گزشتہ دنوںیونین پبلک سروس کی جانب سے منعقد کئے گئے کل ہند مسابقتی امتحان کے نتائج کا اعلان کیاگیا جس میں کامیاب قرار پائے 829امیدوار وں میںسے 16کا تعلق جموںوکشمیر اور 2کا تعلق لداخ سے تھا۔جموںوکشمیر اور لداخ کے18امیدواروں کی اس ملک گیر وقاری امتحان میں کامیابی یقینی طور پر اطمینان بخش ہی نہیں بلکہ باعث مسرت بھی ہے ۔ان نتائج سے ایک بار پھر ظاہر ہوگیا کہ سیول سروسز کے کل ہند مسابقتی امتحانات کے تئیں جموںوکشمیر کے امیدواروں کی دلچسپی کم نہیںہوئی ہے بلکہ یہ بتدریج بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔حالیہ برسوں میں سیول سروس امتحانات کے تئیں جموںوکشمیر کے نوجوانوں کی دلچسپی کافی حد تک بڑھ گئی اور یہ اسی کا نتیجہ کا ہے کہ اب ہر سال 20کے آس پاس مقامی نوجوان اس وقاری امتحان میں کامیاب ہوکر سیول سروس جوائن کرلیتے ہیں ۔
ہر فرد کو اپنی زندگی چننے اور اس کو اپنے حساب سے جینے کا حق میسر ہے ۔شاہ فیصل نے جب انڈین ایڈمسٹریٹو امتحان میں کامیابی حاصل کی تھی تو پورے جموںوکشمیر میںخوشی کی لہر دوڑ گئی تھی کیونکہ وہ پہلی پوزیشن کے ساتھ کامیاب قرار پائے تھے۔اس کے بعد اصل میں سیول سروسز کے تئیں مقامی نوجوانوںکی دلچسپی بڑھنے لگی اور اُنہیں لگا کہ جب شاہ فیصل پہلی پوزیشن حاصل کرسکتے ہیں تو وہ یہ امتحان پاس کیوں کرسکتے ۔گزشتہ کئی سال اس حوالے سے کامیابی کی ایک تاریخ رقم کرچکے ہیں اور نہ صرف لڑکوں بلکہ جموںوکشمیر کی لڑکیوں نے بھی اس ملکی سطح پر سیول سروسز امتحان میں اپنی صلاحیتوں کالوہا منوایا تاہم جب شاہ فیصل نے بیروکریسی چھوڑ کر سیاست جوائن کی تو ایسا ماحول بنایا گیاتھا کہ اب شاید کشمیر کا کوئی جو ان اب سیول سروسز کی جانب نہیں دیکھے گا لیکن وقت نے ثابت کردیا کہ جو جوش اور ولولہ شاہ فیصل نے یہ امتحان کریک کرکے نوجوانوں میں پیدا کیاتھا ،وہ ان کی جانب سے سیول سروسز چھوڑنے کے باوجود ختم نہیں ہوا ہے اور نوجوان مسلسل سیول سروسز میں قسمت آزمائی کررہے ہیں۔
اب جس انداز سے جموںوکشمیر کے نوجوان اس امتحان میں کامیابی کیلئے باضابطہ کوچنگ لے رہے ہیں اور کوچنگ کے اس عمل میں ہمارے سیول سروسز آفیسر نئے نوجوانوں کی جس طرح حوصلہ افزائی کررہے ہیں،وہ واقعی باعث ِ تحریک ہے اور اس طرح کے رجحان سے یقینی طور پر ایک تحریک پیداہوچکی ہے جو ہر گزرنے والے د ن کے ساتھ زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو سیول سروسز کے ساتھ جوڑ رہی ہے۔بیروکریسی میں طاقت ہے اور بیروکریسی میں مقامی قابل ،ذہین اور ایماندار آفیسر ہوں تو عوامی شکایات کا ازالہ ہوجاتا ہے اور لوگوں کو در در کی ٹھوکریں نہیں کھانا پڑتی ہیں۔انڈین ایڈمنسٹریٹیو سروس آفیسر فیصلہ ساز اداروں سے جڑجاتے ہیں اور ان کی تعیناتی ایسی جگہوںپر ہوتی ہے جہاں سماج اور ملک و قوم کیلئے بڑے بڑے فیصلے لئے جاتے ہیں۔شاید جموںوکشمیر کا نوجوان بھی سمجھ چکا ہے کہ اُسے اپنی قابلیت خواہ مخواہ کے جھمیلوں میں پڑ کر ضائع کرنے کی بجائے فیصلہ سازی کے عمل میں شامل ہونا چاہئے ۔یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد سیول سروسز کے ساتھ منسلک ہورہی ہے اور ان امتحانات میںقسمت آزمائی کرنے والوں کی تعداد میں ہر سال کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔
بلا شبہ سسٹم کے ساتھ شکایات ہوسکتی ہیں لیکن جس انداز میں کشمیری نوجوان اپنی صلاحیتوں کو اب چینلائز کرنے لگا ہے ،وہ امید افزا ہے ۔تعلیم ہی قوموں کی تقدیر بدلتی ہے اور تعلیم ہی وہ قوت ہے جو انسان کو عظمت اور کامیابی کی بلندیوں تک پہنچا دیتی ہے۔کشمیری نوجوانوں میں قابلیت کی کمی نہیں ہے ۔ان میں بے پناہ صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ۔ضرورت تھی تو ان صلاحیتوں کو صحیح سمت میں بروئے کار لانے کی ۔لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ اس توانائی کو صحیح سمت مل چکی ہے ۔حالیہ یوپی ایس سی امتحان میں18مقامی نوجوانوں کی کامیابی دیگر نوجوانوںکیلئے ایک واضح پیغام ہے کہ وہ ہمت کا کمر باندھیں تو کچھ ناممکن نہیں ہے ۔مسابقت آرائی آپ کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کردیتی ہے ۔مسابقت سے ڈرنا نہیں ہے بلکہ مسابقتی عمل میں شامل ہونا ہے کیونکہ جتنا زیادہ آپ مسابقت آرائی میں حصہ لیں گے ،اُتناہی آپ کے لئے مواقع کھل جائیں گے۔
جموںوکشمیر کے نوجوان کو بھی مسابقت سے خوف کھانے کی بجائے اس میں شامل ہوناہے اور آثاروقرائن بتا رہے ہیں کہ ملکی سطح کی مسابقت آرائی کے حوالے سے جس خوف کے خول میں اس نوجوان کو دھکیلا گیاتھا ،وہ اس سے باہر آچکا ہے اور جان چکا ہے کہ اس کی منزل خوف کا وہ خول نہیں بلکہ پورے ملک کی سرحدیں ہیں جن کے اندر وہ اپنی قسمت آزمائی کرسکتا ہے اور اپنی صلاحیتوں سے جموںوکشمیر کا نقشہ بدل سکتا ہے۔نوجوانوںکو چاہئے کہ وہ اسی جذبہ کے ساتھ آگے بڑھیں گے اور فیصلہ سازی کے عمل میں زیادہ سے زیادہ شامل ہوجائیں کیونکہ یہاں پہنچ کر ہی و ہ اپنے خطہ کی نئی تقدیر لکھ سکتے ہیں۔