انسان کو مرد ہونے کا سرٹیفکٹ حاصل کرنے کے لیے پہلے رشتہ ٔازدواج سے منسلک ہونا ضروری ہے ۔ماہرین نفسیات کی مانیں تو جو لوگ بلاوجہ شادی نہیں کرتے ،ان کے دل انسانی ہمدردی اور جذبہ ترحم سے خالی ہوتے ہیں ۔ایسے لوگ کبھی کسی کا سینہ تان کے مقابلہ نہیں کرسکتے بلکہ بزدلوں اور کایروں کی طرح کسی کو تنہا اور نہتا پا کر اس پر ظالمانہ اور بزدلانہ حملہ کر اپنے بہیمانہ جنون یا نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ آج کل درندہ صفت لوگوں کے ہاتھوںماب لانچنگ اسی نامردانہ فکر وعمل کی شکل وصورت ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق عورت اس جہانِ فانی میں مالک وخالق کائنات کا حسین انسانیت ہے، اس لیے دنیا کے تمام عدل و انصاف کے محافظوں اور بہادروں کی کامیابی کے پیچھے انسانیت کا بڑا رول ہوتا ہے لیکن جن لوگوں کوانسانیت سے ہی دین دھرم کے نام پر خداواسطے نفرت ہو وہ کیوں نہ بھیڑیے بن جائیں ۔ ۔غور کیجئے جن کی زندگی انسانیت نام کی چیز کا عمل دخل ہی نہ ہو یا جنہوں نے کرسی اور قوت کے نشے میں انسانیت کو تیاگ دیا ہویا چھوڑ دیا ہو جن کی دشمنی ہر انسان سے ہو، ایسے لوگوں کی ذہنی غلامی کی کوئی انتہا نہیں ہوتی ۔ اس کی مثالیں انہی لوگوں نے گجرات ، مظفرنگر، آسام ، جہار کھنڈ ، راجستھان ، اُتر پردیش، بنگال وغیرہ میں ہجومی تشدد کی صورت میںجس ظلم اوربے رحمی کے ساتھ قائم کی ہیں ،ان کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔ شہید تبریز انصاری کی ماب لنچنگ اسی سللسے کی تازہ کڑی ہے ۔ یہ انسان نماحیوان بزدلی کے ساتھ ساتھ اپنی نامردانگی کا ثبوت دیتے ہوئے انتقام لیتے ہیںبے قصور اور معصوم لوگوں سے، اُن گناہوں کا جو انہوں نے کئے ہی نہیں ۔ یہ غم انگیز وارداتیں ان قاتلوں کی نامردی اور نامرادی کی علامتیں ہیں ۔ ان پر جنون اور بہیمیت حاوی ہوتی ہےاور یہ لوگ اپنے شکار کے سامنے مردوں کی طرح آنے کی بجائے پردے کے پیچھے سے حملہ آور ہوتے ہیں اور اپنی سفاکیت اور فسطائیت کی دھاک بٹھاتے ہیں اور مسلم اقلیت کو خودوف زدہ کر نے کے درپے ہوتے ہیں ۔یہی وہ ملک دشمن عناصر ہیں جو ملک وقوم کو فرقوں اور حصوں بخروں میں تقسیم کر کے ا پنی دیش بھگتی کی جھوٹی مالا جپتے ہیں ۔ ہجومی تشدد کے شکار لوگوں کی کہانیاں اب دنیا بھر میں گشت کر رہی ہیں اور اہل جہان کو بتارہی ہیں کہ سائنس اورشعور کے اس زمانے میں قبل مسیح کی قدیم جاہلانہ سوچ اور مجنونانہ عمل کے علمبردار کون سے’’ جمہوریت نواز‘‘ ہیں ۔اس سے ہمارے دیش کی بدنامی ہورہی ہے اور ہمیں پتھر کے زمانے کے لوگ تصور کیا جاتاہے ۔ بہتر یہ ہے کہ ہجومی تشدد کو اپناایک خوف ناک سیاسی ہتھیار بنا نے والے نیتا اس خیال خام سے نکل باہر آئیں کہ مسلمان زیادہ دیراپنی یہ دُرگت برداشت کرے گا اور نہ ملک کی انصاف پسند اور جمہور پسند ہندو اکثریت ہی اس حیوانیت کی حمایت کرے گی۔اس لئے بہتر یہی ہے کہ’’ سب کاساتھ سب کا وکاس سب کا وشواس‘‘ کے نعرے میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لئے ہجومی تشدد کر نے والےوالوں کے خلاف ایک ایک کرکے قانونی کارروائی کی جائے ، انہیں لگام دی جائے اور بھارت کی صدیوں پرانی پر م پرا اور گنگا جمنی تہذیب کو پھر سے تروتازہ کیاجائے ۔ بصورت دیگر اس پیارے ملک میں نئی نئی فتنہ انگیزیوں کا جنم لینا معمولاتِ زندگی کا حصہ بن جائے گا اور وہ دن دور نہیں جب نفرت کا اژدھا مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب اور جاتیوں سمیت اعتدال نواز ہندوؤں کی طرفر رُک کرےگا اور ہر ایک کو گھائل کر کے چھوڑدے گا ۔ ضرورت اس ا مر کی ہے کہ ہجومی تشدد پر آمادہ ٔ پیکار بلوائیوں کو ملک کی سلامیت ، وحدت اور بھائی چارے کے مفادمیں فوراً سے پیش ترروجا جائے ۔ ہماری دعاہے کہ یہ پیاراملک ایسے وناش کاریوں اور دہشت گردوں کے چنگل سے چھٹکارا پائے ۔
9595024421