ہزاروں سال پہلے کی بات ہے نیرو روم کا شہنشاہ ہوا کرتا تھا۔ ایک رات جب وہ اپنے شاہی محل کی کھڑکی میں بانسری بجانے میں محو تھااُسی لمحے روم بھی جل رہا تھا۔
تاریخ کا یہ واقعہ پڑھ کر میں اس قدر متاثر ہوا کہ میں اپنے بچپن کے اُس زمانے میں لوٹ آیا جب میں بارہویں سے تیرہویں جماعت میں جارہا تھااور میں سائنس کے مضامین چھوڑ کر تاریخ کی جانب راغب ہورہا تھا۔ جب میری تعلیمی زندگی کا ایک نیا سفر شروع ہوا، اُس وقت میں خواب میں یقین کو تلاش کررہا تھا۔ تیرہویں جماعت میں مجھ پر یہ ظاہر ہوا کہ زندگی اُلجھنوں کا پلندہ ہے کیونکہ پہلی بار جب میں اپنے عزیز کی ناراضگی کے بوجھ تلے دب گیا، بلا سوچے سمجھے زندگی سے بھاگنے لگا۔ ذہن کچا تھا اور شاید یہ نہ سمجھ پایا تھاکہ زندگی کتنی قیمتی ہے، کس قدر انمول ہے۔
شہر کے مشہور معالجوں نے پھر زندگی کے حوالے کردیا۔ اُس دن مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ ماں کا پیار اور شفقت کسی ملاوٹ کے بغیر ہوتی ہے۔ جب میری زندگی کی کتاب کے اوراق اُلٹنے لگے اور میرا وقت بدلنے لگا تو میں نے اپنے آپ کو سنہرے وقت کی آغوش میں پایا۔ یہاں سے میری زندگی کا وہ دور شروع ہوا جو نہ صرف اہم تھا بلکہ خوبصورت بھی۔
جب میں نے پہلی بار اُس کو دیکھا مجھے کچھ یوں لگا کہ جیسے رات کوسورج نکل آیا ہو اور اُس کی روشنی مجھے چکا چوند کر گئی ہے۔ اُس کے حسن کے سحر سے کبھی آزاد ہی نہ ہوسکا۔مجھے پہلی بار یہ احساس ہوا کہ میرے لئے حالات نے میرے راستے بند کئے ہیں۔ ایسے ہی لمحوں میں حقیقت بھی خواب بن کر رہ جاتی ہے۔
چار سال ایسے گزرگئے جیسے کسی خوبصورت پھول کی خوشبو چھو کر گئی ہو۔ مجھے معلوم نہیں کہ وہ خوشبو کب میرے اندر رچ بس گئی۔ وہ خوشبو میری زندگی کا سب سے بڑا اثاثہ بن گئی۔
ہم بہت کچھ سوچنے لگتے ہیںاور ہم سےیہ کہاجاتا ہے کہ روزگار کے بارے میں سوچو۔ دنیا داری کے بارے میں سوچو۔ لیکن کوئی ہم سے ہماری یادیں نہیں چھین سکتا۔
دنیا داری ایک ایسی اُلجھن ہے کہ آپ اس سے کتنا ہی دور بھاگنے کی کوشش کریں پھر بھی آپ اس میں اُلجھتے جاتے ہیں۔ دنیا داری نبھاتے نبھاتے میں ایک ملک سے دوسرے ملک بھاگتا رہا۔ یہ الگ بات ہے کہ میں اپنے آپ سے بھاگتا رہا۔ بہت بھاگتا رہا۔
پھر جب آپ سے کہا جاتا ہے کہ دنیا میں آپ کی رفاقت اور شفقت کا جوسایہ تھا وہ چلا گیا۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب اولاد عمر کے کسی بھی پڑائو پرہو ،پھر بھی وہ یتیم ہوجاتی ہے۔ وقت کسی کے لئے نہ ٹھہرتا ہے نہ وفا کرتا ہے۔ دنیاداری نبھاتے نبھاتے جب میںتھک جاتا تھا تو میں خود سے کہتا تھا ۔ ۔
’’کچھ دیر کے لئے میں اپنے آپ کے لئے جینا چاہتا ہوں‘‘
میرے چاہنے کے باوجود بھی ایسا نہیں ہوتا تھا۔ میں پھر ایک باردنیاداری میں جٹ گیا۔ دنیاداری مختلف اور عجیب صورتیں بنا کر سامنے اُبھر کر آتی ہے۔ ہمارے بزرگ ہم سے یہ کہتے ہیں کہ ہماری اولاد ہم کو پیاری ہے۔ ہماری اولاد کو اپنی اولاد پیاری ہے۔ لیکن یہ حقیقت آگے جاکر میرے حق میںغلط ثابت ہوگئی ۔
دنیاداری ایک ایسا پہیہ ہے جس سے کامیابی بھی ملتی ہے اور ناکامی بھی۔ دنیاداری نبھانے کے لئے ہمت کا ساتھ ہونا
بہت ضروری ہے۔
زندگی میں ایک ایسا وقت آتا ہے کہ جو کوئی بھی آپ کے سب سے قریب ہوتا ہے وہی ہاتھ کھڑےکردیتاہے ۔ پھر آپ کی ہمت لڑکھڑانے لگتی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب آپ اپنے آپ سے کہتے ہیں کہ کوئی آپ کے ساتھ کھڑا رہے یا نہ رہے پھر بھی ہمت کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا ہے؟۔ لیکن دوبارہ آپ، اپنے آپ سے سوال کرتے ہیں ۔ ۔ ۔
’’یہ سب کس لئے۔۔ ؟ کس کے لئےہے۔۔۔۔؟‘‘
انسان کے لئے وہ وقت سب سےزیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے جب وہ جان جاتا ہے کہ زندگی بھر جو محنت اس نےکی ہے اُس کی نہ کوئی قدر اور نہ کوئی مول ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ جو کچھ تم ہو اُس میں تمہاری قابلیت کا ہاتھ نہیں ہے ۔ ہماری اوقات ، یہ سن کر میں اکثر اپنے آپ سے پوچھنے لگتا تھاکہ ۔ ۔ ۔’’میں ساری زندگی کیا کرتا رہا۔ نہ میری کوئی اوقات ہے نہ کوئی پہچان ہے؟‘‘
اُس دن میری آنکھوں میں آنسوںبھی نہ آئے ۔ میں اپنی خشک آنکھوں سے خود کو ڈھونڈتا رہا۔ عمر بھر جو دنیاداری کی ایک عمارت کھڑی کی تھی وہ ایک لمحے میں زمین بوس ہوگئی۔ ماحول کچھ ایسا بنا کہ میں کئی سال تک ایک کمرے میں قید ہوکر رہ گیا اور اس قیدتنہائی نے مجھے ایک ایسی دنیا میں پہنچا دیا جہاں سے میں دنیا داری کی وجہ سے بہت دور ہوگیا ۔ ایسےحالات میں ایک ایسی آواز اُبھرتی ہے جو مجھے تسلی و تسکین دیتی ہے اور ہمت ٹوٹنے نہیں دیتی۔
’’ڈیڈ دل پر نہ لو۔ ایسا ہوتا ہے‘‘
میں کبھی اُسے یہ نہ بول سکا۔
’’بیٹے ۔ ۔ ۔ ڈیڈ ایسا نہیں کرتے تھے‘‘
جب اُن کو احساس ہوتا تھاکہ جو ان کے سب سے قریب ہےاور وہ اُن سے بہت دور چلا گیاہےتو وہ اپنے ضمیر کو یہ کہہ کر تسلی دیتے تھےکہ وہ ان کے لئے شاہجہاں کی طرح ایک تاج محل بنائیں گے۔
جب ممتاز دم توڑ رہی تھی تو اس نے شہنشاہ سے پوچھا ۔ ۔
’’آپ کیسے میرے بغیر زندگی گزارینگے ۔ ۔ ؟‘‘
شہنشاہ نے جواب دیا ۔ ۔ ۔
’’ہم اپنی باقی زندگی اپنی محبت کا یادگار محل بنانے میں گزاریں گے‘‘
شاہجہاں نے اپنی باقی ماندہ زندگی وہ مقصد حاصل کرنے میں وقف کردی۔
لیکن کہنے اور کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ وہ صرف کہتے رہے ۔ جانے کا وقت آیا تو اپنا خواب کسی اور کے حوالے کرگئے۔
اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ایک خواب تھا ۔ اندھیرے کے بعد دن کی روشنی پر ہر ایک کا حق بنتا ہے۔میں یہ سوچ کے بیٹھا تھاکہ یہ نہ ختم ہونے والا اندھیرا ہے۔ لیکن جب سویرا ہوگیا ، خواب، خواب نہ رہے۔ سب کچھ حقیقت میں تبدیل ہوگیا۔
ہر موڑ پر تسلی دینے والی آواز کہتی رہی
’’ڈیڈ ! ۔ ۔ یہ تو آغازہے‘‘
جتنا چاہا تھا اُس سے بہت زیادہ پایا۔ لیکن پھر بھی عمر کے آخری پڑائو پر مجھے یہ خیال ستاتا رہتا ہے ۔ وہ وقار جو برسوں پہلے مجھ سے چھین لیا گیا تھا۔اُسے واپس لانا ہے ہر قیمت پر واپس لانا ہے۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ مجھے اس کے لئے شیشے کے سمندر میں پانی کی دیواریں کھڑی کرنی ہیں۔
���
سرینگر کشمیر
رابطہ:۔9419012800