کبھی سوچا نہ تھا
تو اس طرح،
زندگی سے
چلا جائیگا ،
کبھی سوچا نہ تھا –
تو وعدہ وفا
نہیں کر پائیگا ،
کبھی سوچا نہ تھا –
ہم بھی خزاؤں سے
پو چھیں گے ہر دن
بہار تھی کیا کبھی
آپ پر –
وہ دے کر دغا
چلا جائیگا
کبھی سوچا نہ تھا –
زخم دینے سے پہلے ،
بتاتا اگر ،
سنبھل گئے ہوتے –
ساتھ میرے قدم نہیں ،
چل پائیگا ،
کبھی سوچا نہ تھا۔
جسپال جسّی
بٹھنڈہ، پنجاب،08837531967
نظم
سُنا ہے ایک بستی ہے
حقیقت میں جو جنت ہے
جہاں چڑیاں چہکتی ہیں
جہاں کلیاں مہکتی ہیں
جہاں دل شاد ہوتا ہے
جہاں پانی کے جھرنے ہیں
چمکتی پانی کی بوندیں
حسین اک رقص کرتی ہیں
برف کی چوٹیاں ہر سُو
چمکتی مثلِ گوہر ہیں
جہاں ہر پیڑ اپناہی
حسین اک خواب بُنتا ہے
جہاں پھولوں کی بستی ہے
جہاں خوشیوں کی مستی ہے
جہاں سب ناز کرتے ہیں
چمن کے باغبانوں پر
جہاں کھانے کی وہ لذت
جہاں نون چائے کے چٹکے
جہاں فنکار رہتے ہیں
جہاں پر کانگڑی اپنی مثال اک پیش کرتی ہے
فِرن پہنائوے میں اپنا مقام اک خاص رکھتا ہے
جہاں تہذیب زندہ ہے
جہاں پیروں کا مسکن ہے
جہاں درویش رہتے ہیں
جسے ریشی وأر کہتے ہے
جسے کشمیر کہتے ہے
ولیکن۔۔۔!
سنا ہے اب وہی بستی
حقیقت میں جو جنت تھی
جہاں چڑیاں چہکتی تھیں
جہاں کلیاں مہکتی تھیں
جہاں درویش رہتے تھے
جہاں پیروں کا مسکن تھا
جہاں پر کانگڑی اپنی مثال اک پیش کرتی تھی
فرن پہنائوں میں اپنا مقام ایک خاص رکھتاتھا
وہی بستی ،وہی چڑیاں،وہی کلیاں،وہی مسکن
فرن اور کانگڑی، تہذیب سب کچھ اب
بکھر کر خاک دکھتی ہے
اُجڑ کر راکھ دکھتی ہے۔
مینا یوسف
سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر
’’ماڈرن وومن‘‘
میرے وجود کے کئی حصے ہیں
میری ذات کئ خانوں میں بٹ چکی ہے۔
میں بیوی ہوں،بہو ہوں ،ماں ہوں
بیٹی و بہن بھی
ہاں یاد آیا
میں شاعرہ بھی ہوں، ادیبہ بھی
اور اُستانی بھی
مہینے کی آخری تاریخ کو
میرے ہاتھوں میں موٹی رقم بھی آتی ہے
جو بیس تک آتے آتے ختم بھی ہوجاتی ہے۔
گھر کا سودا سلف،دودھ والا،سبزی فروش
بچوں کے اسکول کی فیس
ان کے کپڑوں، کھلونوں۔ویڈیو گیم،باربی ڈول۔سب خرچ ہوجاتا ہے۔
میری ذات کے ان تمام خانوں میں
میرے کھاتے میں کیا کبھی کوئی سکہ گرتا بھی ہے؟
میں فیشن کے نت نئے ڈیزائن کی پوشاکیں بھی بنوا تی ہوں۔
میچنگ جیولری ،جوتے اور پرس
بھی خرید لاتی ہوں۔
پرفیوم بھی فارئن چاہیے مجھے
کہ جس کی خوشبو میرے ذہن کے پردوں پر رقصاں ہوکر میرے وجود کو معطر کرتی ہے۔
مجھے رولان کی ویجھی لپسٹک
بھی چاہیئے
جس سے میرے ہونٹوں کی مسکان
دوبالا ہوجاتی ہے۔
میں یہ سب کرتی ہوں
کہ میں آج کے زمانے کی الٹرا ماڈرن وومن ہوں۔
جو تمام پارٹ بڑی خوش اسلوبی سے
نبھانا جانتی ہے۔
مگر میرے وجود کے ان تمام حصوں میں
ذات کے اس بٹوارے میں
میں کہاں ہوں؟
میری " میں" کس خانے میں ہے؟
میں اپنی بازیافت میں گم ہوں۔
اور لوگ کہتے ہیں۔
کہ مجھے "ہینگ اوور" ہوگیا ہے۔
ڈاکٹر کوثر رسول
اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی سرینگر