وادی کے سماجی مسائل میں شامل ایک سلگتا ہوا مسئلہ غربت کی وجہ سے لڑکیوں کی شادیوں میں تاخیر ہے۔ اس ضمن میں صورتحال کی شدت کو جانچنے کیلئے چند سال قبل ایک غیر سرکاری رضاکار انجمن نے ایک مفصل سروے بھی کرایا تھا۔ ’’تحریکِ فلاح مسلمین ٹرسٹ‘‘ کی جانب سے کرائے گئے اس سروے کے نتائج میں یہ ہوشربا انکشاف ہوا کہ صرف سرینگر میں دس ہزار ایسی بالغ لڑکیاں موجود ہیں جن کی شادیاں اْنکے والدین کی بدترین مفلسی کی وجہ سے نہیں ہوپارہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ پوری وادی میں ایسی بدنصیب لڑکیوں کی تعداد لاکھوں میں ہوسکتی ہے۔
تاہم یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ کشمیر کے معاشرے میں ایسے لوگوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے، جو اس مسئلے کے تدارک کیلئے انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنی مقدور کے مطابق تعاون فراہم کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اس سال وسط مارچ میں جب کووِڈ 19 کی وبا نے یکسر سماجی اور معاشرتی نظام درہم برہم کردیا تو اس طرح کے سنگین سماجی مسائل کے تئیں ان معاونین کی غالب اکثریت کی توجہ ہٹ گئی۔ محض گنے چنے لوگ ہی و با کے دوران بھی اس طرح کی سماجی مسائل سے متعلق اپنی ذمہ داریاں نبھانے کا عمل جاری رکھ پائے۔ ان گنے چنے لوگوں میں رضا کار انجمن ’مرحم‘ سے جڑی چند تعلیم یافتہ خواتین بھی شامل ہیں۔ سبرینہ ملک اور عرشی قادری نے بے بس کشمیری لڑکیوں اور خواتین کی مدد کیلئے کووِڈ وبا کے دوران ہی ’مرحم‘ کی داغ بیل ڈال دی۔ فی الوقت اس رضاکار انجمن کی ان دونوں بانی اراکین نے دیگر درجن بھر خواتین کے ہمراہ بے سہارا اور بے بس خواتین کی مدد کا بھیڑہ اٹھا رکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ گھریلو تشدد کا شکار خواتین سے لیکر ڈپریشن اور جسمانی معذوری کا شکار یا غربت کی ماری خواتین تک ہر کسی کی مقدور بھر مدد کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ اس ضمن میں ایک خوبصورت مثال سرینگر شہر سے تعلق رکھنے والے ایک معذور اارٹسٹ کی ہے، جس کا تخلیقی کام فروخت کرنے میں ’مرحم‘ سے جڑی رضاکار خواتین نے اس کی مدد کی۔ یا پھر شہر کی ہی ایک معذور لڑکی، جو کشمیری خواتین کے ثقافتی لباس فیرن پر کڑھائی کا کام کرنے میں مہارت رکھتی ہے، کے روزگار کا بندوبست کرنے کیلئے اس کے کام کی تشہیر کرنے اور گاہکوں کو متوجہ کرنے میں اس کی مدد کی۔
مرحم نے چند ماہ قبل ہی ’’ وردھن‘‘ نام کا ایک پروجیکٹ لانچ کیا، جس کے ذریعے شادی کی عمر پار کررہی خواتین کی مالی اور مادی امداد کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ شادی کے بعد لڑکیاں جو نئے کپڑے اپنے ہمراہ سسرال لیکر جاتی ہیں، اْسے مقامی اصطلاح میں وردھن پکارا جاتا ہے۔
عرشی قادری کا کہنا ہے، ’’ہم لوگوں سے دلہنوں کا وردھن بطور عطیہ حاصل کرکے انہیں اْن غریب لڑکیوں کو فراہم کرتے ہیں، جو اپنے بل بوتے پر اس طرح کے کپڑے خریدنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ چونکہ کووِڈ کی وجہ سے ہم سب کی نقل و حرکت محدود ہوگئی ہے، اس لئے امداد جمع کرنے سے لیکر اس کے مستحقین کی نشاندہی تک کا سارا کام ہم سوشل میڈیا کے ذریعے ہی کررہے ہیں۔ ہم شوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں سے مدد طلب کرتے ہیں اور ساتھ ہی مستحقین کو ہم سے رابطہ کرنے کی صلاح بھی دیتے ہیں۔‘‘
تسلسل اور محنت ساتھ کئے جانے والے اس نیک کام میں متعدد خواتین رضاکارانہ طور پر جڑی ہوئی ہیں۔ عرشی نے بتایا ’’اس کام میں سب سے زیادہ قابل ذکر اور قابلِ قدر کردار وہ لوگ ادا کررہے ہیں، جو غربت کی ماری ان لڑکیوں کے لئے نئے کپڑے اور دیگر اشیا فراہم کررہے ہیں۔ ہم معاونین سے یہ امدادی چیزیں حاصل کرکے اسے مستحقین تک پہنچانے کا کام کرتے ہے۔ مجھ جیسی کئی لڑکیاں یہ کام جانفشانی سے کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ اگر ہم اپنے سماج کیلئے اتنا بھی کرپائیں تو پھر کیا کریں گے۔‘‘
’’وردھن پروجیکٹ‘‘ کے کام کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران سرینگر ضلع میں درجنوں دْلہنوں کو نئے کپڑے میسر ہوئے ہیں۔ جبکہ جنوبی کشمیر کے کئی علاقوں میں بھی اس پروجیکٹ کے تحت کام جاری ہے۔
استفادہ حاصل کرنے والی لڑکیوں میں پائین شہر کی عابدہ بشیر (نام تبدیل) بھی شامل ہے۔ عابدہ کی شادی گزشتہ ماہ ہوئی۔ اْس کا کہنا ہے’’ان لوگوں نے مجھے نہ صرف کچھ مہنگے اور نئے کپڑے دیئے بلکہ ضرورت کی چند دیگر چیزیں بھی فراہم کیں۔ میں ان کا یہ احسان کبھی ادا نہیں کرسکوں گی۔‘‘ عابدہ کے والد بشیر احمد پیشے کے لحاظ سے ایک آٹو ڈرائیور ہیں۔ گزشتہ سال پانچ اگست کے سرکاری لاک ڈاون اور پھر اسکے بعد کرونا وبا سے پیدا شدہ حالات اور لاک ڈاون کی وجہ سے بشیر کی مالی حالت سے بد تر ہوکر رہ گئی۔ اس کی بیٹی کا رشتہ چند سال پہلے ہی طے ہوچکا تھا۔ اْس کا کہنا ہے ’’ اب اس شادی میں مزید تاخیر کرنا ممکن نہیں تھا۔ میری بیٹی کے سْسرالیوں کا اصرار تھا کہ شادی ہر حال میں اسی سال ہونی چاہیے کیونکہ ہم اپنی لاچاری کے سبب گزشتہ دو سال سے شادی کی تاریخ ٹالتے رہے ہیں۔ میں اور میری اہلیہ اپنی بیٹی کی شادی کیلئے چھوٹی چھوٹی چیزیں برسوں سے جمع کرتے آئے ہیں۔ لیکن دلہن کے کپڑے اور کئی دیگر چیزیں ہمارے پاس نہیں تھیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اللہ نے غیب سے مدد کی۔‘‘
رضاکار لڑکیوں میں شامل فہمیدہ اختر کا کہنا ہے ’’میں گزشتہ ڈیڑھ سال سے اس مشن کے ساتھ جڑی ہوئی ہوں۔ اس دوران میں نے یہ بات بخوبی سمجھ لی کہ ہمارا معاشرہ ایک زندہ معاشرہ ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ لوگ کس طرح سے امداد فراہم کرنے کیلئے سامنے آجاتے ہیں اور بھر پور فراخدلی کے ساتھ عطیات دیتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر یہ کام ایک مشن سجھ کر ہر ضلع اور ہر گائوں میں شروع کیا جائے تو ہماری کسی بھی غریب بہن کے ہاتھ مہندی رچانے کو نہیں ترسیں گے۔ مجھے تو اب یہ کام عبادت لگتا ہے۔ اس سے مجھے سکون ملتا ہے۔‘‘
سنجیدہ فکر سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ کشمیری خواتین کو درپیش بیشتر مسائل کا حل معاشرتی سطح پر ایک دوسرے کی مدد کرنے کے جذبے کو فروغ دیکر نکالا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں معروف سماجی شخصیت ظریف احمد ظریف کا کہنا ہے، ’’مجھے یہ دیکھ کر بے پناہ خوشی ہورہی ہے کہ ہماری تعلیم یافتہ بیٹیاں سماجی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ ہونے لگی ہیں۔ یہ ایک نیک شگون ہے۔ ہمارے سماج میں خواتین کو درپیش طرح طرح کے مسائل کے تدارک کا کام ہماری پڑھی لکھی بیٹیوں سے زیادہ بہتر طور کوئی اور نہیں کرسکتا ہے۔ کرونا وبا کے ان ناسازگار حالات میں ہمیں بالکل اْسی طرح سماج کے تئیں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہیں، جس طرح ہم اپنے کنبوں کی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم صرف کرونا کی مار نہیں جھیل رہے ہیں، بلکہ ہم مسلسل تین دہائیوں سے جنگ ذدگی سے دوچار ہیں اور اس کانفلکٹ میں کشمیری خواتین کی بڑی تعداد پر افتاد نازل ہوئی ہے۔‘‘
صاف ظاہر ہے کہ خواتین سے جڑے مسائل کو حل کرنے کیلئے سماج میں جانکاری عام کرنے اور اس ضمن میں رضاکارانہ طور کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔