گزشتہ دنوں ایک غیر سرکاری انجمن کی رپورٹ میںبچوں کے مسائل کی جو منظر کشی کی گئی ،وہ انتہائی بھیانک ہے اور یقینی طور پر وہ منظر کشی سماج کے ہر فرد کو اپنا محاسبہ کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔یہ کس قدر افسوسناک امرہے کہ جن نازک ہاتھوں میں قلم اور کتابیں ہونی چاہئیں تھیں ان میں کارخانوں کے اوزار تھما دیئے گئے ہیں۔محققین کا کہنا ہے کہ جموںوکشمیرخاص طور پر وادی میں بچوں کو تعلیم حاصل کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا ہے جبکہ اقتصادی مسائل کی وجہ سے چھوٹے بچے کمائی کی مشینوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ان محققین کے مطابق اگر چہ جموںوکشمیر کی سطح پر سرکاری طور صرف 4900بچے مزدوری کی چکی میںپسے جا رہے ہیں تاہم غیر سرکاری سطح پر ان کی تعداد تین لاکھ کے قریب ہوسکتی ہے۔یہ اعدادوشمار انتہائی پریشان کن ہیں کیونکہ بچے قوم کا مستقبل ہوتے ہیں اور یہی روزگار کی تلاش میں اپنا بچپن کھودیں تو سماجی ڈھانچہ تہہ و بالا ہونے کا بھرپور احتمال ہے۔
مشقت اطفال پر قابو پانے کی صدائیں سیاسی اور سماجی رہنمائوں کے گلیاروں میں کافی دنوں سے گونج رہی ہیں، لیکن ان پر عمل کب ہوگا، اس کے بارے میں کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ اگر بچے مستقبل کے ستارے ہیں تو ان کے ستارے گردش میں کیوں ہیں، اگریہی بچے ملک و قوم کا مستقبل ہیں تو پھر مستقبل کو تانباک بنانے کی کوششیں کیوں نہیں کی جاتیں؟ ۔ ان غریب معصوم بچو ں کو تعلیم یافتہ بنانے کی کروڑوں روپے کی سکیمیں ان بچوں کا منہ چڑارہی ہیں۔ بچوں کو اسکول پہنچانے اور ان کو تعلیم دلانے کے لئے کروڑوں سرکاری روپے پانی کی طرح بہائے جارہے ہیں، لیکن نوکر شاہی اور سرکاری محکموں کے افسران تعلیمی مافیائوں کے ساتھ مل کر یہ روپے ہضم کررہے ہیں۔ سرکار کو فرضی اعدادوشمار اور ترقی کی رپورٹیں بھیج کر یہ افسران آنکھیں بندکرکے بیٹھ جاتے ہیں۔ ہزاروں بچے بچپن دیکھے بغیرہی بڑے ہورہے ہیں۔ بھوک مٹانے کیلئے بغیرپڑھے لکھے اندھیروں میںان کا بچپن گم ہورہاہے۔ہرسال رسمی طورپر پنڈت جواہرلعل نہرو کا یوم پیدائش یوم اطفال کے نام سے منایا جاتا ہے، لیکن کیا کبھی کسی نے اس دن یہ سوچا کہ یہ سیکڑوں اور ہزاروں بچے اپنا بچپن گزارے بغیر ہی بڑے ہوجاتے ہیں۔معصوم سی عمر اور پڑھنے لکھنے کھیلنے کودنے کی عمر میں ان کے ننھے ہاتھوں میں اوزار تھمادیے جاتے ہیں یا ہوٹلوں اور دکانوں پرمزدوری کرنے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔
سرکار کی سکیموں پر اگر نظر ڈالیں توملک میں ہر سال تقریباً 150ارب روپے پرائمری تعلیم پر خرچ کئے جاتے ہیں تاہم اس کے باوجود بھی بچوں کا تعلیمی اداروں کی طرف رخ نہ کرنا تشویشناک ہے اور یہ اس بات کی جانب واضح اشارہ ہے کہ ایسی مجبوریاں بھی ہیں جو ان قسمت کے ماروں کو مفت تعلیم کے حصول سے محرو م رکھ رہی ہیں۔ ایسے میں حکومتی سطح پر یہ اصطلاح متعارف کرانے کی کوششیں کی جارہی ہیں کہ وہ بچے مشقت اطفال کے زمرے میں نہیں آتے ہیں جو اپنی مرضی سے کارخانوں ، گھروں اور ہوٹلوں کے علاوہ دیگر جگہوں پر کام کرتے ہیں۔ اگر یہی قانونی اصطلاح بنی تو بچہ مزدوری کا تصور ہی ختم ہوجائے گا۔
یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ سرکار کو آج تک یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ جموں وکشمیر کو کتنے یتیموں کا بوجھ ڈھونا پڑرہا ہے ۔جب اعدادوشمار ہی نہ ہوں تو بھلا پالیسی بنے تو کیسے۔یہی حال بچہ مزدوری کے حوالے سے بھی ہے ۔لیبر محکمہ تو موجود ہے لیکن اس محکمہ کے حکام کو کبھی اتنی فرصت ہی نہیں ملتی کہ وہ ایک ٹھوس سروے کرواتے کہ جموںوکشمیر میں کتنے بدنصیب بچے اس دلدل میں پھنس چکے ہیں تاہم یہ امر خوش آئند ہے کہ غیر سرکاری سطح پر اس حوالے سے کسی حد تک کام ہوا ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق جہاں یتیم بچوں کی تعداد80ہزار کے قریب ہے جن میں سے تقریباً60ہزار بچوں کے والدین شورش کے دوران مارے گئے ہیں وہیں بچہ مزدوری کے دلدل میں پھنسے نونہالوں کی تعداد3لاکھ کے قریب ہے ۔ان اعدادوشمار سے صرف نظر کرکے سیکریٹریٹ کے آرام دہ کمروں میں بچوں کی بہبود کے حوالے سے پالیسیاں مرتب کی جائیں تو کچھ بدلنے والا نہیں ہے ۔بچوں کی بہبود کے حوالے سے تین محکمے ذمہ دار ہیں جن میں سماجی بہبود ،تعلیم اور لیبر محکمہ شامل ہیں اور جب یہ تینوں محکمے آپسی تال میل پیدا کرکے حقیقی معنوں میں بچوں کی خوشحالی کا بھیڑا اٹھالیں تو کوئی مشکل نہیں کہ ہمارے کل کو حال کی بھول بھلیوں سے نکلنے کا کوئی راستہ مل سکے ورنہ اگر یہی پہلو تہی جاری رہی تو ان کا مستقبل تو ان بھول بھلیوں میں گم تو ہو ہی جائے گا لیکن وہ اپنے ساتھ اس قوم کے مستقبل کو بھی دائو پر لگا کر جائیں گے اور پھر صرف سوالات ہونگے جن کے ہمارے پاس جوابات نہیں ہونگے ۔