بالآخر بلی تھیلے سے باہر آ ہی گئی ۔دو روز قبل یعنی4جون کو جموںوکشمیر انتظامیہ کے عمومی انتظامی محکمہ کی جانب سے حالیہ اعلان شدہ 10ہزار درجہ چہارم اسامیوں کی خصوصی بھرتی مہم کیلئے جو قواعد و ضوابط جاری کئے گئے ہیں،اُن کے سرسری مشاہدہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس عمل میں سنجیدگی اور خلوص کافقدان ہے۔پڑھنے میں تو شاید یہ نوٹیفکیشن کوئی عام سا اعلامیہ لگتا ہو لیکن قانونی معاملات کی سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ کہاں کونسی خامی رکھی گئی ہے ۔زیاد ہ بحث میں جائے بغیر مذکورہ ضوابط میں موجود چند خامیوں کو اجاگر کرنا لازمی ہے تاکہ اصلاح احوال سے کام لیاجاسکے۔اول تو آج تک درجہ چہارم اسامیاں سروسز سلیکشن بورڈ کے ذریعے پُر نہیں ہوتی تھیں بلکہ یہ محکمانہ سطحوں پر ہی پُر کی جاتی تھیں اور یوں خوامخواہ سب سے کم درجہ کی سرکاری اسامیوںکو نان گزیٹیڈ اسامیوں کی بھرتی کے ذمہ دار بھرتی بورڈ کے سپرد کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ شاید کوئی انقلاب ہی آنے والا ہے ۔دوم ان قواعد و ضوبط میں گوکہ یوٹی ،صوبائی اور ضلعی کاڈر اسامیوں کو سالم حالت میں رکھاگیا ہے لیکن جس طرح قواعد بنائے گئے ہیں ،اُس نے ضلعی اور صوبائی کاڈر اسامیوں کیلئے پورے یوٹی کے امیدواروں کی جانب سے درخواستیں دینے کی راہ ہموار کردی ہے ۔مطلب غرض یہ ہے کہ عملی طور اب ضلعی اور صوبائی سطح کی اسامیاں مخصوص ضلع یا صوبہ کے امیدواروں کیلئے مختص نہیں رکھی گئی ہے بلکہ جموںوکشمیر کے سبھی خواہشمند امیدوار کسی بھی ضلع یا صوبہ میں بھرتی کیلئے درخواستیں دے سکتے ہیں ،یہ الگ بات ہے کہ آبائی صوبہ یا اضلاع کے امیدواروں کیلئے بالترتیب 5اور10نمبرات مخصوص رکھے گئے ہیںلیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ پسماندہ اضلاع کے امیدوار ان دس نمبرات کا کیا کریں گے جب انکا مقابلہ تعلیمی طور بہت آگے نکل چکے اضلاع کے امیدواروں سے ہوگا۔یہ شق کسی بھی طور قرین ِ انصاف قرار نہیں دی جاسکتی ہے ۔اسی طرح اس نوٹیفکیشن میں بھرتی مہم کے آخری مرحلہ میں ڈومیسائل سند کی فراہمی کو لازمی قرار دیا گیا ہے ۔یہ فیصلہ بھی انتظامی کم ،بلکہ سیاسی زیادہ لگتا ہے اور ا سکے دور رس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔مطلب یہ کہ دس ہزار اسامیاں ،جو جموںوکشمیر میں بیروزگاری کی شرح کو دیکھتے ہوئے اونٹ کے منہ میں زیرہ ڈالنے کے مترادف ہیں، کے بھرتی عمل کی آڑ میں اصل ہدف ڈومیسائل اسناد کی اجرائی کے چلن کو عام بنانا ہے۔گوکہ ابھی یہ اسامیاںمشتہر نہیں ہوئی ہیں لیکن صوبہ جموںمیں تحصیلدار دفاتر کے باہر ڈومیسائل اسناد کے حصول کے خواہشمند امیدواروں کی لائنیں لگنا شروع ہوچکی ہیں۔ فی الوقت سارے امیدوار درخواستیں دے سکتے ہیں کیونکہ ابتدائی مرحلہ پر ان اسناد کو لازمی قرار نہیں دیاگیا اور یوں اُن لوگوںکو معقول وقت دیاگیا ہے جنکے پاس پشتینی باشندگی اسناد نہیں تھیں اور جو غیر مقامی تھے کہ وہ اس دوران ڈومیسائل اسناد بنائیں اور جب بھرتی عمل حتمی مرحلہ میںہو تو وہ اپنی اسناد پیش کرسکتے ہیں۔ظاہر ہے ایسے لوگوں کی تعداد لاکھوں میں ہے ۔جموںمیں کالونیوںکی کالونیاں ایسے غیر مقامی لوگوں سے بھری پڑی ہیں جو برسہا برس سے یہاں رہ رہے ہیں لیکن جموںوکشمیرکے باشندے نہیں کہلاتے تھے ۔اسی طرح پورے یوٹی میں عرصہ دراز سے کام کررہے ترکھان،مستری ،نائی وغیرہ بھی ڈومیسائل بن گئے اور ان کے بچے بھی اب ان اسامیوں پر بھرتی ہوسکتے ہیں۔گویا ایک فلڈ گیٹ کُھل چکا ہے جس کے طویل مدتی نتائج کیا ہونگے،سمجھ سے بالاترنہیں ہے۔ایک بڑی ناانصافی یہ ہے کہ دفعہ370ختم کرکے جموںوکشمیر کے آئین کو ختم کیاگیا اور بھارت کا آئین مکمل صورت میں جموںوکشمیر میں نافذ کیاگیالیکن جب اپنے مفاد کی با ت ہوتو متروک شدہ جموںوکشمیر کے آئین سے قوانین اور قانونی دفعات لائی جارہی ہے اور ان کو استعمال کیاجارہا ہے۔ان بھرتی قواعد میں بھی وہی کیاگیا ہے۔SRO-202کی شقوں کو شامل کرکے اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ نئے بھرتی شدہ ملازمین کیلئے پروبیشن کی مدت پانچ سال رہے جبکہ پورے ملک میں یہ مدت صرف دوسال ہی ہے ۔بھرتی ضوابط کے مطابق یہاں پانچ سال برقرار رہیں گے جس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں اس دوران سروس مراعات بھی نہیں ملیںگی جو فطری انصاف کے تقاضوں کے عین برعکس ہے ۔اگر آپ جموںوکشمیر کو باقی ملک کے ہم پلہ لانے کے دعوے کررہے ہیں تو یہاں یہ بے انصافی کیوں؟۔ویسے بھی لاء کمیشن نے اس ایس آراو کوختم کرنے کی سفارش کی تھی لیکن چونکہ یہاں اپنا مالی فائدہ ہے تو اس کا اطلاق کیا۔اس نوٹیفکیشن میں ایک تیر سے یوںکئی شکار کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ایک شکار وہ ہزاروں قسمت کے مارے اور حکومت کے ستائے پڑھے لکھے نوجوان بھی ہیں جو برسہا برس سے عارضی بنیادوںپر سرکاری محکموں میں کوڑیوںکے عوض کام کررہے ہیں۔انہیں عمر کی بالائی حد میں پانچ سال کی چھوٹ دی گئی ہے اور پانچ نمبرات بھی ان کیلئے مخصوص رکھے گئے لیکن کیا پوچھا جاسکتا ہے کہ یہ کہاں کا انصاف ہے ۔دہائیوں سے آپ نے اُن سے کام لیا اور اب آپ انہیں مسابقتی امتحان سے گزار رہے ہیں! نہ تو عمر کی بالائی حد میں چھوٹ اور نہ ہی نمبرات کی یہ نمائشی خیرات ان کا بھلا کرسکتی ہے کیونکہ اُن کے ذہن مفلوج ہوچکے ہیں اور وہ اس بھرتی عمل کے تحریری امتحان میں یک لخت باہر ہوجائیں گے۔ خوش نما لفظوں اور دلفریب نعروں سے بہلانے کا سلسلہ ترک کریں۔لوگ اتنے نادان نہیں ہیں کہ وہ سمجھ نہ سکیں کہ کس کے کیا ارادے ہیں۔اگر آپ واقعی انصاف کے علمبردار اور لوگوںکے غم خوار ہیں تولوگوں کا سوچیں ۔یہ بھرتی قواعد ناقص ہیں اور سراسر ناانصافی پر مبنی ہیں۔ان میں ترمیم کریں ۔جموںوکشمیر کے نوجوانوں نے اتنا انتظار کیا ۔وہ کچھ وقت کیلئے مزید انتظار کرسکتے ہیں لیکن کُند چھرے سے اُن پر یوںوار نہ کریں۔ارباب ِ بست و کشاد سمجھ لیں کہ یہ قواعد پہلے سے ہی پریشان نوجوانوںکو پُر سکون کرنے کی بجائے انہیں مزید مشتعل کرسکتے ہیں جو کوئی اچھا شگون نہیں ہوگا۔اس لئے اصلاح احوال ناگزیر ہے۔