گوکہ گزشتہ ایک برس کے دوران بہت کچھ بدل گیا لیکن لگتا ہے کہ جموںوکشمیر کی انتظامیہ بدلنے کو تیار نہیں ہے ۔روایت پسندی نے انتظامیہ کو ا سقدر جکڑ لیا ہے کہ پوری انتظامیہ سر تا پا اس میں الجھ چکی ہے اور اختراعی صلاحیت جیسے مفقود ہوچکی ہے ۔اگر ایسا نہ ہوتا توموجودہ کووڈ بحران سے نمٹنے کا انداز بالکل مختلف ہوتا۔جموں صوبہ سے لیکر کشمیر صوبہ تک ہمارے سبھی ڈپٹی کمشنروں کے پاس کورونا بحران سے نمٹنے کا واحد آلہ ابھی بھی لاک ڈائون ہی ہے جبکہ دنیا لاک ڈائون سے بہت آگے نکل چکی ہے ۔دارالحکومتی شہر سرینگر کا نصف سے زیادہ حصہ لاک ڈائون میں ہے ۔یہی حال گاندربل ،اننت ناگ اور بارہمولہ اضلاع کا ہے جو مکمل طور زیر لاک ڈائون ہے جبکہ جموں صوبہ کے کئی اضلاع میں بھی جزوی سے لیکر مکمل لاک ڈائون چل رہا ہے۔ لاک ڈائون کے پیچھے یہ دلیل دی جارہی ہے کہ کورونا کیسوں میں اضافہ ہورہا ہے۔بلا شبہ کورونا کیسوں میں اضافہ باعث تشویش ہے لیکن اس رجحان سے نمٹنے کا واحد آلہ لاک ڈائون نہیں ہے۔
کووڈ انیس وبا کے ابتدائی ایام میں پوری دنیا میںلاک ڈائون نافذ کیاگیا کیونکہ اُس وقت تجربہ کی کمی تھی لیکن جوں جوں یہ مرض پھیلتا گیا اور تقریباً پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیکر کئی ماہ تک مفلوج کرکے رکھا ،تو دنیا سمجھ گئی کہ لاک ڈائون نافذ کرکے ہم اپنے آپ پر دوہری تلوار چلا رہے ہیں ،جہاں لاک ڈائون کی وجہ سے معیشت مفلوج ہوچکی ہے وہیں غربت میں بے پناہ اضافہ ہوا جبکہ عام مریضوں کو علاج کیلئے ترسنا پڑا۔ایک عالمی سروے کے مطابق کووڈ بحران کے دوران کورونا سے کہیں زیادہ لوگ عام بیماریوںکی وجہ سے مر گئے کیونکہ انہیں طبی سہولیات تک رسائی نہیں ملی ۔مذکورہ سروے کے مطابق مسلسل لاک ڈائون اور ہسپتالوں پر کووڈ بوجھ کی وجہ سے عام مریضوں کا کوئی پرسان حال نہ تھا اور وہ خاموش موت مرگئے جبکہ اُن کا کہیں ریکارڈ تک نہ رکھاگیا۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے ۔ہمارے جموںوکشمیر میںبھی مسلسل لاک ڈائون سے معیشت لرزہ براندام ہے ۔غربت نے وسیع آبادی کو نان شبینہ کا محتاج بنا یا ہوا ہے اور اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ عام مریضوںکو آج بھی ہسپتالوں میں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کیونکہ ہسپتالوں نے اپنے آپ کو زیادہ تر کووڈ مریضوںکیلئے وقف کیا ہوا ہے۔
اس طرح کی صورتحال قطعی اطمینان بخش قرارنہیں دی جاسکتی ہے بلکہ یہ تباہ کن ہے کیونکہ اس کے دور رس منفی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔مانا کہ کورونا کو ہم تاحال مات نہیں دے سکے ہیں اور یہ وائرس ہمارے سماج کے رگ و پے میں سرایت کرچکا ہے لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہم وہی نسخہ آزماتے رہیں جو اب دیگر جگہوں پرمتروک بھی ہوچکا ہے ۔لاک ڈائون کا نسخہ اب متروک ہوچکا ہے اور دنیا لاک ڈائون سے آگے اب سمارٹ ان لاک پر عمل پیرا ہے جہاں زندگی کا ہر شعبہ کھلا ہے لیکن تمام احتیاطی اور حفاظتی اقدامات کے ساتھ لیکن ہم ہیں کہ ہم ابھی بھی لاک ڈائون سے چھٹکارا حاصل نہیں کرپارہے ہیں۔کورونا کیسوں کے بڑھنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ آپ آبادی کو یر غمال بناتے رہیں ۔اُن غریبوں اور مزدوں کا کیا بنے گا جو آپ کے لاک ڈائون کی وجہ سے روزی روٹی سے محروم ہورہے ہیں،اُن ٹرانسپورٹروں کا گھر کون چلائے گا جن کی گاڑیاں آپ کے لاک ڈائون کی وجہ سے بند پڑی ہیں،اُن دکانداروں اور کاروباریوں کے چولہے کون جلائے گا جن کا کاروبارآپ کے لاک ڈائون کی وجہ سے بند پڑا ہے؟۔
لاک ڈائون کسی وقت ایک مؤثر ہتھیار سمجھا جاتا تھا لیکن اب لاک ڈائون کے منفی ومثبت اثرات کا جب تجزیہ کیاگیا تو پایا گیا کہ اس کے مثبت کم اور منفی اثرات زیادہ ہیں ،یہی وجہ ہے کہ دنیا میں لاک ڈائون کا سلسلہ بند ہوچکا ہے اور اب سمارٹ اَن لاک کا سلسلہ چل پڑا ہے جہاں سبھی شعبہ ہائے زندگی کھلے ہیں اور لوگ یہ مان کر چلے ہیں کہ اُنہیں وائرس کے ساتھ ہی فی الحال جینا ہے۔المیہ دیکھیں کہ یہاں بین ضلعی اور بین صوبائی ٹرانسپورٹ پر ابھی بھی پابندی ہے ۔سرینگر سے جموں یا جموں سے سرینگر ٹرانسپورٹ ابھی بھی بند ہے جبکہ باقی ملک میں بین صوبائی اور بین ضلعی کُجا ،بین ریاستی ٹرانسپورٹ کب کا چل پڑا ہے ۔اب ہماری انتظامیہ کو کون سمجھائے کہ ایسا کرکے آپ خود وزارت داخلہ کی ہدایات کی نافرمانی کے مرتکب ہورہے ہیں۔چند روز قبل وزارت داخلہ کو پھر واضح کرنا پڑا کہ بین ضلعی اور بین صوبائی کے علاوہ بین ریاستی ٹرانسپورٹ پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہئے اور اگر کہیں ایسا چل رہا ہے تو اس پر فوری قدغن لگائی جانی چاہئے۔شاید وزارت داخلہ کو جموںوکشمیر کے حوالے سے ہی یہ شکایت موصول ہوئی تھی کیونکہ باقی ملک میں کہیں بھی اس طرح کی قدغنیں نہیں ہیں۔
وزارت داخلہ کی تازہ ہدایات کے باجود ابھی بھی بین صوبائی ٹرانسپورٹ بند ہی ہے تاہم اب امید پیدا ہوگئی ہے کہ ہمارے ارباب اقتدار اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کریں گے ۔علاوہ ازیں لاک ڈائون کے آزمودہ نسخہ پر بھی نظر ثانی کرنا ناگزیر بن چکا ہے اور ہمارے بیروکریٹوں کو باقی دنیا میں متروک اپروچ کی تقلید کرنے کی بجائے اپنے آپ میں اختراعی پن لانا چاہئے اور لاک ڈائون سے اب بس کرکے لوگوں کو اس بار گراں سے نجات دلانی چاہئے۔اگر ہماری انتظامیہ اختراعی صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لاسکتی ہے تو کم از کم وہی نسخے آزمائے جائیں جو اس وقت عالمی سطح پر قابل عمل ہیںتاکہ سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کے مصداق کورونا کے پھیلائو کو بھی روکا جاسکے اور عام لوگ بھی دو وقت کی روٹی کمانے سے محروم نہ رہیں۔