کورونا وبائی مرض کے باعث زندگی کے تمام تر شعبے حد درجہ متاثر ہوئے ہیں۔ اس وبائی مرض نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر پریشانی کی زنجیروں میں کَس کر جھکڑ لیا ہے۔کورونا وائیرس جیسے وبائی مرض کے چلتے سال رواں میں ہونے والی شادی کی تقریبات منسوخ کروائی گئیں۔وہی بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے شادی کی تقاریب نہایت ہی سادگی اور خوشی کے ساتھ انجام دیں۔عام لوگوں کی زبان سے یہی سننے کو ملا کہ جنہیں بہو کے روپ میں بیٹی چاہیے تھی، انہوں نے بناء کسی دکھاوے ،بے جا رسم و رواجوں کو اپنائے بغیر نکاح کی تقریب انجام دی۔اب جن کو بہو کے روپ میں نوٹ چھاپنے والی مشین چاہیے تھی ،انہوں نے تقاریب منسوخ ہی کر دیں۔ ہمارا سماج ہزاروں ایسے بے جا رسم و رواجوں سے بھرا پڑاہے جنہوں نے ایک فرد سے سماج کا ایک حساس باشندہ ہونے کا حق کہیں نہ کہیں چھین لیا ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ اگر اس نے ان رواجوں کی تکمیل نہیں کی تو شاید وہ سماج میں عزت کے لایق نہ رہے ۔گویا اس میں کہیں نہ کہیں دکھاوے کا عنصر آ جاتا ہے۔جہاں صرف دس روپئے خرچ کرنے چاہئیں، وہاں وہ ہزاروں کو دھول کی طرح اُڑا دیتا ہے ۔بناء یہ سوچے سمجھے کہ اس سے آس پاس کے ماحول پر یا ہمارے غریب طبقے سے تعلق رکھنے والوں پر کون سی قیامت ٹوٹ پڑے گی۔
ان رسموں رواجوں کو اپنانے کی سکت جو لوگ نہیں رکھتے ہیں، اکثر ان کی بیٹیاں، جن کی عمر شادی کی ہو چکی ہوتی ہے، بناء شادی کے رہ جاتی ہیں اور یہاں تک کہ ان کی عمر نکل جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کے والدین ذہنی پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں اور اند ہی اندر گھٹ گھٹ کے مر رہے ہوتے ہیں۔کبھی کبھی اتنی استطاعت نہ ہوتے ہوئے بھی غریب باپ اپنے آپ کو گروی رکھ کے،اپنا اثاثہ بیچ کے مجبوراََ ان بے جا رسم و رواجوںکو اپناتا ہے محض اپنی بیٹی کا گھر بسانے کے لئے۔
کورونا جیسے وبائی مرض کے چلتے جہاں لوگوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا،وہیں دوسری جانب بہت سے زندہ دل لوگوں نے اپنی شادی میں خرچ ہونے والی اشیاء جیسے مسالہ جات،تیل،پانی کی بوتلیں،نمک،چاول ضرورت مندوں میں تقسیم کر دئے اور اپنی شادی کی تقریب نہایت ہی سادہ طریقے سے انجام دی۔نہ کوئی دکھاوا اور نہ ہی بے جا رسم و ورواج۔
نکاح رسول پاک ﷺکی سنت ہے اور انُ کی سنت کو اپناناگویا اُن سے محبت ہے۔ارشاد پاکﷺہے کہ ’’نکاح میری سنت ہے جو کوئی میری سنت پر عمل نہ کرے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔ہمارے رسولِ پاکﷺ نے ہمیشہ سادگی سے زندگی گزاری اور دکھاوے سے بچنے کی لوگوں کو تلقین کی ۔
کورونا وبائی مرض کے چلتے جس طرح سے لوگوں نے سادگی کو اپنایا،اگر اسی طرح سے بہت پہلے سے لوگ بے جا رسم و رواجوں کو اہمیت نہ دیتے تو نہ جانے کتنے ہی غریب گھروں کی بیٹیوں کے گھر آباد ہو چکے ہوتے۔لوگ خود کو فضول خرچی سے بچاتے۔سماج کو بدلنے میں انسان کا ایک اہم رول ہے، خاص کر ایک نوجوان کا ،جو اگر چاہے تو اس تبدیلی کو یقینی بناسکتا ہے ۔
مانا کہ حالات اس وقت ہم سے کچھ اور ہی تقاضا کر رہے ہیں ۔انسان اگرچہ حالات کے ہاتھوں کہیں نہ کہیں بندھا ہوا ہے لیکن یہ حالات ایک انسان کو کئی ایسے کام یا کئی ایسی چیزیں کرنے سے روک رہی ہیںجس سے اُس پر اور سماج پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ وقت اور حالات دونوں بدل تو جائیں گے لیکن شاید کہ لوگ نہ بدلیں ۔کم سے کم کچھ ایسی تبدیلیاں سماج میں ضرور لائیں جس سے سماج بے جا رسم و رواجوں ،دکھاوے سے کم سے کم بچ جائیں اور سب سے اہم بات شادی کو سادگی سے انجام دیں تاکہ وہ گھر جن میں خوشیاں کبھی کبھار دستک دیتی ہیں، وہ گھر بھی آباد ہو جائیں۔
رابطہ:مانسبل صفاپور