حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام خدا کے حکم سے مرکز توحید یعنی خانہ کعبہ تعمیر کر رہے تھے تو اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل سے یہ دعا بے ساختہ نکلی: اے خدا ہماری نسل سے امت مسلم کو اٹھا تو اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو شرف قبولیت بخشا اور ڈھائی ہزار سال کے بعد 12ربیع الاول بمطابق 20اپریل570ء بروز سوموار کی وہ مبارک صبح تھی جب رحمت الٰہی کے فیصلے کے مطابق اس باسعادت ہستی یعنی پیغمبر آخر الزمان ،امام الانبیاء ، حضرت احمد مجتبیٰ محمد رسول اللہ ﷺ اس دنیا میں جلوہ افروز ہوئے ۔تقریباً ساٹھ پشتوں کے واسطے سے آپ ﷺ کا حسب و نسب حضرت اسماعیل بن حضرت ابراہیم علیہما السلام سے مل جاتا ہے۔ اُسی صدی میں دنیا کی دوطاقتیںتھیں، رومن امپائر مغرب میں اور مشرق میں پرشین امپائر تھیں ۔دونوں میں زر و دولت اور تمدن عروج پر تھا لیکن اخلاقی حالت ناگفتہ بہ اور روح وقلب میں ہر قسم کی بیماری پھیلی ہوئی تھی اور انسان کا رشتہ اپنے خالق سے بالکل ٹوٹا ہوا تھا ۔انسان موجود تھا لیکن شعور نہیں تھااور یہی حال کم وبیش ساری دنیا کا تھا۔اس دور میں ملک عرب کا نمبر خاص تھا ۔ شاعری کے آرٹ میں یہ قوم یقیناطاق اور تجارت میں بھی بہت ممتاز اور چند اخلاقی جوہر بھی انکے اندر خوب چمکے ہوئے تھے۔بہادری ، سپہ گری، فیاضی اور مہمان نوازی تھی لیکن اس سے آگے چلئے تویہ لوگ بالکل مختلف تھے ۔ آج اُسے لوٹ لیا ،کل اِسے ختم کردیا، بے حیائی اورشراب کی محفل جمی تو شام کی صبح ہوگئی،جوئے کی بازی لگی تو جسم سے کپڑے تک اتر گئے اور خون کے انتقام در انتقام کا سلسلہ جو چلا تو صدی کی چھٹی ہوگئی،عمریں ختم ہو گئیں ،پشتیں گذرگئیں اور جھگڑا چکائے نہیں چکتا ۔
یہ تھا چھٹی صدی عیسوی کی آخری تہائی ملک عرب کا اور اسی ملک عرب کے مشہور اور مقدس شہر مکہ میں رحمت الٰہی کے فیصلے کے مطابق اس نور افلاک ، باعث تخلیق آدم ،امام الا نبیاء، سرور دوعالم فخرموجود ،حضرت احمد مجتبیٰ محمدمصطفےﷺ نے اپنے نورانی قددم سے اس ظلمت کدہُ عالم کو منور فرمایا۔اس نور نبوتؐ نے اُجالا شروع کیا ہے تو دنیا طرح طرح کی تاریکیوں اور گہرے اندھیرو ںمیں اٹی ہوئی تھی۔ جہالت نے ایک خدا کی خدائی میں کتنوں کو ساجھے دار بنا دیا تھاا سکا شمار نہیں۔ خاتم النبیینﷺ نے اپنی عظیم الشان اصلاحات کا سنگ بنیاد عقیدہ ٔتوحید پر رکھا۔ سرور دوعالم فخرﷺنے بندہ اور اس کے خالق کے درمیان براہ راست رابطہ قائم کر دیا اور درمیانی واسطوں کو مٹایا۔عرب ہی کی نہیں پوری دنیا کی اصلاح کیلئے اس سے بڑھ کر ضرور ی وقت اور کیا ہوسکتا ۔اور مقام اسکے لئے عرب سے موزوں تر کون ساہو سکتا تھا ۔ زمان ومکان دونوں کے لحاظ سے ولادت ایسی باسعادت اور کون سی ہوگیکہ ایک طرف ملک شام کامحل روشن ہوا تو دوسری طرف ایوان کسریٰ کے چودہ کنگورے گرگئے،مجوس کا آتش کدہ ٹھنڈا ہوگیا،بحیرہ سادہ خشک ہوگیا اور اسکے گرجے منہدم ہوگئے۔نام ’’محمدؐ‘‘ رکھا ۔ لفظی معنی ’’بہت حمد کیے گئے‘‘کے ۔ ذات ستودہ صفات کیلئے اسم بامسمی ۔ دوسرا نام ’’احمدؐ‘‘ پڑا ۔جسکی زندگی حمد میں کئی اور جسے اٹھنا بھی مقام احمد میں ہے ۔اس کیلئے اس سے بہتر نام اور ہوہی کیا سکتا تھا ۔پلے بڑھے ،چلے پھرے ،ملے جلُے ،بچن گزرا کہ خود معصومیت اس بچپن پر فخر کرنے لگی۔ جوان ہوئے تو نیکی اور پارسائی ،طاقت حق اور خدمت خلق بلائیں لینے لگیں ۔جوان ایسے ماحول میں ہوئے جہاں عیش پرستی اور لذت کوشی کی ہر راہ کھلی ہوئی تھی۔ اس ماحول میں اورسن وسال میں محلہ اور بستی والوںنے ،کنبہ اور قبیلہ والوں نے لقب دیا تو کیا ؟ ’’امین ‘‘۔ امین کا لفظ بڑا وسیع اور جامع ہے۔یعنی محمدﷺ دیانت دار بھی ہیں اور راست باز بھی نظریں نیچی رکھنے والے بھی اورسب کی خدمت کرنے والے بھی ۔یہ ہر وقت دیکھنے والوں کی زبان سے یہ شہادت آتی ہے۔
اْمّی لقب :۔رسول رحمت ﷺکالقب ’’امی‘‘ علماء کرام تشریح اس طرح کی ہے۔ اس لفظ کے دو معنی ہیں یاتویہ’’ اُم انفری‘‘ کی طرف نسبت ہے ’’اُم انفری‘‘ مکہ مکرمہ کا لقب ہے ۔لہٰذا’’امی‘‘ کے معنی مکہ مکرمہ کے رہنے والے یا ’’امی‘‘ کے یہ معنی ہیں کہ آپ نے دنیا میں کسی انسان سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا ۔یہ رسول رحمت ﷺ کا بہت ہی عظیم الشان معجزہ ہے کہ دنیا میں کسی نے آپ ﷺ کو نہیں پڑھایا لکھایا مگر اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اس قدر علم عطا فرمایا کہ آپ ﷺ کا سینہ مبارک اولین و آخرین کے علوم ومعارف کا خزینہ بن گیا اور آپ پر ایسی کتاب نازل ہوئی جس کی شان (تبیاناً لکل شئی)ہر ہر چیز کا روشن بیان)ہے۔ حضرت جامی ؒ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ نگار من کہ بہ مکتب نرفت و خط ننوشت ۔بغمزہ سبق آموز صد مدرس شدُ(یعنی میرے محبوب ﷺ نہ کبھی مکتب میں گئے، نہ لکھنا سیکھا مگر اپنے چشم و ابرو کے اشارہ سے سینکڑوں مدرسوں کو سبق پڑھا دیا)ظاہر ہے کہ جس کا استاد اور تعلیم دینے والا خالق عالم جل جلالہ ہو بھلا اس کو کسی اور استاد سے تعلیم حاصل کرنے کی کیا ضرورت ہو گی؟
امام الا نبیاء حضرت احمد مجتبیٰ محمدرسول اللہ ﷺ نے اخوت ومحبت کا ایسا معاشرہ قائم کیا جو چشم فلک نے پہلے کبھی نہ دیکھا ہے نہ دیکھے گا۔کیونکہ اس پوری ارض پر نسل انسان موجود تھی لیکن اپنے اجتماعی وجود کا شعور نہیں تھا اور اسی ولادت باسعادت نے ہی پوری نسل انسان کے شعور ہونے کااعلان ہے۔اورانسان انسانوں کے غلامی سے آزاد کراکے خدائے وحدہ لاشریک کا غلام ہوگیا۔پیغمبرانقلابﷺ کی حیات طیبہ کو دیکھتے ہیں تو امام الا نبیاءﷺ کا پیغام نے انسانی زندگی کے ہر شعبہ کی ایسی اصلاح کی جسکی مثال نہیں مل سکتی ہے۔جو بیک وقت رُوحانی ،اخلاقی ،معاشرتی، معاشی اور سیاسی سب کچھ ہے جسکے دائرے میں انسانی زندگی کا کوئی گوشہ باہر نہیں ہے۔ امام الا نبیاءﷺکے پیش کردہ اصول حکمرانی دنیا کے تمام مشکلات ومسائل کا حل اور نجات آخردی کا ذریعہ ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے ہزار ہاسال پہلے جوحیات بخش پیغام انسانیت کو سنایا تھا، وہ آج بھی من وعن موجود ہے اور رہتی دنیا تک موجود رہے گا۔
نبی آخرالزماں ،امام الانبیاء حضرت احمد مجتبیٰ محمد رسول اللہ ﷺ نے مختصر عرصے میں ایک ایسی مقدس جماعت کو تیار کرلیا جو غیر معمولی شخصیات کے مالک تھے، سرور دوعالمﷺ کے تربیت یافتہ تھے، اور انکی تربیت گاہ مسجد تھی۔ یہیں وہ جگہ تھی جہاں سے ایسے جیالوں کو تیار کیا گیا جو اخلاق و کردار میں اعلی، جو دینی تعلیم کے ماہر تھے، جو قرآن کے حافظ تھے، جو احادیث کو یاد کرنے والے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں ایسی تربیت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پائی کہ وہ میدان کے غازی بھی بنے، دین کے داعی بھی بنے، اور دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کیلے ہجرت کرنے والے بنے، انہیں کی قربانیوں کا یہ نتیجہ ہے کہ آج بھی پوری دنیا میں اہل ایمان پائے جاتے ہیں۔ لیکن آج کے دور کا ایک پہلوقابل اصلاح بھی ہے۔میلاد النبیﷺ کا عقیدہ رکھنامیلاد کے جلوس کااہتمام کرنا تو رسول رحمتﷺ سے اپنی محبت وعقیدت کا اظہار کرنا، میلاد کی خوشیوں کو جزوایمان سمجھنا اپنی جگہ درست اور حق ہے مگر انہیں اس کے تقاضوں کوبھی بہرحال مدنظر رکھنا چاہئے ۔کاش ان عقیدت مندوں کو رسول رحمت ﷺ کی بارگاہ کی تعظیم کابھی کماحقہ علم ہوتا۔ہم سب جس طرح سے ربیع الاول کے مہینے میں امام الانبیا ﷺ سے عشق و محبت کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ عقیدت ہوتی ہے۔ لیکن ہم مسلمانوں کیلئے ضروری ہے کہ اس طرح سے عشق و محبت کا اظہار کیا جائے جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ذریعے ثابت ہو ،خلفاء راشدین اور تابعین نے کیا ہو، اپنی محبت کا مظاہرہ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے کرنا چاہیے۔ ہر کوئی اپنے اپنے طور پر عشق کا اظہار کرتا ہے۔ اگر وہ شریعت کے خلاف ہو تو اس سے روکنا چاہیے۔
رسول اللہ ﷺ کی ولادت باسعادت کا مہینہ ہمارے لیے بہت ہی مقدس و محترم ہے۔ ‘ امام الانبیاء ، حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پرلکھنے والے لکھتے آرہے ہے۔آپ ﷺ کی زندگی کے ایک ایک پہلو پر ہزاروں کتابیں لکھیں جاچکی ہے اور آج بھی لکھی جارہی ہے۔اگر دنیا کے درختوں کو قلم بنا دیا جائے اور سمندر کے پانی کو سیاہی بنا دیا جائے اور ساری مخلوقات کو لکھنے کی صلاحیت عطا کردی جائے، تب بھی وہ سروردوعالم ﷺ کی تعریف کا حق ادا نہیں کر سکتے ہیں۔ ہر ایک مسلمان میںحضرت امام الانبیاء ﷺ سے عشق و محبت کا جوش و جذبہ دکھائی دیتا ہے،بالکل درست ہے اور وہ مسلمانوں کی فطرت میں شامل ہے لیکن اس جذبہ کا حق ادا کرنے کی ضرورت ہے، صرف ایک دن میں اسکا حق ادا نہیں کیا جا سکتا ہے ۔جس حضرت امام الانبیاء ﷺنے پوری زندگی اپنی امت کیلئے مانگا ہو، راتوں کو اٹھ کر اس امت کیلئے آنسوں بہائے ہوں ، میدان عرفات کی کڑی دھوپ میں گھنٹوں اس امت کیلئے دعائیں کی ہوں، کیا ہم ایک دن میں ہی اپنے اس نبی ﷺکا حق ادا کرسکتے ہیں؟بالکل نہیں!۔ذا سوچئے کیا صرف گلی محلوں کو سجا لینے سے اور ایک دن عشق و محبت کے نعرے لگانے سے حق ادا ہوجائے گا! ہم سب دیکھتے ہیں ،جو نوجوان راتوں کو جا گ کر اپنے اپنے علاقوں اور چوک چوراہوں پر سجاوٹ کرتے ہیں چراغاں کرتے ہیں۔ کاش یہ نوجوان نمازپنجگانہ میں بھی دیکھتے ۔ کیا ہمیں نبی محترم ﷺ کی وہ حدیث یاد نہیں آتی کہ نماز میرے آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ کیا ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ایمان اور کفر کے درمیان فرق پیدا کرنے والی چیز نماز ہے۔ ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ دین میں نماز کا درجہ ایسا ہے جیسے جسم میں سر کا درجہ ہے ،بغیر سر کے انسان زندہ ہی نہیں رہ سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے عشق کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن آپﷺ کے تعلیمات پر عمل پیرا کیوں نہیں ہیں۔ اگر ہم عاشق ہیں تواس کا ثبوت بھی تو پیش کریں،عاشق جب عشق میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ صرف تو ہی تو کے عالم میں ہوتا ہے۔ وہ خود کچھ نہیں رہتا ہے ساری خواہشات سب کچھ وہ اپنے محبوب کے نام کردیتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے عشق میں رنگا ہوا دکھنا چاہئے۔ذرا غور کیجیے جتنی تعداد جلسے و جلوسوں میں مسلمانوں کی ہوتی ہے، وہ تمام فجر کے وقت کیوں مسجد میں دکھائی نہیں دیتے ہیں۔ ہم لوگ جلوس میں ہونے کے با وجود ظہر کے وقت کہاں چلے جاتے ہیں ۔
حضرت شیخ سعدؒی کے ان اشعار اختتام کرتا ہوں کہ ؎
مپندار سعدی کہ راہِ صفا۔تواں رفت جز درپے مصطفی۔خلافِ پیمبر کسے رہ گزید۔کہ ہرگز بہ منزل نہ خواہد رسید
’’سعدی! اس گمان میں مت رہنا کہ راہِ اخلاص حضرت محمد مصطفی ﷺ کی اتباع کے بغیر طے ہوسکتی ہے، جو شخص رسول اللہ ﷺ کے خلاف راستہ اختیار کرے گا، کبھی منزلِ مراد تک نہ پہنچ سکے گا۔‘‘ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ سرور دوعالم ﷺ کے صدقہ میں ہم سب کی مغفرت فرما۔بیماروں کو شفادے اور ہماری ہر نیک آرزو کو پورا فرمادے
رابطہ۔ اوم پورہ بڈگام ،9419500008