کورونا وائرس سے پھیلے عالم گیر و باء نے اپنے عہد طفلی میں ہی ہلاکت خیز نتائج دکھائے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر اس وائرس کوقابو نہیں کیا گیا، جو فی الوقت کسی چیلنج سے کم نہیں ہے ،تو اس کے سنگین نتائج باری جانی نقصان اور اقتصادی خسارے تک ہی محدود نہیں ہونگے بلکہ آنے والے وقت میں دنیا کی جغرافیائی سیاست بھی تبدیل ہوتی نظر آئے گی۔
ہمارے یہاں جموں کے مقابلے میں کورونا وائرس کے کیسوں میں ہوشربا اضافہ ہورہا ہے۔ حکام کو لاک ڈائون کے سوا کوئی بھی تد بیر نہیں سوجھتی ۔ لاک ڈائون بھی ایسا جس میں بقول سینئر صحافی نصیر اے گنائی ’’سڑکیں بند ہیں مگر پارکیں کھلی،ہوٹل بند ہیں مگر سیاحتی شعبہ کھلا، دکان بند ہیں مگر دفاتر کھلے ‘‘۔ جنوبی کشمیر میں عوامی حلقے اس بات کو لیکر حیران ہیں کہ جن شہریوں کے کورونا ٹیسٹ مثبت ظاہر ہوئے اُنہیں کچھ گھنٹوں کے بعد ہی قرنطین مراکز سے چھوڑ کر پورے عمل کو مذاق بنایا گیا۔ ضلع شوپیان اور کولگام کے کئی علاقوں میں ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں جن میں کورونا مثبت ظاہر ہونے والے شہریوں کو گھومنے کیلئے آزاد چھوڑا گیا۔ انتظامی سطح کی اس مبینہ سہل انگاری کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مذکورہ اضلاع میں ایسے لاتعداد لوگ موجود ہیں جو کورونا وائرس اور اس کے پھیلائو کو روکنے کے پورے عمل کو ہی مشکوک سمجھ بیٹھے ہیں اور وہ اس کا برملا اظہار بھی کررہے ہیں۔عوامی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ لاک ڈائون کے نفاذ کیلئے جن پولیس اور فورسز اہلکاروں کو تعینات کیا جاتا ہے وہ تو خود بھی کورونا وائرس سے کافی متاثر ہیں ۔انہی اہلکاروں کو شاہرائوں، سڑکوں اور گلی کوچوں کے اندر لوگوں کی گاڑیاںچیک کرنے کیلئے تعینات رکھا جاتا ہے اور لوگوں کیلئے ماسک لگانے کو یقینی بنانا بھی انہی اہلکاروں کی ذمہ داری قرار دی گئی ہے!
پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طبی ماہرین کو سائیڈ لائن کرکے انتظامی افسران پر کورونا سے متعلق احکامات صادر کرنے کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے جس سے ماہرین اور انتظامیہ کے مابین ایک وسیع خلیج پیدا ہوئی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ماہرین عوام تک پہنچ کر اُنہیں ایجوکیٹ کریں۔ اس سے عوام کے اندر جانکاری پھیلے گی اور اُن کے خدشات کا بھی ازالہ ہوگا۔بے شک عوام کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ اُنہوں نے اول روز سے ہی کورونا وائرس کو کبھی ’سازش ‘تو کبھی ’پروپگنڈا‘ قرار دیکر صورتحال کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اُنہیں جب بھی لاک ڈائون کیلئے کہا گیا تو اُنہوں نے اُس پر سختی سے عمل کیا۔ سڑکیں بند کی گئیں تو اُنہوں نے گھروں کے اندر بیٹھنا ہی مناسب سمجھا ۔لیکن اس بات کا کیا کیا جائے کہ جب سڑکیں کھلی ہیں اور سرکاری دفاتر بھی کام کررہے ہیں تو لوگوں کو کیسے گھروں کے اندر بیٹھنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے؟ہاں، عوام کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں غیر ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے لیکن ان تدابیر کو عملی جامہ اُسی وقت پہنایا جاسکتا ہے جب ماہرین اس کی تلقین کریں۔یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ کشمیر میں معلوم وجوہات کی بنا پر انتظامی افسران اور عوام کے مابین عدم اعتماد کا ایک موٹا پردہ حائل ہے اس لئے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کیلئے فوری طور پر طبی ماہرین کو عوامی حلقوں کے قریب لاکراحتیاطی تدابیر کے بارے میں جانکاری فراہم کرنی چاہئے۔
عالمی ادارۂ صحت سے لیکر مقامی ماہرین تک اس بات کو لیکر متفق ہیں کہ دنیا کوکورونا وائرس کے ساتھ ہی جینے کی عادت ڈالنی ہوگی۔بعض طبی ماہرین کورونا وائرس کے بارے میں یہاں تک کہتے ہیں کہ ویکسین تیار ہونے کے بعد بھی دنیا کورونا وائرس سے پاک نہیں ہوسکتی ہے۔ ایسا ہے تو ہمارے یہاں کی انتظامیہ کو ان اہم باتوں کو ملحوظ رکھ کر ہی پالیسیاں ترتیب دینی ہونگیں۔اُنہیں ضلع اور تحصیل سطحوں پر ایسے مستقل مراکز قائم کرنے چاہیں جو وائرس کا شکار لوگوں سے مقامی طور ہی نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ان مراکزمیں ماہرمعالجین کی تعیناتی سے لوگوں کے اعتماد کو بحال کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔
کورونا وائرس کی وجہ سے صرف ارض کشمیر ہی متاثر نہیں ہے بلکہ یہ سنگین طبی بحران ایک نئی دنیا بنا رہا ہے جس کو ’مابعد کورونا دنیا‘ کہا جاسکتا ہے۔عالمی شہرت یافتہ صنعت کار بل گیٹس نے2015میں ’ابولا وائرس‘ کے موضوع پر بات کرتے ہوئے خبردار کیا تھا’’اس وقت ہم خوش قسمت تھے کہ یہ وائرس’ابولا‘ دنیا کے اُس حصے(مغربی افریقہ) میں ظاہر ہوا جو الگ تھلگ ہے۔اس کیخلاف دنیا وقت پر متحرک ہوئی اور سب سے بڑھ کر ابولا بیماری کسی مادہ سے پیدا ہوئی تھی۔ اگر ہم تیار نہیں ہوئے تو اگلی بار کروڑوں لوگوں کی زندگیاں جاسکتی ہیں اور ان ہلاکتوں کے بھاری اقتصادی و مالی اثرات ہونگے۔وہ بیماری ہوا سے بھی پھیل سکتی ہے اور اُن لوگوں کو بھی لپیٹ میں لے سکتی ہے جو صرف ہوائی جہازوں میں سفر کرتے رہتے ہیں‘‘۔بل گیٹس نے جس صورتحال کی پیش گوئی کی تھی ،اس وقت پوری دنیا کو وہی درپیش ہے۔
اس سے بھی پہلے امریکی سی آئی اے کی ایک رپورٹ 2009میں شائع ہوئی تھی۔اس رپورٹ کا نام ’2025میں دنیا کی حالت‘ تھا اور اس میں درج ہے’’اگر کوئی وبائی بیماری پھوٹ پڑتی ہے ،تو اس کا آغاز ایک گنجان آبادی والے علاقے سے ہوگا ،جیسے چین کا کوئی بازار یا جنوبی ایشیاکا کوئی اور خطہ،جہاں لوگ مال مویشیوں کے قریب زندگی گذارتے ہیں‘‘۔مذکورہ رپورٹ میں امریکی خفیہ اہلکار ایک ایسے وائرس سے خوفزدہ تھے جو پھیپھڑوں پر حملہ کرکے سانس لینے میں تکلیف پیدا کرے گا۔
دنیا کی کئی اور معتبر آوازیں بھی اسی طرح کی صورتحال کیلئے اٹھ کر عالم کو خبر دار کر رہی تھیں جن میں ورلڈ بینک بھی شامل تھا جس نے واضح طور پر دنیا کوطبی بحران کیلئے خبردار کیا تھا۔عالمی ادارہ صحت نے بھی ’’بین الاقوامی صحت ایمر جنسیز‘‘ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے 2009میںH1N1،2014میں ابولا،2016میں ذیکا اور پھر2019میں ابولا کا حوالہ دیا تھا۔
تو پھر کیا وجہ ہے کہ کورونا وائرس نے پوری دنیا کو جیسے گہری نیند میں آدبوچا اور سائنس و ٹیکنالوجی پر فخر کرنے والی دنیا بے بس ہوکر رہ گئی؟حالانکہ عالمی اداروں نے پہلے ہی طبی بحران کیلئے کئی بار متنبہ کرکے رکھا تھا۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ طبی شعبہ دنیا کے سامنے کبھی ترجیح نہیں رہا ہے کیونکہ اس کواقتصادیات سنوارنے اور نئی سیاسی پالیسیاں ترتیب دینے سے ہی فرصت نہیں ملی ہے۔دنیا کو 2008میں اقتصادی بحران کا سامنا ہوا تو رد عمل کے طور جی20کا جنم ہوا۔بعد ازاں دنیا کے سامنے جو سب سے بڑے مسائل رہے اُن میں موسمیاتی تبدیلی کو لیکر ’پیرس ایگریمنٹ ‘وغیرہ شامل تھے ۔دنیا کی چوکیداری کرنے والے ممالک کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک اَن دیکھا وائرس اُن کی اس طرح ایکڑی نکال کے رکھ دے گا۔ایسے سبھی ممالک ،چاہے وہ مغرب میں ہیں یا ایشیا میں، کو اس بات کی غلط فہمی تھی کہ اُنہوں نے طبی شعبے میںحتمی ترقی حاصل کررکھی ہے اور یہ بیماریاں اور وائیرس وغیرہ تو اُن ممالک کا مقدر ہے جن کی دولت پر اُنہیں جیسے فطری حق حاصل ہے۔لیکن جب کورونا وائرس حملہ آور ہوا تو دوسری اور تیسری دنیا کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک بھی بے بس و لاچار نظر آنے لگے ہیں۔
کتنی عجیب بات ہے کہ جو دنیا سیاست اور تجارت کی ذلفیں سنوارنے میں لگی تھی وہ نہ صرف طبی شعبے میں لاچار نظر آرہی ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس کی سیاست اور اقتصادیات بھی بگڑی ہوئی ہے۔ دنیا بھر کی تجارت ماند پڑی ہے اور سیاست بھی خرافات ثابت ہوئی ہے۔ با الفاظ دیگر دنیا جس ترقی پر نازاں تھی اور جس کا زور و شور سے چرچا تھا وہ بے بنیادپروپگنڈا کے سوا کچھ نہیں تھا۔
پوری دنیا شاید اب یہ بات سمجھ گئی ہے کہ وہ ایک دوسرے کا ساتھ دے کر ہی بحرانی صورتحال کا مقابلہ کرسکتی ہے لیکن اس کیلئے شرط یہ ہے کہ دنیا کے طاقتور ممالک کمزور ممالک کا وجود اُن کے حقوق کے ساتھ تسلیم کریں۔ امریکہ، چین اور روس کے مابین ٹکرائو موجودہ دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور اسی ایک مسئلے کی وجہ سے بین الاقوامی ادارے جیسے اقوام متحدہ اور عالمی ادارہ ٔ صحت بھی ناکارہ ہوکر رہ گئے ہیں۔عالمی ادارے ذمہ دار ممالک کے عدم تعاون سے بیکار ہوکر رہ گئے ہیں جس کی وجہ سے عالمی ادارۂ صحت، نہ اقوام متحدہ اور نہ اس سے منسلک چھوٹے بڑے شعبے مطلوبہ نتائج حاصل کررہے ہیں۔ان اداروں کی حقیقت اب محض نام کی رہ گئی ہے اور وہ دن دور نہیں ہے جب اقوام متحدہ’ لیگ آف نیشنز ‘کی طرح آپ اپنی موت مرے گا۔لیکن کیا اس کاکوئی نعم البدل پیدا ہوگا؟یہی وہ سوال ہے جس پر موجودہ دنیا کو سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں چین کے ساتھ ساتھ بعض ایشیائی و یورپی ممالک کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔
آنے والے وقت میں کورونا کی وجہ سے جغرافیائی سرحدیں تبدیل ہوں یا نہ ہوں، لیکن ہمارے یہاں کے لوگوں کی زندگیاں پہلے ہی اس حد تک تبدیل ہوئی ہیں کہ سماجی سرگرمیاں معطل ہیں اور لوگ آہستہ آہستہ اپنے ہی خول کے اندر دھنسے جارہے ہیں۔کورونا وائرس ’سازش‘ ہے یا’پروپگنڈا‘؟ فی الوقت حقیقت یہ ہے کہ ہمارے یہاں کے طبی مراکز بھر گئے ہیں اور معالجین ہاتھ کھڑا کررہے ہیں۔ صورتحال کو ملحوظ رکھتے ہوئے احتیاطی تدابیر ہی کارگر ثابت ہوسکتی ہیں تاکہ کورونا پھیلائو کے آنے والے کم سے کم دو مراحل میں اس کو محدود سے محدود تر کیا جاسکے۔