اکرم :ایک نوجوان لڑکا۔
مولانا صاحب:ایک عالم دین۔
احمد : ایک کمسن بچہ۔
(نماز ختم کر کے احمد اور اکرم نے مولانا صاحب کو سلام کیا اور مسجد سے منسلک حمام کے فرش پر بیٹھ گئے )
مولانا صاحب :کیوں بھئی اکرم آج تمہارا دوست امین نہیں آیا ہے ؟کیا وہ خیریت سے ہے؟
اکرم :مولانا صاحب امین کو بہت تیز بخار ہے ،جس کے چلتے وہ مسجد نہیں آیا۔
مولانا صاحب :ہاں احتیاط بہت ضروری ہے۔ اچھا یہ بتاؤ اب وہ کیسا ہے؟
اکرم:دا جانے مگر اتنا معلوم ہوا ہے کہ اس کا ٹیسٹ، جو اس نے کورونا وائرس کے لئے کیا تھا، منفی آیا ہے۔
احمد: شکر خدا کا جس نے اس کو اس مہلک وائرس سے بچایا۔
مولانا صاحب:ہاں سو تو ہے یہ سب اس اوپر والے کے ہاتھ میں ہے۔
احمد:مولانا صاحب میں نے آج ریڈیو پر اس کے بارے میں سنا۔
اکرم:ہاں مولانا صاحب میں نے بھی سنا اور یہ بھی دیکھا کہ یہ وائرس کس طرح پھیلتا ہے اور ہمارے جسم پر کیا اثرات ثبت ہوتے ہیں۔
احمد:مولانا صاحب ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ یہ وائرس صرف ہم انسانوں کو ہی کیوں اپنا شکار بناتا ہے۔ جانوروں پرندوں کو کیوں نہیں؟
مولانا صاحب:تمہارا سوال بہت اچھا ہے- پہلے تو ہمیں اس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ وبا ہے۔
اکرم:مولانا صاحب یہ وبا کیا ہوتی ہے؟
مولانا صاحب:دیکھو وبا ہم اس بیماری کو کہتے ہیں جو کسی علاقے کے باشندوں میں کم وقت کے دوران تیزی سے پھیل جائے۔
احمد:مولانا صاحب اب تو یہ دنیا بھر میں پھیل چکی ہے تو کیا ہم اس کو ایک عالمی وبا کہہ سکتے ہیں؟
مولانا صاحب :بے شک
اکرم :مولانا صاحب کیا ہمارے دین میں وبا کے متعلق کوئی جانکاری ہے؟
مولانا صاحب:ہاں اکرم کیوں نہیں وبا تو اللہ کا عذاب ہے ،جو ہم نافرمان بندوں پر نازل ہو چکا ہے، اس کورونا وائرس کی صورت میں۔
احمد:اللہ کا عذاب؟ مطلب ہم نافرمان بندے ہیں؟
مولانا صاحب:سبھی نہیں بلکہ ہم میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو رب العالمین کی عبادت دل کی عمیق گہرائیوں سے کرتے ہیں۔
اکرم:مولانا صاحب قرآن پاک اس بارے میں کیا کہتا ہے؟
مولانا صاحب؛دیکھو اکرم بھائی اللہ تعالی سورۃ انعام کی آیت نمبر 49 میں فرماتے ہیں ۔۔
’’اور جنہوں نے جٹھلایا ہماری آیتوںکو اُن کو پہنچے گا عذاب، اس لئے وہ نافرمانی کرتےتھے‘‘
دوسری جگہ سوروۃ بقرہ کی آیت نمبر 95میں فرماتے ہیں۔
’’اور ہرگزر آرزو نہ کریں گے موت کی کبھی بہ سبب ان گناہوں کے کہ بھیج چکے اُن کے ہاتھ اور اللہ خوب جانتا ہے گنہگاروں کو ‘‘
ان آیات مبارکہ سے سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ ہم لوگ کتنے فرمان ہیں۔ قرآن مجید میں جو اللہ تعالی نے ہمیں سچی راہ دکھائی ہم اس پر عمل پیرا نہیں ہورہے ہیں بلکہ اس کے برخلاف برے کام کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ہم پر عذاب ہو رہا ہے۔
احمد؛استغفراللہ اب میں سمجھا کہ ہم کتنے نافرمان ہے۔
اکرم :ہاں، احمد تم سچ کہہ رہے ہو۔ ابھی دیکھو جب وائرس کی وجہ سے ماسکیں کم ہورہی تھی تو میڈیکل اسٹور والوں نے ماسکو کا دھام بڑھا دیا، اس بات کو نظر انداز کرکے کہ کوئی تو حاجت مند ہوگا، جس کو اس کی اشد ضرورت ہوگی۔
اکرم مولوی صاحب سے مخاطب ہوکر:
مولانا صاحب کیا اس وبا کا کوئی علاج ہے؟
مولانا صاحب صاحب دیکھو اکرم اگر تم دنیاوی نظر سے کہہ رہے ہو تو نہیں ہے مگر اگر تم دینی اسلامی نظر اور رب العالمین کی قوّت و جلال کو مدنظر رکھ کر کہہ رہے ہو تو بالکل ہے صرف کر رونا ہی نہیں بلکہ ایچ آئی وی ایڈز اور کینسر کا بھی ہے۔
احمد:ولانا صاحب وہ کیا ہے۔
مولانا صاحب:اس کا علاج اللہ سے معافی طلب کرنا، درود و اذکار میں مصروف رہنا، اللہ کو کثرت سے یاد کرنا اس کی رحمت و برکت کا امیدوار رہنا، توبہ کرنا اعمال صالح کرنا سب کے ساتھ حسن سلوک کرتے حقوق العباد کی تلفی سے خود کو بچانا۔ یہ ایسے نیک کام ہیں جو اس کو پھیلنے سے روک سکتے ہیں اور ہمیں اس سے بچا سکتے ہیں ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔
���
متعلم10ویں جماعت،
شوپیان،شاہِ ہمدان میموریل انسٹی چوٹ،