وادیٔ کشمیر جہاں پہلے ہی نامساعد حالات اور سیاسی بے چینی سے دوچار ہے وہیں دوسری جانب سماج میں پنپ رہی نِت نئی رسومات ایک نیا دردِ سر بن رہی ہیں۔ہمارا معاشرہ اس قدر بے جا رسومات میں دھنس چکا ہے کہ اب اُن سے باہر نکلنا محال لگتا ہے۔خوشی سے لے کر غمی اور پیدائش سے لے کر موت تک ہمارا ہراہم عمل رسومات تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔نتیجے کے طور پر سماج میں اس قدر برائیاں پنپ رہی ہیںجن کا تصور بھی ماضیٔ قریب میں رونگٹے کھڑا کردیتا تھا۔شادی بیاہ کو ہی لے لیجیے،ہم نے اس مقدس اور پاک رشتے کو اس قدر رسومات کہ نذر کردیا ہے کہ آج نکاح انتہائی مشکل اور بدفعلی نہایت آسان بن چکی ہے۔دیگر عوامل کی طرح دینِ اسلام نے نکاح میں بھی آسانی رکھی ہے لیکن ہماری کج عقلی کہ ہم نے اس آسانی کو اس قدر پیچیدہ بنا لیا کہ اب ایک انسان کی جوانی کا سورج بھی غروب ہوجاتا ہے لیکن نکاح اُس کا خواب بن کرہی رہ جاتا ہے۔ کسی ایک فردِ واحدکو اس کے لیے ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا۔اس میں ہم سب بحیثیتِ مجموعی ملوث ہیںاور اس میں اپنا رول ادا کررہے ہیں۔
وادیٔ کشمیر میں فی الوقت ہزاروں کی تعددا میں ایسے لوگ موجود ہے جو شادی کی عمر پار تو کرچکے ہیں لیکن نکاح کرنے سے قاصر ہیں۔اس کی کئی وجوہات ہیں۔پہلی بڑی وجہ ہے جہیز۔یہ ایک ناسور ہے جو دھیمک کی طرح ہمارے سماج کو چاٹ رہا ہے۔اس کی نا ہی دین میں کوئی جگہ ہے اور قانونی اعتبار سے بھی یہ ایک جرم ہے لیکن اس کے باوجود اس کا خاتمہ ممکن نہیں ہوپا رہا اور نتیجہ ہے ہماری بے حسی ، لالچ اور حکومت کی غفلت شعاری۔والدین کی عمر گزر جاتی ہے اپنی بیٹیوں کے لیے جہیز جمع کرنے میں اور کبھی کبھار تو وہ غیر اخلاقی اور غیر قانونی کام کرنے پر بھی آمادہ ہوجاتے ہیں لیکن ان ساری چیزوں کے باوجود لڑکی کے لالچی سسرال والوں کا پیٹ نہیں بھرتا اور اُس کے والدین کے عمر بھر کی جمع پونجی ہڑپ کرنے کے بعد بھی وہ بیٹی طعن و تشنیع کی نذر ہوجاتی ہے۔ایک لڑکی اگر جہیز نا دے پائے تو اُس کی زندگی جہنم بنا دی جاتی ہے اور نتیجے کے طور پر یا تو اُس کی طلا ق ہوجاتی ہے یا وہ اپنی زندگی کا خاتمہ ہی کر ڈالتی ہے۔جہیز کے ڈر کی وجہ سے آج والدین رحمِ مادر میں ہی اپنی بچیوں کی جان لے لیتے ہیں اور دورِ جاہلیت کی مثال پیش کرتے ہیں ۔تصورکیجیے کہ ایک برائی اور کتنی برائیوں کو جنم دیتی ہے!
شادیوں میں تاخیر کی ایک اور بڑی وجہ ہے فضول خرچی اور بے جا رسومات۔بینڈ باجا،پٹاخے سر کرنا،کیک کاٹنا،ضرورت سے زیادہ ضیافتیں ،مہندی رات،عیدی ،مکان کا چراغاں ،منگنی وغیرہ وغیرہ یہ ساری چیزیں ایسی ہیں جن کا دین کے ساتھ کوئی ناطہ نہیں ۔یہ چیزیں خسارے کے سو ا کچھ بھی نہیں،چنانچہ نکاح جس قدر سادگی سے انجام دیا جائے،اُس میں اُتنی ہی برکت ہے۔لیکن ہمیں برکت سے کیا سروکار ہمیں تو بس خوشامد چاہیے ۔لوگوں کی جھوٹی تعریفیں ہی ہمارا سرمایہ اور دولت ہیں پھر بھلے ہی اولاد کی شادی ایک ہی سال میں ٹوٹ جائے۔ہماری اس بے حسی اور فضول خرچی سے نا جانے کتنے غریبوں کا گلا کٹ جاتا ہے۔وہ شادی کرنا تو چاہتے ہیں مگر آپ کی طرح فضول خرچی نہیں کرسکتے کیونکہ اُن میں وہ استطاعت نہیں کہ وہ بھی آپ کی طرح بینڈ باجا بجائیں،مکان کا چراغاں کریں،دھوم دھام سے جشن منائیں۔المیہ یہ ہے کہ ہم سب مانتے اور جانتے ہیں کہ یہ غلط ہورہا ہے لیکن پھر بھی کوئی اسے ترک کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔کسی نہ کسی کو یہ علم اٹھانی پڑے گی،کسی نہ کسی کو بیدار ہونا پڑے گا،کسی نہ کسی کو یہ مشعل جلانی پڑے گی بھلے ہی ہمارا سماج،ہمارے دوست و احباب،ہمارے رشتہ دار برا مانیں ۔
خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ آئے روز سوشل میڈیا پر ایسی خبریں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ ہماری نوجوان نسل سادگی سے نکاح کو ہی اب ترجیح دے رہی ہے اور اس کار خیر میں بتدریج اضافہ درج ہورہا ہے۔ایسے نوجوان مبارک بادی کے قابل ہیں اورہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔اس رجحان کو مستقبل میں بھی فروغ ملنا چاہیے۔حکومتِ وقت کو بھی چاہیے کہ وہ جہیز جیسے ناسور کے خاتمے کے لیے سخت سے سخت قوانین متعارف کریں اور ساتھ ہی ساتھ شادی بیاہ پر فضول خرچی کرنے والوں کا بھی شکنجہ کسے۔تب جاکر کہیں معاشرے میں سدھار آسکتا ہیں۔ہر فرد کو انفرادی سطح پر اس حوالے سے اپنے اپنے حصے کی شمع جلانی چاہیے کیونکہ فرد ٹھیک ہوگا تو سماج ٹھیک ہوگا،سماج ٹھیک ہوگا کہ تو معاشرہ ٹھیک ہوگا ۔ہمیں اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ایک اور ایک گیارہ ہوتے ہیں اور قطرہ قطرہ ہی دریا بنتا ہے۔
رابطہ۔برپورہ پلوامہ کشمیر
موبائل نمبر۔9596203768