ماب لنچنگ اور مسلم خواتین کے ساتھ ہمدردی دو متضاد چیزیں ہیں ۔ کسی شادی شدہ خاتون کو بیوہ ،بچوں کو یتیم ، بزرگوں کو بےسہارا کرنے والے درندوں کے سامنے جب قانون بھیگی بلی بن جائے تو سیاسی نیتاوں کاتین طلاق کے نام پہ مسلم خواتین سے جھوٹی ہمدردی جتانا بے معنی گفتار ہے، جس سے اس بات کا سو فیصد یقین ہوجاتا ہے کہ ایسے نوٹنکی باز نہ بالی ووڈ میں آج تک آئے ہیں نہ ہی ہالی ووڈ میں موجود ہیں۔جی ہاں، نیتاؤں نے ایک بار پھر طلاق ثلاثہ کو لے کر پارلیمنٹ میں بل پیش کیا ہے، ویسے ان کا یہ ڈرامہ آج کا کوئی نیا معاملہ نہیں ہے بلکہ پریوار بار بار تین طلاق کو مدعا بناکر مسلم خواتین سے ہمدردی کے بہانے شریعت میں جبراً مداخلت کرنے کی کوشاں رہی ہے، لیکن الحمدللہ خود مسلم خواتین اور اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج اور اختلاف رائے کی وجہ سے انہیں کئی دفعہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ مسلم خواتین سے ہمدردی کے نام پہ 2018 میں آرڈیننس پاس کروالیا گیا جیسے ملک میں سہ طلاق کے علاوہ عورتوں پہ اور کوئی ظلم ہو ہی نہیں رہے ہیں۔ ساری دنیا آگاہ ہے کہ انہیں نہ مسلم خواتین سے کوئی ہمدردی ہے نہ ہی ان کے محفوظ مستقبل سے کوئی لینا دینا ہےبلکہ طلاق کے نام پہ ہورہے ہنگامہ کی اصل وجہ اسلام و مسلمانوں کو ہر شعبہ ٔ حیات میں سائیڈ لائین کر نا ہے ، ملکی عوام کو اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی خاطر طلاق ، حلالہ اور رام مندر جیسے مدعوں کو بار بار چھیڑ کر ملک میں امن وآشتی کا ماحول بگڑنے یاعوام کو مذہب کے نام پہ تقسیم کرنا کہاں کی دیش بھگتی ہے ؟اگر ان کے اندر عورتوں اور دیش کی مہیلاؤں کے تئیں سچ میں ہمدردی کا جذبہ ہوتا تو تمام عورتوں سے انصاف کرتے کیونکہ وہ واقعی مظلوم ہیں جس کا ثبوت حالیہ سروے ہے جس کے مطابق 2014 سے عصمت دری کے واقعات میں بے حد اضافہ ہوا ہے جو شاید ہی اس سے قبل کبھی ہوا ہو ۔ خود کئی منتریوں اور بڑے سیاسی جگادریوں نے ہی کئی ایک عورتوں کی عزتیں پامال کیں ،سڑکوں پہ عورتوں کی پٹائیاں کیں ، انصاف مانگنے پہ کہیوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیااور شرم کی بات یہ ہے کہ آج کئی ایک قانون شکن بڑے ایوانوں اور کرسیوں پر ہیں ۔ یہ کسی بھی سیکولر ملک کی سالمیت اور قومی وحدت کے لئے خطرناک ہے ۔ آج انہی ناہنجاروں کی وجہ سے دنیا بھر میں ہمارے پیارے دیس ہندوستان کی شبیہ کچھ ایسی بنی ہے کہ اسےریپستان پکارا جانے لگا ہے ۔
صدیوں سے جس ملک میں دیویوں کی پوجا کی جارہی تھی، آج اُنہی عورتوں کو حقیر منحوس پیر کی جوتی سمجھا جاتا ہے، کئی ایک عبادت خانوں میں اُن کے داخلے پر پابندی لگاکر انہیں اُن کے جائز دھارمک حقوق سے محروم کیا گیا ہے ۔اس کی ایک جیتی جاگتی مثال شبری مالا کا وہ مندر ہے جہاں عورتوں کے جانے پر پابندی لگائی گئی تھی لیکن ایک سال قبل سپریم کورٹ کی جانب سے ہندو خواتین کے حق میں فیصلہ آچکا تھا کہ ان کے داخلے پر کوئی ممانعت نہ ہوگی ، مگر اس کے باوجود سپریم کورٹ کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے مندر میں داخلےپر عورتوں پر تانڈو کیا گیا۔بات صرف مندروں میں داخلے کی ہی نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی کئی علاقوں میں اَندھ وشواس اوردقیانوسی رسم ورواج کے چلتے عورتوں پہ منحوس اور چڑیل ہونے کا الزام لگاکر انہیں گاؤں سے نکال دیا جاتا ہے یا پتھروں سے پیٹ پیٹ کر بڑی بےرحمی سے ان کی جان لی جاتی ہے ۔دیویوں کے نام پر آج بھی کہیں کہیں نابالغ لڑکیوں کی بلی چڑھائی جاتی ہے ۔ جگہ جگہ آشرموں میں آسا رام ،بابا رام رحیم جیسے فریبی سادھو سنتوں کے ہاتھوں دیوداسیوں کا جنسی استحصال ہوتارہا ہے اور نہ جانے آج ایسی کتنی ہی متاثرہ دوسرے دھرم کی مظلوم بہنیں انصاف مانگتے ہوئے دن رات پولیس اور کورٹ کے چکر لگاتی بوڑھی ہوچکی ہیں ۔اگر صحیح معنوں میں ہمدردی کی حقدار کوئی مہلائیں ہیں تو وہ ہماری یہی بہنیں ہیںجن پہ ہورہے ظلم و ستم کی داستانیں طویل اور ناقابل بیان ہیں ۔ا نہیں جانتے بوجھتے فراموش کردیا گیا ہے، یہ کم نصیب بنت حوا کبھی غیروں تو کبھی اپنوں ہی کے ہاتھوں ہر روز گھریلو تشدد کا شکار ہورہی ہیں ،جہیز کے نام پہ کہیں کہیں اپنے ہی سسرال میں اپنے ہی شوہر پتی پرمیشور کے ہاتھوں زندہ بھی جلائی جاتی ہیں ، کہیں انہیںگلا گھونٹ کر قتل کردیا جاتا ہیں یا بنا طلاق دئے بےسہارا در در کی ٹھوکریں کھانے کے لئے انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ایسے میں یہ سوال اُٹھانا ہر باضمیر فرد پہ بلا کسی مذہبی یا نسلی امتیاز کے لازم ہے کہ کیا بھارت سرکار صرف مسلم خواتین کو’’ انصاف انصاف‘‘ چلّا کر دیگر جاتیوں کی مہیلاؤں کو فراموش کر کے اپناکرتویہ کاپالن کر تی ہے؟
ویسے بھی طلاق کے نام پہ ہمدردی کا ڈھونگ کرنے والے مسلم خواتین کے حقوق کی بات کرنے والوں کو یہ پتہ ہونا چاہئے کہ اسلام نے مسلم خواتین کو کل یا آج نہیں بلکہ 14 ؍سو سال پہلے ہی برابری کے حقوق دے دئے ہیں۔ آج جس طلاق کو خواہ مخواہ مسئلہ بناکر مسلمانوں کو کوسا جارہا ہے ،دراصل یہی طلاق ہر مظلوم بیوی کے حق میں بارہا رحمت ثابت ہوتی رہی ہےکیونکہ جب کسی شادی شدہ زندگی میں کسی وجہ سے میاںبیوی کی آپس میں نہیں بنتی ہو اور ایک دوسرے کو صلح سمجھوتے کے باوجود برداشت کرنا ناممکن ہوجائے تو ایسے حالات میں اُنہیں بادل نخواستہ اجازت ہے کہ وہ اپنی مستقل زندگی کو زبردستی کے رشتے میں باندھ کر برباد کرنے کے بجائے آپسی رضامندی سے علیحدگی اختیار کر یں اور ہنسی خوشی ایک نئی زندگی کا آغاز کریں ۔دراصل اسلام میں نکاح کا مطلب پتی کو پتنی کادیوتا بنانا ہے اور نہ یہ مقدس رشتہ کوئی جنم جنمانتر کا ساتھ ہے جو ایک جنم انسانی شکل میں ساتھ رہیں تو دوسرا تیسرا تا ساتواں جنم شوہر کی کرتوتوں کی وجہ سے بندر یا کتے بلی بن کر لڑتے جھگڑتے ہوئے گذاریں۔اسلام میں عورت اور مرد دونوں کی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر ایک کو اپنے اپنے دائرے میں برابری کے حقوق فراہم کئے گئے ہیں تاکہ جنس کے بنا پر کسی کے ساتھ بھی بھید بھاؤ نہ ہو ۔رہی بات نکاح کی تو اسلام میںاس کی حیثیت محض ایک کنٹریکٹ میریج کی طرح ہے جس میں لڑکے کے ساتھ ساتھ لڑکی کی رضامندی کو بھی فوقیت دی جاتی ہے، یہاں تک کہ عورت کے تحفظ اُس کے مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے مہر کی شکل میں مقررہ رقم کی ادائیگی ہر مرد پہ لازم قرار دی گئی ہے اور اگر مساوات کی بات کی جائے تو دونوں کو ہر معاملے میں مساوی حقوق واختیارات رکھتے ہیں۔جہاں مرد کو طلاق کی اجازت ہے ،وہیں عورت کے حق میں خلع لینے کا اختیار ہے تاکہ دونوں میں کوئی بھی مجبوراً ایسے رشتے کی بھینٹ نہ چڑھے جس کی وجہ سے زندگی اجیرن بن جائے ۔شاید ہی دنیا کے کسی مذہب نے عورت کے تحفظ اُس کے حقوق اور اُس کے وجود کو اتنی اہمیت دی ہو جتناا سلام دے رہا ہے لیکن افسوس کہ آج جہالت ، مذہبی تعصب اور سیاسی داؤ پیچ کے چلتے اسلام کی رحمت کو زحمت بناکر پیش کرنے پر نیتا گری کر نے والے تلے ہوئے ہیں اور غیرمسلموں کے سامنے اسلام کو غلط اینگل سے دکھا ر ہے ہیں ۔اگر فرض کر کے یہ مان بھی لیا جائے کہ طلاق کی وجہ سے مسلم خواتین کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے تو یہاں پہ یہ بتانا بے حد ضروری ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں 68 فیصد طلاق شدہ و بنا طلاق کے چھوڑی ہوئی عورتوں میں ہماری ہندو بہنیں شامل ہیں، وہیں محض 22 سے 23 فیصد مسلم خواتین ا س زُمرے میں آتی ہیں ۔ ان اعداد و شمار کے مطابق کثیر تعداد میں سزا کے حق دار تو وہ مرد ہونے چاہئے جو اپنی پتنیوں کو عمر بھر قید میںرکھتے ہیں اور نہ جانےانہیں کس کس طرح دقیانوسی رسم و رواج کی آڑ میں جانوروں کی طرح اپنے کھونٹے کے ساتھ باندھ دیتے ہیں، جہاں ان بے چاری کم نصیب عورتوں کو مجبوراً جلاد شوہر کے ہاتھوں مار کھا کر جینا پڑتا ہے یا گھریلو تشدد سے تنگ آکر خودکشی کرنے پہ مجبور ہونا پڑتا ہے۔ ہندوستان میں اگر ہمدردی کی کوئی اولین مستحق ہیں تو وہ او ر کوئی نہیں بلکہ یہی عورتیں ہیں ۔کاش عورتوں کے بارے میںاسلامی قوانین ہر ملک میں نافذ کئے جاتے تو آج ملک کی عورتوں کی زندگیاں تباہ وبرباد نہ ہوتیں،نہ ہی کوئی عورت خودکشی کرنے پہ مجبور ہو جاتی لیکن دُکھ کی بات یہ ہے کہ یہاں جان بوجھ طلاق کو مسئلہ بناکر مسلم اقلیت کو ہراساں کیا جارہا ہےجب کہ کروڑوں مسلم خواتین نے مجوزہ طلاق بل کی پرزور مذمت کرتے ہوئے ہندوستان بھر میں احتجاج کیا۔ ویسے بھی ملک جن سنگین مسائل سے جوجھ رہا ہے، انہیں نظرانداز کرکے نان ایشو کو اُچھالنا کوئی دیش بھگتی یا دانائی نہیں ۔ بہر طوراگر عورت ذات کا بھلا کرنے کا اتنا ہی جذبہ ہے تو ہندوستانی شہری اور ایک عورت ہونے کے ناطے ہماری ارباب حل وعقد سے التماس ہے کہ شادی شدہ زندگیاں اور خاندانی نظام کو تباہ و برباد ہونے سے بچانے کے لئے پہلا اقدام ہندوستان سے لیواِن رلیشن شپ ،ہم جنس پرستی اور اڈلٹری جیسی بدکاریوں پہ روک لگائیں، ملک میں حقیقی جمہوری قوانین نافذ کریں ، ہمارے پیارے وطن میں ریڈ لائٹ جیسی بدنام گلیوں کا خاتمہ کریں ۔ کسی بھی ملک کی فلاح بہبودی کے لئے صاف ستھرا معاشرہ ضروری ہے تاکہ جنسی بے راہ روی سے متعلق ایسی خطرناک مہلک بیماریوں کا خاتمہ ہو جن کی وجہ سے آج سینکڑوں معصوم بےگناہ بچوں کی جان جارہی ہے ۔یاد رہے اُن معصوم بچوں کی مائیں جو آج بلک رہی ہیں وہ بھی عورتیں ہیں۔پہلو خان سے لے کر افرزول ،جنید اور تبریز انصاری کی ماںبہن ،بیوی بھی تو عورتیں ہیں،نجیب کی ماں بھی عورت ہی تو ہیں جو سالوں سے انصاف کے لئے منتظر ہے ۔اگر انصاف دلانا ہی ہے تو پہلے ان سبھی کو انصاف دلائیں، بہتری اسی میں ہے کہ بار با مسلم ا قلیت کے جذبات کو مجروح کرنے کے بجائے سب کا ساتھ ،سب کا وکاس اور ساتھ کا وشواس نعرے کو عملاکر پیارے دیش کی گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دیا جائے ۔