سمندر کی لہریں لحظہ بہ لحظہ ساحل سے ٹکرا کر جو حباب پیدا کر رہی تھیں وہ رفتہ رفتہ از خود معدوم ہوتیا جا رہا تھا۔ مگر کنارے پر بیٹھے فیض کے ذہن میں جو عجیب بُلبُلے بن رہے تھے وہ اس بار زائل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ در حقیقت اس پریشانی کا پتا فیض کے آبائی گا ئو ں کے محلے کی ایک پیچیدہ گلی سے ہوکر سیدھے سلمان کے ژولیدہ گھروندے میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ سلمان جو پیشے سے کچھ سال قبل سرکاری ملازمت سے وابستہ تھا، آج افلاس کی بھیڑیوں میں اسیر ہو کر مرگِ مفاجات کی دہلیز پر بے ہوش پڑا ملتا ہے۔ سلمان کی اس بد حالی کی وجہ اس بحث و تکرار میں پنہاہ ہے جو سبکدوشی سے قبل گائوں کے ایک نامدار آدمی اور اس کے مابین ہوئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اپنی دفتری دستاویزات پر دستخط کرنا بھول جانے کی غلطی اس پر بھاری پڑگئی اور ملازمت سے اسے تا عمر ہاتھ دھونا پڑا۔ سلمان یہ صدمہ سہہ نہیں پایا اور آخر کار دیوانہ ہوگیا ۔اس سانحہ کے بعد سلمان اور اسکے اہلِ خانہ پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا اور پھر وقت بھی ایسا مداری بن کر سامنے آیا کہ جسکی ڈفلی سن کر مہرو ماہ بھی مغموم اور اُداس ہو کر روشنی کھو بیٹھے۔
دورانِ ملازمت تو اُس نے ہر ایک شخص کی کم وبیش امداد کی تھی اور امانت داری سے اپنے فرائض انجام دئیے تھے۔ مگر اب وقتِ تنگدستی لوگ اسے نیچی نظروں سے دیکھ کر بات بات پر اُس پر طنز کے تیز چلاتے تھے۔ لہٰذا وہ اب اپنے ہی محلے میں ایک اجنبی بن کر رہ گیا تھا۔ اس کے مسکن میں اب اسکے دو کمسن ، بن ماں بچّوں کے سِوا فقط اُ داسی، تنہائی اور دیوانگی مقیم تھی۔ فیض تو نابینا تھا مگر باپ کی اس عاجزی، بے چینی ، اور ناداری کو آنکھ والوں سے زیادہ دیکھ بھی سکتا تھا اور محسوس بھی کرسکتا تھا۔ بلاشبہ یہی وجہ تھی کہ جسمانی طور ناقص اور کم عمر فیض گائوں سے ایک شخص کے ساتھ کام کی تلاش میں شہر بھاگ آیا تھا اور اب ہر روز بھِکاریوں کی ایک ٹولی کے ساتھ شہر کی مصروف اور پُر خطر سڑکوں پر نکل کر آنے جانے والوں کے سامنے دستِ طلب پھیلاتا تھا۔ اور ہر رات سڑک کے کنارے اس خیال کو لِحاف کی طرح اُوڑھ کر سونے کی کوشش کرتا تھا کہ ، ’ ’آخر اس سرگزشت میں کس کو قصوروار قرار دیا جائے۔۔۔؟ــــ‘‘
رابطہ؛شلوت، سمبل سوناواری، بانڈی پورہ،موبائل نمبر: 7889440347