دورِ حاضر میں یہ دعویٰ بہت زورو شور سے جاری ہے کہ قرآن مجید میں شراب کی حرمت کا کوئی حکم موجود نہیں اور جس چیز کو نام لیکر قرآن مجید میں حرام نہ ٹھہرایا گیا ہو، اُسے حرمت کے دائرے میں داخل کرنے کا کسی کو حق نہیں۔ہمیں خدشہ ہے کہ ہمارا جدید تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ اگر ان لوگوں کے پھیلائے ہوئے نظریات سے متاثر ہو گیا تو آنے والی نئی نسل ان کے زیر ِاثر یقیناکسی فتنے کا موجب بنے گی۔
یہ سوال چونکہ اُن لوگوں کی طرف سے ا ٹھایا گیا ہے جو احادیث کو نا قابلِ اعتناء سمجھتی ہیں، اس لیے ہم مناسب خیال کرتے ہیں کہ ا?نکے اِس دعویٰ کو صرف اور صرف قرآن مجید سے ہی باطل ثابت کر کے دکھائیں۔چناچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: ’’لوگ آپ سے شراب اور جوئے کا مسئلہ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئے ان دونوں میں بہت بڑا گنا ہ ہے اور لوگوں کو اس سے دنیاوی فائد ہ بھی ہوتا ہے، لیکن ان کا گناہ ان کے نفع سے بہت زیاد ہ ہے‘‘۔(قرآن، سورت البقرہ، آیت نمبر:219)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے شراب اور جوئے کے’’اثم کبیر(بہت بڑا گناہ )‘‘ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔اس کے بعد اسکے کچھ دنیاوی فوائد کی طرف بھی اشارہ کر دیا ہے لیکن اصل بات جواللہ تعالیٰ اس آیت مبارکہ کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں میں واضح کرنا چاہتے ہیں وہ ہے اسکا گناہ جو دنیاوی منفعت سے کہیں بڑھ کر ہے۔
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جائو‘‘۔(قرآن، سورت النساء ، آیت نمبر 43:)
اس آیت میں بظاہر شراب کا ذکر نہیں ہے لیکن نہایت لطیف انداز میں ایک ا صول ’’سکر(نشہ آور چیز)‘‘کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے کہ جب تم نماز جیسی اہم عبادت کے لیے کھڑے ہو تو نشے کی حالت میں نہ ہو اور ہر شخص بخوبی جانتا ہے کہ نشہ ایک ایسی کیفیت ہے جس میں انسان اپنے ہوش و ہواس میں نہیں رہتا اور ظاہر ہے کہ ایسا نشہ’’خمر(شراب )‘‘میں بھی موجود ہوتا ہے لہٰذا اگر آ پ اِس’’سکر(نشہ آور چیز)‘‘ کو بطورِ ا صول لے لیں تو ان میں ’’خمر(شراب )‘‘ آپ سے آپ داخل ہو جائے گی۔
’’اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور پانسے (یہ سب)ناپاک کام اعمال شیطان سے ہیں سو ان سے بچتے رہنا تاکہ نجات پائوشیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے سبب تمہارے آپس میں دشمنی اور رنجش ڈلوا دے اور تمہیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے تو تم کو (ان کاموں سے)باز رہنا چاہیے‘‘۔(قرآن، سورت المائد، آیت نمبر: 91-90)
یہ آیت شراب کی حرمت کے بارے میں قطعی ہیں لہٰذا ہم مزید کہنے کی بجائے اسکے الفاظ کی طرف اشارہ کر دینا ہی کافی سمجھتے ہیں۔چونکہ اس وقت ہمارا موضوع شراب کی حرمت ہے اس لیے اسکے متعلق قرآن مجید نے مندرجہ ذیل الفاظ ارشاد فرمائے ہیں:رِجس (گندے شیطانی کام)
اس آیت میں مذکور تمام چیزوں کو لفظِ’’رجس‘‘سے تعبیر کیا گیا ہے اور ’’رجس‘‘ چیز کے حرام ہونے کیلئے اسی مضمون میں دیکھئے سورت الانعام، آیت نمبر:145
(شیطانی اعمال سے ہیں)
قرآن مجید کے یہ الفاظ نہایت اہم ہیں ان میں شیطان کے چند اعمال کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لہٰذاجو شخص شراب پیتاہے وہ شیطانی عمل کا مرتکب ہوتا ہے’’من عمل الشیطان‘‘بعض اعمال کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور آپ قرآن مجید میں شیطان کے مزید اعمال بھی ملاحظہ کر سکتے ہیں مثلاً کفرو شرک کرنا، جادو کرنا، دھوکا دینا، وسوسے ڈالنا، برے اور بے حیائی کے کاموں کی ترغیب دیناوغیرہ اور انہی اعمال کو کرنے کا شیطان حکم دیتا ہے۔اس متعلق قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات پیشِ خدمت ہیں:
’’اور شیطان کے بتائے ہوئے راستوں پر نہ چلو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے تمہیں بدی اور فحش کا حکم دیتا ہے‘‘۔(قرآن، سورت البقرہ، آیت نمبر: 168-169)
’’شیطان تمہیں فقیری سے دھمکاتا ہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے‘‘۔(قرآن، سورت البقرہ آیت نمبر:268)
’’ایمان والو! شیطان کے قدم بقدم نہ چلو جو شخص شیطانی قدموں کی پیروی کرے تو وہ تو بیحیائی اور برے کاموں کا ہی حکم کرے گا‘‘۔(قرآن، سورت النور، آیت نمبر:21 ترجمہ )
دیکھا آپ نے کہ شیطان لوگوں کو ’’منکر(برے کام)‘‘ اور ’’فواحش(بے حیائی)‘‘ کا حکم دیتا ہے تو معلوم ہواکہ یہ اسکا عمل ہے اور آپ سورت المائدہ۔ آیت نمبر 90 کے تحت دیکھ چکے ہیں کہ شراب، جوا اور پانسے بھی شیطانی اعمال ہیں لہٰذا ثابت ہوا کہ یہ اعمال بھی ’’منکر‘‘ اور ’’فواحش‘‘ کے زمر ے میں آتے ہیں اور سورت الاعراف، آیت نمبر 33 کے مطابق ’’فواحش‘‘بھی محرمات میں شامل ہیں۔(ان سے بچ کر رہو)، (شائد کہ تم فلاح پائو)
ان الفاظ میں لفظِ ’’فلاح‘‘ خاص طور پر قابلِ غور ہے اور یہ اس صورت ممکن ہے جب مذکورہ بالا چیزوں سے مکمل اجتناب کیا جائے اور یہ بات بالکل بدیہی ہے کہ اجتناب نہ کرنے کی صورت میں یہ’’خسران‘‘ میں بدل جائیگاجو ’’فلاح‘‘ کی ضد ہے۔اس تصریح کے بعد کوئی بھی دانشمند فلاح کے مقابلے میں خسران کو ترجیح نہیں دے سکتا۔
(کہ شراب اور جوئے کے ذریعہ سے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے)
اس بات کو سمجھنا بھی کوئی مشکل نہیں کہ اکثر لڑائی جھگڑے، دنگا فساد حتیٰ کہ قتل و غارت کی جڑ شراب اور جوا ہی ہوتاہے۔یہی چیزیں ایک مہذب معاشرے میں لوگوں کے درمیان عداوت اور بغض کو جنم دیتی ہیں۔(اور تمہیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے)
ان الفاظ سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ شیطان کا اصل مقصد مسلمانوں کو اللہ کے ذکر اور نماز سے روک دینا ہے۔ نماز اور ذکر اللہ کے ساتھ شراب جیسی رجس چیز کا تصور بھی نا ممکن ہے۔ذکر اللہ اور نماز چھوڑ دینے پر قرآن مجید میں بہت مقامات پر وعیدیں سنائی گئی ہیں اور نماز قائم کرنے والا شراب کے قریب جا بھی کیسے سکتا ہے جبکہ قرآن مجید کا واضح ارشاد ہے کہ :-
’’اور نماز قائم کرو، یقیناً نماز فحش اور بُرے کاموں سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر اس سے بھی زیادہ بڑی چیز ہے‘‘۔(قرآن، سورت العنکبوت، آیت نمبر۔45)
اس آیت سے بھی اشارہ نکلتا ہے کہ شراب پینے والا نماز کے قریب نہیں جا سکتا اور نماز قائم کرنے والا شراب کے نزدیک نہیں جا سکتا گویا شراب اور نما ز کا کسی ایمان دار شخص میں جمع ہونا نا ممکن ہے۔پھر کیا تم ان چیزوں سے باز رہو گے؟)
جو کچھ اوپر بیان ہو چکا ہے اسکے بعد مزید کسی وضاحت کی ضرورت بظاہر محسوس نہیں ہوتی تھی لیکن پھر بھی اللہ رب العزت نے مندرجہ بالا الفاظ فرما کر بات کو ہر لحاظ سے مکمل کر دیا۔قرآن مجید کے اس اسلوب سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ یہاں قرآن سوالیہ انداز میں مسلمانوں سے پوچھ رہا ہے کہ باز آتے ہویا نہیں ؟ بلکہ اسکا صحیح مطلب یہ ہے کہ اب جبکہ تم شراب ، جو ا، اور پانسی کے جسمانی و روحانی نقصانات سے واقف ہو چکے ہو تو اب تمہارے لیے صحیح رویہ یہی ہے کہ ان چیزوں سے مکمل اجتناب کر و۔ یہ ایسا ہی اسلوب ہے جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حضرت دائودعلیہ السلام کو زرہ بنانے کا فن سکھانے کے بعدانکوشکر بجا لانے کی ہدایت فرمائی تھی۔
’’اور ہم نے اُس کو تمہارے فائدے کے لیے زرہ بنانے کی صنعت سکھا دی تھی، تاکہ تم کو ایک د وسرے کی مار سے بچائے، پھر کیا تم شکر گزار ہو؟‘‘(قرآن، سورت الانبیاء ، آیت نمبر: 80)
اے محمدؐ! ان سے کہو کہ جو وحی تمہارے پاس آئی ہے اس میں تو میں کوئی چیز ایسی نہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر حرام ہو، الا یہ کہ وہ مُردار ہو، یا بہایا ہوا خون ہو، یاسور کا گوشت ہو کہ وہ ناپاک ہے، یا فسق ہو کہ اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو پھر جو شخص مجبوری کی حالت میں (کوئی چیز اِن میں سے کھا لے) بغیر اس کے کہ وہ نافرمانی کا ارادہ رکھتا ہو اور بغیر اس کے کہ وہ حد ضرورت سے تجاوز کرے، تو یقینا تمہارا رب در گزر سے کام لینے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔قرآن، سورت الانعام، آیت نمبر: 145۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مردار، بہایا ہوا خون اور سور کے گوشت کو لفظِ ’’رجس‘‘ سے تعبیر فرماکراسکی حرمت کی تصریح کر دی۔لہٰذا معلوم ہوا کہ سورہ المائدہ ،آیت نمبر 90 کے تحت شراب ، جوا ، آستانے اور پانسے بھی ’’رجس‘‘ میں داخل ہیں جو انکی حرمت کی واضح دلیل ہے۔
اے محمدؐ، اِن سے کہو کہ میرے رب نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ تو یہ ہیں: بے شرمی کے کام خواہ کھلے ہوں یا چھپے اور گناہ اور حق کے خلاف زیادتی اور یہ کہ اللہ کے ساتھ تم کسی کو شریک کرو جس کے لیے اُس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور یہ کہ اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو جس کے متعلق تمہیں علم نہ ہو کہ وہ حقیقت میں اسی نے فرمائی ہے۔(قرآن، سورت الاعراف، آیت نمبر:33)
اس آیت میں لفظ’’الاثم‘‘کو بھی محرمات کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جبکہ سور ۃ لبقرہ ، آیت نمبر219 میں شراب اور جوئے کو ’’الاثم‘‘ نہیں بلکہ ’’اثم کبیر‘‘کہا گیا ہے۔ لہذا اگر ان دونوں آیات کا جائزہ لیا جائے تو شراب کی حرمت میں کوئی اشکال باقی نہیں رہتا۔جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اور اگر غصہ آ جائے تو درگزر کر جا تے ہیں۔(قرآن، سورت الشورٰی، آیت نمبر: 37)
جو بڑے بڑے گناہوں اور کھلے کھلے قبیح افعال سے پرہیز کرتے ہیں، الا یہ کہ کچھ قصور اُن سے سرزد ہو جائے۔(قرآن، سورت النجم، آیت نمبر: 32)
اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں اپنے پسندیدہ بندوں کی تعریف فرماتے ہوئے انکے ’’کبائرالاثم‘‘سے اجتناب کو خصوصی طو رپر ذکر فرمایا ہے۔اگر ہم غور کریں تو ’’کبائرالاثم‘‘اور ’’اثم کبیر‘‘ میں کوئی خاص فرق نہیں نظر آتا اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو شراب ’’کبائرالاثم‘‘میں یقینا شامل ہے اور ’’کبائرالاثم‘‘کی حلت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
قارئین کرام ! یہ ہے شراب کی حرمت قرآن کی نظر میں آپ نے ملاحظہ کر لیا کہ ہم نے صرف اور صرف قرآن مجید سے شراب کی حرمت کا ثبوت فراہم کیا ہے اور اس ضمن میں کسی بھی روایت کا سہارا نہیں لیا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ وہ احادیث جو شراب کی حرمت میں قرآن مجید سے پوری طرح مطابقت رکھتی ہیں انکو بھی پیش کیا جاسکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی کم سواد قرآن مجید کے’’تبیانا لکل شئی‘‘ والے دعویٰ کو پیش کر کے اعتراض کرے کہ اگر قرآن مجید میں شراب حرام ہوتی تو اسکا نام ضرور لیا جاتا چونکہ اب معاملہ ایسا نہیں ہے تو کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اسکو حرام کہا جائے۔ مگر یہ اعتراض ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ قرآن مجید میں چرس، بھنگ، کتا ، بلی ، شیر، چیتا، ہاتھی ، بندر وغیرہ کو نام لیکر حرام نہیں ٹھہرایا گیا لہٰذا انکی حرمت کا بھی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔
مگر ان حضرات کو معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن مجید اگر ان سب چیزوں کو نام لیکر حرام قرار دینا شروع کر دے تو اسکے لیے قرآن مجید کے پورے تیس پارے بھی ناکافی ہو جائیں۔اس لیے قرآن مجید نے حلال و حرام کے اصول مقرر کر دیے ہیں تاکہ ان کی روشنی میں حلال و حرام کا فیصلہ کیا جاسکے۔
(مضمون نگار امام وخطیب مرکزی جامع مسجد ملک صاحب صورہ سرینگرہیں اور ان سے موبائل نمبر 7006826398پر رابطہ کیاجاسکتا ہے۔)