اردومخالف رویے:
جب چند شیکھر راؤ نے تلنگانہ میں اردو زبان کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیاتھا ،اُس وقت بھی بھاجپا سرکار نے یہ کہہ کر مخالفت کی تھی کہ ’’اردو‘‘ ہی کیوں’’ہندی‘‘ یا ’’انگریزی‘‘ کیوں نہیں۔بی۔جے۔پی لیڈروں نے راؤ کے اس قدم کو ’’Muslim Appeasement‘‘ سے تعبیر کیا۔اب آپ سمجھیں گے کہ یہ مودی ہی ہے جو اردو مخالف ہے ۔نہیں! جب 1989ء میں یوپی میں اردو زبان کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دے دیا گیا تھا تو اُس وقت اٹل بہاری واجپائی نے بھی اس کی سخت مخالفت کی تھی اور اسے ’’Muslim Appeasement‘‘قرار دے دیا تھا(بہ حوالہ دی وائر اردو،اپریل۳،۲۰۱۷)۔شاید آپ کو یاد ہوگا کہ BSPکارپوریٹر نے علی گڑھ میونسپل کارپوریشن میں جب اردو زبان میں حلف اُٹھا یا تھا تو بی۔جے۔پی کار پوریٹرپشپندرا سنگھ نے اُن کے خلاف مقدمہ درج کرایا کہ اس نے مذہبی جذبات(Religious Sentiments) کو ٹھیس پہنچائی ہے لیکن جب یو پی میں قانون ساز اسمبلی کے نو منتخب دومسلم اُمیدواروں نے اردو زبان میں حلف اُٹھایا تو اُنھیں اس کی اجازت نہیں دی گئی تھی اور ایسا کرنے سے منع کر دیا گیا تھا لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ اُن دو اُمیدواروں سے پہلے 13بی۔جے ۔پی ممبروں نے ’’سنسکرت‘‘ زبان میں حلف اُٹھالیا تھا اور اُنھیں کسی نے ایسا کرنے سے نہیں روکا تھا۔(بہ حوالہ دی وائر اردو،کلدیب کمار،اپریل۔۳، ۲۰۱۷ء)۔کیا سنسکرت زبان میں حلف اُٹھانے سے 5کروڑ اردو بولنے والوں کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچ سکتی؟ یہاں بھی یہ سوال کھڑا ہو سکتا ہے کہ سنسکرت زبان میں ہی حلف کیوں اُٹھایا گیا، انگریزی یا ہندی زبان میں کیوں نہیں؟۔ سنسکرت زبان جو مُردہ زبان قرار دی گئی ہے اور ہندستان میں محض 24ہزار لوگوں کی زبان ہے ؛ اُسے اردو کی جگہ بٹھانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔آپ کے علم میں یہ بھی ہوگا کہ مودی سرکار نے اُتراکھنڈ میں ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارمز کے نام جو انگریزی، ہندی اور اردو میں بالترتیب لکھے ہوئے ہوتے تھے اب اردو کو ہٹا کراس کی جگہ سنسکرت نے لے لی ہے۔ اب پلیٹ فارمز کے نام انگریزی، ہندی اور سنسکرت میں بالترتیب لکھے ہوئے ملیں گے۔ 2010ء میں اُتراکھنڈ میں سنسکرت زبان کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دے دیا گیا تھا۔ اُترا کھنڈ کی کل آبادی 1.01کروڑ ہے۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق اُترا کھنڈ میں سنسکرت زبان بولنے والوں کی تعداد 386ہے جب کہ اردو بولنے والوں کی تعداد 425752ہے لیکن دوسری سرکاری زبان ہونے کا فائدہ اُٹھا کر ’’اردو‘‘ کو ہٹا دیا گیا اور اُس کی جگہ ’’سنسکرت‘‘ کو لایا گیا ۔اس تناظر میں جب Swapna Liddleجو کہ تاریخ داں ہیں، سے پوچھا گیا تو اُنھوں نے کہا:
"I think that this move is less about including Sanskrit and more about removing Urud. This panders to the common misconception that Urdu is somehow a 'foreign' language that we should be less proud of."(Source, Interview with New Indian Express in Sabrang,Jan.23,2020)
حقیقت بھی اسی بات کی طرف اشارہ کرتی ہے اور مودی سرکار اس بات کو لے کر سنجیدہ بھی ہے کہ اردو زبان ہندستان کی زبان نہیں ہے بلکہ یہ باہر سے مسلمان حکمرانوں کے سنگ یہاں آئی ہے۔ اب یہاں پر ایک سوال قائم ہوتا ہے ۔ مان لیا جائے کہ اردو ہندستان کی زبان نہیں ہے بلکہ اسے اُن حکمرانوں نے یہاں لایا ہے جنھوںنے ہندستان پر حملے کیے اور مودی سرکار کے مطابق ہندستان کو لوٹ لیا ہے ۔اب آپ بتائے اُن حکمرانوں کے ذریعے لائی گئی زبان کو آپ باہر کا رستہ تو دکھا رہے ہیںلیکن اس زبان کے بولنے والے 5 کروڑ لوگوں کے حق میں آپ کا کیا فیصلہ ہے؟ جن کے ساتھ تم نے کبھی انتخابی مہموں میں اردو اسکول کھولنے کے وعدے کیے تھے، مسلمانوں کو اُن کی ’’Comfortable‘‘ زبان یعنی ’’اردو‘‘ میں تعلیم دینے کے وعدے کیے تھے اور تو اور جب آر۔ایس۔ایس لیڈر اندریش کمار چھٹی اردو کانفرنس میں اس بات کی یقین دہائی کراتے ہیں کہ سنگ پریوار کا اردو زبان کے تئیں نقطہ نظر کافی اطمینان بخش ہے اور وہ ہندستان کی مشترکہ تہذیب کو زندہ رکھنے کا خواہاں ہے۔ راجستھان میںمودی سرکار کی مہربانی سے وہاں کے اردو میڈیم اسکولوں کو ہندی میڈیم اسکولوںمیں ضم کر دیا گیا تھاتاکہ ہندی میڈیم اسکولوں کو فائدہ پہنچے۔اُس کے بعد کیا ہوا کہ اردو اساتذہ کو تعینات کیا گیا اور نہ ہی اردو زبان میں امتحانی پرچے دستیاب کیے گئے تھے اتنا ہی نہیں بلکہ نصابی کتب بھی اردو زبان میں دستیاب نہیں کرائی گئیں۔(دی وائر اردو،۳۰ مئی،۲۰۱۷ء)۔2019ء میں مودی سرکار نے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ساتھ ایک ایسا قدم اُٹھا نے کا ارادہ کیا تھا کہ سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ہوا یوں کہ مودی سرکار چاہتی تھی کہ قومی کونسل ایک ایسی مہم کا آغاز کرے جس میں بالی وڈ کے اداکار شاہ رخ خان، سلمان خان اور کترینہ کیف کو اردو کے فروغ کے لیے منتخب کیا جائے۔اس فیصلے پر بہر حال ٹویٹر پر بہت تنقید ہوئی تھی اور اس پر کافی مزاق بھی اُڑایا گیا تھا۔اس پر ایک بہترین ٹویٹ یوں کیا گیا تھا:
"Sallu and Katrina??? Well it looks like this move is to ensure Urdu dies an accidental death."
یہ فیصلہ اپنے آپ میں ایک مزاق تھا کہ اردو کے فروغ کے لیے ایسے اداکاروں کا انتخاب کیا گیا تھا جنھیں اردو زبان کے ساتھ دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔خیر شاہ رخ خان تو کم سے کم اچھے تلفظ کے ساتھ اردو بول پاتے ہیں لیکن سلمان خان اور کترینہ کیف کا تو خدا ہی حافظ ہے۔ کترینہ کیف کی تو ہندی بھی ما شا اللہ درست نہیں ہے ،اردو کی توبات ہی نہیں ہے۔اس ضمن میں یہ بھی سوال اٹھایا گیا تھا کہ اگر بالی وڈ میں جاوید اختر، گلزار، شبانہ اعظمی اور نصیر الدین شاہ جیسے لوگ موجود ہیں تو ایسے اداکاروں کا انتخاب کیوں جنھیں اردو کی سدھ بدھ بھی نہیں ہے۔
جموں وکشمیر میںحکومت کے اردوکُش اقدامات:
جموں و کشمیر کا بھی یہی حال ہے۔اگست2019ء میں جب جموں و کشمیر کو مرکزی خطہ(Union Territory) قرار دے دیا گیاتو اب ’ریاست ‘کے ساتھ ساتھ ’’اردو زبان‘‘ پر بھی ڈاکہ ڈالنے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور مودی سرکار اس کوشش میں ہے کہ جموں و کشمیر میں ’’اردو‘‘ کی بجائے’’ہندی‘‘ کو سرکاری زبا ن کا درجہ دیا جائے۔اس ضمن میں Maghav Kohliنے ہائی کورٹ میں PILداخل کی تھی جس میں واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ:
"This provisionis is to adopt Hindi as the official language of the UT in order to give representation to Hindi language. "(Sabrang, July 10,2020)
مزید اس PIL میں کہا گیا ہے کہ:
"Hindi is the National language so it would be an Official language of the Union Territory of J&K. Urdu will also be given its dua place. English will also be used as it is being used currently."(ibid)
جموں و کشمیر کو مرکزی خطہ (Union Territory) قرار دئیے جانے پر بی۔جے۔پی کے نیشنل سیکرٹریTraun Chughنے کہا تھا ’’سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اب جموں و کشمیر میں اردو سرکاری زبان نہیں ہوگی بلکہ ہندی اب وہاں کی سرکاری زبان ہوگی۔‘‘یہاں پر ہمیں ایک بات سمجھنا ہوگی کہ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق جموں و کشمیر میں اردو زبان بولنے والو ں کی تعداد 19ہزار 9سوہے جب کہ یہ تعداد 2001مردم شماری کے مطابق 13ہزار 2سوتھی۔اگر ہندی زبان پر نظر دوڑائی جائے تو2011کی مردم شماری کے مطابق جموں و کشمیر میں ہندی بولنے والوں کی تعداد 26لاکھ 12ہزار ہے،جب کہ 2001میں یہ تعداد 18لاکھ 70ہزار تھی۔اگراُترا کھنڈ بات کی جائے تو جو سرکار اردو کے مقابلے میں جوکہ4لاکھ25ہزار لوگوں کی زبان ہے،سنسکرت زبان کو جو کہ محض 386لوگوں کی زبان ہے،کو سرکاری زبان کا درجہ دے سکتی ہے تو جموں و کشمیر میں جہاں ہندی زبان بولنے والوں کی تعداد اردو بولنے والوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے،کو سرکاری زبان کا درجہ دینے میں کیسے پیچھے رہ جائے گی؟۔خیر!اُمید باقی ہے کیوںکہ وادی ٔ کشمیر کی کل آبادی میں تقریباً 70فی صد آبادی ایسی ہے جو اردو لکھنا پڑھنا جانتی ہے ۔دوسری بات یہ کہ سارا دفتری ریکارڈ اردوزبان میں ہے خواہ زمین ہو، Revenueہویا پھر عدلیہ یا پولیس اسٹیشن وغیرہ۔یہ سارا ریکارڈچاہے ہندی زبان میں منتقل ہو جائے یا نہ ہو جائے ہاں اتنا ضرور ہے کہ اگر ہندی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دے دیا گیا تو ایک ایسی زبان ہمارے سروں پر مسلط ہوگی جس کے سامنے ہم بے بس و لاچار اور بے یارو مددگار ہوں گے۔آپ کو یاد دلا دوں کہ اردو زبان کے لیے حالات کس قدر تنگ کر دئیے جاتے ہیں کہ 2017ء میں آر۔ ایس۔ایس سے منسلک Dina Nath Batraنے پانچ صفحات پر مشتمل ایک ایسی فہرست تیار کرکےNCERTکو بھیج دی تھی جس میں لکھا گیا تھا کہ NCERTکی کتب سے فارسی، عربی اور اردو بہ شمول غالب کے اشعار کو نکال باہر کیاجائے۔اس کے علاوہ ہندی کتب میں اس بات کا بھی تذکرہ ہونا چاہیے کہ امیر خسرو نے ہندو ؤں اور مسلمانوں کے بیچ درار کو مزید بڑھاوا دیا تھا۔
اردو اور 2011کی مردم شماری:
اب اگر ہم 2011کی مردم شماری پر اپنی نظر دوڑائیں گے توہندستان میں اردو زبان بولنے والوں کی تعداد2001کی مردم شماری کے مقابلے میں کم ہو چکی ہے۔ 2011میں ہندستان میں اردو بولنے والوں کی تعداد 5کروڑ 7لاکھ اور72ہزار ہے جو کہ ہندستان کی کل آبادی کا 4.19فی صد حصہ ہے جب کہ2001میں یہ تعداد5کروڑ15لاکھ36ہزار تھی جو کہ ہندستان کی کل آبادی کا 5.01فی صد حصہ تھا۔اسی طرح یہ تناسب1991میں 5.8تھا، 1981میں 5.25اور1991میں 5.22تھا۔اب اگر ہم اردو زبان کی تعداد میں اضافے کا تناسب دیکھ لیں گے تو 1981میں 22.08فی صد، 1991میں24.23فی صد، 2001 میں 18.73 فی صد اور2011میں -1.48فی صدہے۔ شیڈول آٹھ میں شامل صرف دو زبانوں کا منفی اضافہ(Negative Growth) ہوا ہے۔اُس میں ایک کونکنی(Konkani)اور دوسری زبان اردو ہے۔اس حوالے سے اردو داں حلقے کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے کہ اردو زبان میں اگر ادب کا ایک بڑا ذخیرہ ہر سال میں جمع ہو جاتا ہے تو اس زبان کے تحفظ اور اس کی ترقی و ترویج کے لیے بھی ہمیں اقدامات کرنے ہوں گے۔ ایک بات تو طے ہے کہ اردو کی موجودہ سیاسی صورت حال ناگفتہ بہہ ہے۔لہذا سرکار سے کوئی اُمید نہیں کی جا سکتی ہے کیوں کہ سرکار خود اردو زبان کا گلا گھونٹنے کی کوشش میں ہے ۔اس حوالے سے اردو اداروں اور انجمنوں کو سنجیدہ ہوتے ہوئے ایک ایسا لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا جس سے اردو زبان کا نہ صرف تحفظ ممکن ہو پائے بلکہ اس کی ترقی و ترویج کے لیے بھی نئی راہیں متعین ہوں ۔
(مضمون نگار کا تعلق چیوہ اُولر، ترال کشمیرسےہے اور وہ حیدر آباد یونیورسٹی کے شعبہ اردوسے ڈاکٹریٹ ڈگری یافتہ ہیں،رابطہ۔9149958892)
(مضمون جاری ہے،اگلی قسط انشاء اللہ
پرسوں سنیچروار کو شائع کی جائے گی۔)