جموںوکشمیر یونین ٹریٹری کے لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا کا کہنا ہے کہ جموںکشمیر میں ریاستی درجے کی بحالی کا وعدہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں کیا ہے اور اس پر عملد ر آمد ضرور ہوگا۔ایک قومی انگریزی روزنامہ کو دئے گئے انٹرویو میں لیفٹنٹ گورنر نے انتظامی معاملات سے لیکر سیاسی معاملات پر کھل کر لب کشائی کی ہے ۔اس انٹرویو کے بین السطور مطالعہ سے یہی بات ابھر کر سامنے آرہی ہے کہ منوج سنہا جموںوکشمیر میں سیاسی سرگرمیوں کی بحالی میں سنجیدہ ہیں اور چاہتے ہیں کہ تمام سیاسی قائدین آزادانہ ماحول میں اپنی سرگرمیاں انجام دیں۔منوج سنہا کی یہ سوچ قابل ستائش ہے کیونکہ گزشتہ5اگست سے عملی طور یہاں سیاسی سرگرمیاںمفقود ہیں اور کلی طور حکومتی سطح پر سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جارہی تھی تاہم اب گزشتہ دو ایک ماہ سے سیاسی سرگرمیوں پر قدغن کو جزوی طور ہٹا لیاگیا ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ اب رفتہ رفتہ سیاسی سرگرمیاں شروع ہورہی ہیں جو اچھا شگون ہے کیونکہ سیاسی سرگرمیوں کی عدم موجودگی میں ایک یکطرفہ بیانیہ چل رہا تھا جو جمہوری نظام کے شایانشان نہیں ہے ۔
لیفٹنٹ گورنر کو مین سٹریم لیڈران کے انداز گفتگو پر اعتراض بھی ہے جس کا انہوںنے اپنے انٹرویو میں اشاروں کنایوں میں اظہار بھی کیا ہے تاہم یہ جمہوریت کا حسن ہے کہ ہر فرد کو اپنی بات رکھنے کا حق حاصل ہے اور اگر آج مین سٹریم لیڈران موجودہ مرکزی حکومت سے اختلافی مؤقف رکھتے ہیں تو یہ کوئی گناہ قرار نہیں دیاجاسکتا ہے بلکہ انہیں اپنی بات رکھنے کی آزادی حاصل ہے اور یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ سب وہی لوگ ہیں جنہوںنے کل تک ملک کا پرچم تھامے رکھا تھا اور آج بھی عملی طور ملک کے بیانیہ کو ہی آگے لیکر چل رہے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ وہ 5اگست2019کے فیصلوں پر معترض ہیں تاہم ان فیصلوںکا تعلق وفاقی ڈھانچہ سے نہیں بلکہ ایک مخصوص سیاسی سوچ سے ہے اور اگر وہ اُس سوچ کی مخالفت کررہے ہیں تو انہیں قطعی ملک دشمنوں یا غداروں کی قطار میں شامل نہیں کیاجاسکتا ہے ۔
جہاں تک ریاستی درجہ کی بحالی کا تعلق ہے تو بلاشبہ وزیر داخلہ نے پارلیمنٹ نے مناسب موقعہ پر اس درجہ کی بحالی کی بات کی ہے تاہم بحالی کا مناسب موقعہ کب آئے گا،اس بارے میں کچھ وثوق کے ساتھ کہا نہیں جاسکتا ہے کیونکہ عام لوگوں کو قطعی معلوم نہیں کہ مرکزی حکومت یا وزیر داخلہ کے نزدیک مناسب اور سازگار ماحول کی وضاحت کیا ہے ۔بادی ا لنظر میں ریاستی درجہ کی بحالی میں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے کیونکہ حالات اُس قدر خراب نہیںہیں کہ مرکز کو دلّی سے جموںوکشمیر کو کنٹرول کرناپڑے بلکہ مقامی حکومت معاملات کو زیادہ بہتر انداز میں ڈیل کرسکتی ہے تاہم مرکز کو شاید نہیں لگ رہا ہے کہ ابھی حالات موزون ہیں اور آثار و قرائن بتارہے ہیں کہ ریاستی درجہ کی بحالی کا انتظار بھی طویل ہی ثابت ہوگا کیونکہ اسمبلی انتخابات سے قبل اس کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے اور اسمبلی انتخابات ابھی بہت دور ہیں۔
مانا کہ لیفٹنٹ گورنر اپنی طرف سے حکومت اور عوام کے درمیان موجود وسیع خلیج کو پاٹنے کی ہر ممکن کررہے ہیں تاہم عوامی حکومت کا کوئی متبادل نہیں ہے ۔گورنر یا صدر راج کتنا ہی اچھا کیوںنہ ہو،وہ عوامی حکومت کا متبادل نہیں ہوسکتا ہے ۔مانا کہ تیسرے مرحلہ کے پنچایتی الیکشن کو منعقد کرکے حکومت زمینی سطح پر جمہوری اداروںکو مستحکم بنانے میں لگی ہوئی ہے تاہم پنچایتی راج ادارے یا بلدیاتی ادارے قطعی قانون سازیہ کا نعم البدل نہیںہوسکتے ہیں اور نہ ہی ان شہری یا دیہی جمہوری اداروں میں وہ دوریاں مٹ جائیں گی جو فی الوقت حکومت اور عوام کے درمیان پائی جارہی ہیں۔
آپ ڈسٹرکٹ ڈیولپمنٹ کونسلوں کے انتخابات کرائیں یا پنچایتوںکی خالی نشستوں پر ضمنی چنائو کرائیں لیکن پر نالہ پر نالے کی جگہ ہی رہے گا اور کوئی بڑی تبدیلی وقوع پذیر نہیںہوسکتی ہے ۔
سیاسی جمود کو توڑنے کیلئے بڑی تبدیلیاں ناگزیر ہیں اور بڑی تبدیلیاں جبھی آسکتی ہیں جب حکومت بڑی تبدیلیوں کیلئے زمین ہموار کرے ۔اولین فرصت میں برداشت کرنے کا مادہ پیدا کرتے ہوئے جہاں مین سٹریم سیاست کا احیاء لازمی ہے وہیں اُن آوازوں کو بھی سننا پڑے گا جو حکومتی موقف سے مطابقت نہیں رکھتی ہے ۔اس کے بعد بنا کسی مزید تاخیر کے اسمبلی الیکشن منعقد کیا جانا چاہئے اور اس کیلئے حد بندی کا عمل فوری طور مکمل کیاجانا چاہئے اور حد بندی کے اُس عمل کو بھی متنازعہ بنائے بغیر تمام فریقین کو اعتماد میں لیاجا ناچاہئے تاکہ کسی کو حدبندی کے نتیجہ میں معروض وجود میں آنے والے نئے اسمبلی و پارلیمانی حلقوں پر اعتراض نہ رہے ۔اگر ایسا ہوتا ہے تو اعتماد سازی کی فضا قائم کرنے میں مدد مل سکتی ہے جس کے نتیجہ میں حالات پھر خود بخود ریاستی درجہ کی مکمل بحالی کیلئے موافق بن جائیں گے اور مرکزی حکومت کو یہ فیصلے لینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوگی۔