ٹرمپ کو بھی کیسے’’ جولیس سیزر‘‘ جیسی اخلاقی جرأت نصیب ہو کہ وہ پوری دنیا کے ساتھ ساتھ اپنے قریبی دوستوں کو اپنی مخالفت میں دیکھ اپنے ہی گریباں میں جھانکے اوراپنے رویہ کا صحیح جائزہ لے کر اپنی غلطی اور گناہِ بے لذت کا اعتراف کرے۔دراصل جب سے مسٹر ٹرمپ راہوارِ اقتدار پر سوار ہوئے ،اس نے گویا ہوش و حواس ہی کھو دئے کہ لگتا ہے وہ اس رہوار ِ اقتدار پر جیسے بے اختیار بیٹھیے ہیں۔اس کوکہاں جانا ہے نہیں معلوم، اس کو کیا کہنا ہے نہیں پتہ، کیا فیصلہ لینا ہے اس کی بلا جانے اوروہ اپنے منہ سے غیر منطقی بات کے سوا کچھ اُگلتا ہی نہیں اور جو بھی اہم قدم اس نے اٹھایا وہ نا انصافی اورحماقت پر مبنی ثابت ہوتا رہا ۔اس کا ہر انوکھا فیصلہ انصاف کش بلکہ نا معقول ظاہر ہوا۔ آج کی تاریخ میںپوری عالمی برادری اس جوکر کی عجیب عجیب حرکتوں سے نالاں بھی ہے اور امر یکہ کی جگ ہنسائی ہورہی ہے۔بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کے بیان کا ردِ عمل جس انداز سے سامنے آیا ہے، اس نے یہ ثابت کر دیا کہ مسٹر ٹرمپ نے نہ صرف اندرونِ امریکہ اپنی تانا شاہی کا سکہ جمانا چاہتاہے بلکہ پوری دنیا کو اپنی من مانی کے کوڑے سے ہانکنا چاہتاہے۔اگر صدرِ امریکہ کو جمہوری نظام اور اور عالمی برادری کے مشترکہ اور متفقہ فیصلوں کا پاس و لحاظ ہوتا تووہ کسی فلمی ویلن کی طرح ان ممالک کا حقہ پانی بند کرنے کی دھمکی نہ دیتا جنہوں نے اس کے حالیہ اعلان کے خلاف اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ووٹ دیا۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک سو اٹھائیس ممالک نے امریکی صدر کے اعلامیہ کو سختی سے مسترد کردیا۔صرف نو رکن ممالک ( جن کے نام سے بھی تقریباً دنیا ناواقف ہے )نے ٹرمپ کے حق اپنے رائے ظاہر کی جن میں اسرائیل اور امریکہ بھی شامل ہیںیعنی پوری عالمی برادری میں سے محض سات ممالک نے ٹرمپ کی اس حماقت کو تسلیم کیا۔ پنتیس ممالک نے اس اجلاس میں شمولیت نہیں کی۔ ہو نہ ہو ٹرمپ کے حمایتی ان سات ممالک اور اجلاس میں شامل نہ ہونے والے پنتیس ممالک پر امریکہ کی پیشگی دھونس اور دباؤ کا اثر رہا ہو۔ اس کے باوجود امریکہ نے تمام تر عالمی سیاست کے ضابطۂ اخلاق کو بالائے طاق رکھ کر اسرائیل نوازی کی انتہا ء کردی ۔
بہر کیف ٹرمپ انتظامیہ اور اسرائیل کی تمام تر کوششیں اس حوالے سے کارگر ثابت نہ ہو سکیں۔ اس لحاظ سے اس قرار دا د کو غیر معمولی حیثیت حاصل ہو گئی کیونکہ امریکہ نے اجلاس سے قبل ہی اپنی انتظامی مشینری کو متحرک و فعال کر دیا تھا کہ وہ اس اجلاس کو روکنے کے لئے اپنے تمام تر ہتھکنڈے بروئے کار لائے۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کی جانب سے نمائندگی کرنے والی بھارتی نژاد مندوب نکی ہیلی نے اپنے تانا شاہ ٹرمپ کے فرمان کے عین مطابق جنرل اسمبلی کے بیشتر ارکان کو دھمکی آمیز خطوط بھیجے کہ اس قرار د اد کی حمایت نہ کریں لیکن تمام تر دھمکیوں کے باوجود بیشتر ارکانِ جنرل اسمبلی نے اس قرار داد کو بھاری اکثریت سے پاس کیا۔
یقینا اقوام عالم کاامریکہ کے خلاف یک زبان ہوکر کسی مسئلے پر واشنگٹن مخالف رائے ظاہرکرنا بذاتِ خود ایک بڑا اور تاریخ ساز قدم ہے۔ حالانکہ بعض تجزیہ کار اس قرار داد کے مثبت نتائج کے حوالے سے کافی نااُمید ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کو ان قراردادوں سے کوئی فرق نہیں پڑنے والاکیونکہ انہوں نے ان قراردادوں کو کبھی بھی خاطر میں ہی نہیں لایاہے، جو اب تک اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف پیش ہوتی آئی ہیں۔گزشتہ سال اسی دسمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرار داد نمبر۲۳۳۴ اسرائیل کے خلاف پاس ہوئی جس کے مطابق میں اسرائیل نے۱۹۶۷ ء کے بعد فلسطین کی سرزمین بشمول مشرقی یروشلم میں جتنی بھی یہودی بستیاں بسائی ہیں وہ سب غیر آئینی ہیںمگر اسرائیل ان قراردادوں کی دھجیاں بکھیرتا آیا ہے اور اقوام متحدہ اس کے خلاف کوئی قدم اٹھانے سے قاصر ہے۔ یہی وجہ ہے اسرائیل نے اس مرتبہ بھی اقوام متحدہ کے متعلق کافی سخت و سست الفاظ استعمال کر کے کہا کہ یہ جھوٹ کا گڑ ھ ہے۔اسرائیلی سفیر ڈینی ڈینن نے ’’اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک کو کٹھ پتلیوں سے تعبیر کیا کہ جن کی باگ ڈور فلسطینی کے حمایتی ممالک کے ہاتھوں میں ہے۔ ‘‘ اس نے مزید کہا کہ ’’یہ ممالک کور چشم ہیں جو صداقت کا ادراک کرنے اور حقائق کو دیکھنے کے لئے بصارت وبصیرت سے عاری ہیں۔‘‘ ان حقائق کو مدنظر رکھ کر یہ سوال یقینا جواب طلب ہے کہ جب عملی اعتبار سے مزکورہ قرارداد کا کوئی اثر مخالف فریق پر نہیں پڑنے والا ہے تو ایسے میں اس کی اعتباریت اور ساکھ کیونکہ برقراررہ سکتی ہے؟ در اصل موجودہ دنیا میں ہر شخص ہر عمل کے نتیجہ خیز(result oriented)ہونے پر زور دیتا ہے اور نتیجہ بھی ٹھوس اور ثابت (solid and concrete )ہولیکن کچھ نتائج نہایت ہی لطیف اور باریک ہوتے ہیں کہ جنہیں درک کرنے کے لئے ذرا دقت ِنظری سے کام لینا پڑتا ہے۔ ٹرمپ کے فیصلہ کے خلاف اقوام متحدہ کی منظور کردہ قراردا د کا معاملہ بھی اسے کچھ مختلف نہیں ہے۔ بظاہر اگر وہ ٹھوس نتائج اس قرار داد سے برآمد نہ بھی ہوں اس کے باوجود یہ قرارداد تاریخ رقم کر چکی ہے۔ اس قرار داد نے جمہوری لباس میں ملبوس ایک عالمی تاناہ شاہ کو عریاں کر کے رکھ دیا۔اور تو اور عالمی برادری کے اس فیصلے کو دیکھ کر ٹرمپ انتظامیہ یقینا بوکھلاہٹ کی شکار ہو گئی جبھی تو مسٹر ٹرمپ تمام تر سفارتی قاعدے اور اصول بالائے طاق رکھ کر اقوام عالم سے تحکمانہ لہجے میںمخاطب ہوا۔مثال کے طور پر اس نے اپنے ٹویٹ میںیہاں تک کہہ دیا کہ ’’ہم ہمارے خلاف ووٹ دینے والے ممالک کو اچھی طرح دیکھیں گے ،انھیں ووٹ دینے دو۔اس میں فائدہ ہمارا ہی ہوگا۔ہمارے اربوں ڈالر بچیں گے‘‘اس شاہی فرمان کے پیش نظر امریکی راج پاٹ کے کارندے بھی شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداردکھائی دے رہے ہیں۔ چنانچہ اقوام متحدہ میں امریکہ کی خاتون مندوب نکی ہیلی نے ٹرمپ کی ٹویٹ کے فوراًبعد کہا ’’میں نے ٹرمپ انتظامیہ کے لیے ووٹ دینے والے ممالک کی فہرست تیار کر لی ہے‘‘۔امریکا کی تمام دھمکیوں کے باوجود چند ایک ممالک نے امریکی امداد بند ہونے کا خطرہ مول لے کر ووٹ دیاجو ایک قابل ِ ستائش امر ہے کیونکہ فی الوقت بعض غریب ممالک کی ملکی معیشت کے لئے امریکی افدا د نہایت ہی اہم ہے۔
اختتام پر ایک بار پھر ڈونلڈ ٹرمپ کو شیکسپئر کے رو برو کیا جائے تو کہا جائے گا۔ شیکسپئر جیسے یورپی مفکر نے مثالی حاکم کے متعلق جو تصور سولہویں صدی میں پیش کیا تھا ، اکیسویں صدی میںبھی یورپ علی الخصوص امریکا اس تصور کی عملی تصویر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اور ڈونلڈ ٹرمپ کی صورت میںجو مطلق العنان اور خود پسند وخودآراء حاکم امریکا کو نصیب ہوا ہے وہ شیکسپئر کے تصورِ حاکمیت کے بالکل برعکس ہے۔ایسی صورت میں جہاں بانی کے اعتبار سے امریکہ ترقی کی طرف گامزن ہے یا تنزلی و ابتری کا شکار ہے؟ یہ سوال قارئین ِ کرام پر چھوڑ دیتے ہیں۔
cell no : 9596465551
email: [email protected]