ربیع الاول پیغمبر آخر الزمان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کا مہینہ ہے۔جس میں پورے عالم کے مسلمان بڑے تزک و احتشام کے ساتھ خاتم النبینؐ کے ساتھ اپنی والہانہ عقیدت کا اظہار کرنے کے لئے سیرت کے پروگرام، نعت گوئی کی محفلیں، عید میلادالنبی ؐ کے جلسے، مسجدوں اور خانقاہوں میں عبادت اور خاص دعاوں کے روح پرور اجتماعات، درود و ا ذکار کی مجلسوں وغیرہ کا اہتمام کرتے ہیں ۔ سیرت النبیؐکے گونا گوں پہلوں کو یاد کیا جاتا ہے ۔ نبی آخر الزمانؐ کی سیرت سے لوگوں کو متعارف کرنا اور آپؐ کی تعلیمات کے قریب لینا بلاشبہ ایک عظیم عمل ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت کے اظہار کا ایک عام سا تقاضا یہ بھی ہے کہ ہر مسلمان اپنے محسن اور غم خوار پیغمبرؐ کے اقوال وافعال اور ذاتی، عمومی و عوامی زندگی سے آشنا ہو۔ علامہ ابن قیم ؒ اپنی مشہور تصنیف زاد المعاد میں لکھتے ہیں کہ سیرت کا علم حاصل کرنا ہر مسلمان کے لئے فرض ہے۔اس لئے کہ سعادت دارین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہو ئی ہدایت اور رہنمائی پر ہی مبنی ہے۔لہٰذا ہر وہ شخص جو اپنے لئے سعادت کا طالب ہو،اپنا خیر خواہ اور اپنی نجات چا ہتا ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ہدایت ، آپ ؐ کی سیرت اور آپ کے معاملا ت سے آگاہی حاصل کرنے کا پابند اور مکلف ہے۔یہ اللہ عزّوجل کی طرف سے اس اُمت پر ایک مہتم بالشا ن عنایت و کرم ہے کہ جس نے دنیائے انسانیت کی رہنمائی کے لئے اپنے محبوب پیغمبرسید المرسلینؐ کو مبعوث فرمایا اور آپ ؐ کی سیرت پاک کو رہتی دنیا تک محفوظ رکھنے کا انتظام فرمایا۔حضورعلیہ الصلٰوۃ والسلام کی ذات رسالت مآب کے حوالے سے ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں، اس چیز کا احساس ہمیں ہر لحظ مطمح نظر ہونا چاہئے۔جو قوم اور اُمت جتنی بڑی امانت کی حا مل ہوتی ہے،اتنی ہی بڑی ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے۔ اگر منصب خیر الامم کا ہے تو ذمہ داری بھی اسی نوعیت کی ہوگی۔ لیکن یہ ایک تلخ اور ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے سیرت پاکؐ کو پس پُشت ڈال کر نہ صرف اپنے آپ پر بلکہ پوری انسانیت کے ساتھ ظلم روا رکھا ہے۔واحسرتا۔۔
انسانی زندگی کو روز اول سے ہی استفسارات اور مسائل سے واسطہ رہا ہے۔ ہر دور اور زمانے کے اپنے تقاضہ ہائے حیات رہے ہیں۔ انسان زمان و مکان کے اعتبار سے ان کو پورا کرنے اور نپٹانے میں سرگرداں رہا ہے۔انسانی فطرت کا یہ دائما ہے کہ وہ اپنے زمانے کے مسائل کومنفرد اور بے نظیر سمجھ لیتا ہے اور انہیں حل کرنے کی راہیں ڈھونڈنکالنے کا سہرا اپنے سر باندھ کر فخر کا اظہار کرتا ہے۔وہ اپنے سے ما قبل زمانے کے مسائل و معاملات کو نسبتاًآسان اور سادہ تصور کرتا ہے۔ اس کو اپنے موجودہ زمانہ کے درپیش مسائل و مشکلات ماضی سے زیادہ پیچیدہ اور گنجلک معلوم ہو تے ہیں۔ یہ قدیم و جدید، ترقی و غیر ترقی یافتہ ، ٹیکنالوجی و غیر ٹیکنا لوجی وقت اور زمانے سے انسانی سوچ کاجزء لاینفک رہا ہے۔ بلاشبہ یہ سوچ وہم و گمان کے سوا کچھ نہیں ہے لیکن ساتھ ہی ا س کا انسانی فطرت ہو نے سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ خالق رب السماوات و الارض نے تخلیق انسان کے لمحہ سے ہی اسے دنیا میں درپیش مسائل اور مشکلات کے حل کا باضابطہ انتظام فرمایا ہے۔ اسی مخلوق میں سے اپنے خاص بندوں کا انتخاب کر کے ان کو اپنی خاص نگرانی میں وقفہ وقفہ سے دنیا میں بھیج کر لوگوں کی رہنمائی کی ذمہ داری پر فائز کر دیا۔اللہ سبحانہ و تعالی کے ان چنندہ بندوں نے زندگی گزارنے کے لئے وہ رہنما اصول پیش کئے جن سے نہ صرف لوگوں کو درپیش مسائل کا حل برآمد ہو گیا بلکہ مقصد زندگی کا گوہر ہاتھ لگ گیا۔
ہم آج جس زمانے میں زندگی گزار رہے ہیں اس میں بھی سابقہ ادوار کی طرح ہمیں متنوع مسائل زندگی اور معاملات بود باش کا سامنا ہے۔اگر ایسا کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ پوری انسانیت با لعموم اور امت مسلمہ علی الخصوص مسائل و تنازعات کے بھنور میں پھنس چکی ہے۔ انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی ، قومی و ملی مسائل کے بوجھہ تلے پوری دنیا دب چکی ہے۔ہر آئے دن نئے مسائل اور چلینج نمو دار ہوتے جارہے ہیں۔ان مسائل اور چلینجوں کو حل کرنے کی بات جب ہم بحیثیت مسلمان کرتے ہیں تو ہمارے پاس اس کابہترین حل ہے۔ وہ یہ کہ ہم ان مسائل کو لے کر خاتم النبین حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کی طرف رْخ کریں اور آنحضرتؐ کی تعلیمات اور عملی زندگی جو اسوہ حسنہ(Role Model)یعنی بہترین و کامل نمونہ زندگی ہے ،کو سامنے رکھ کر سر اْٹھائے ہوئے ان مسائل کا حل ڈھونڈ نکالے۔ آپؐ کو کائنات اور پوری انسانیت کے لئے رہنما اور معلم بنا کے بھیجا گیا۔ مسائل کس قدر بھی پیچیدہ ہوں اللہ کے رسول ؐکے اسوہ حسنہ اور تعلیمات میں لازمی طور ان کا بہترین حل اور جواب ملے گا۔ رسول مقبولؐ کے اسوہ حسنہ اور تعلیمات جوعرف عام میں سیرت پاکؐ سے مو سوم ہے، میں سیرت نگاروں نے احتیاط اور ذمہ داری کے ساتھ آپؐ کی زندگی کے ہر قول و فعل کو ریکارڈ کیا ہے۔ذاتی اور نجی زندگی سے لے کرعمومی و عوامی زندگی کی تفصیل کے دفتر کے دفتر سامنے لائے ہیں، جو دنیا میں بقائے با ہمی ،امن و سکون اور عزت و وقار کا دور دورہ قائم کرنے میں یقینی طور مشعل راہ بن سکتے ہیں۔ یہ کوئی ہوائی اور بے بنیاد دعوی نہیں ہے بلکہ ماضی میں دنیا ئے انسانیت کے سامنے اس کا عملی ثبوت آچکا ہے اور دنیا مشاہدہ کر چکی ہے کہ خاتم المرسلینؐ کی تعلیم وتربیت کے زیر سایہ ایک ایسا انسانی سماج تشکیل پا یا جس میں انسان اشرف المخلوق کے اْس مقام پر فائز ہوا جہاں سے خیر ہی خیر دنیائے انسانیت کو منتقل ہوگیا۔ چشم فلک نے خوب دیکھا کہ فساد و بگاڑ ،چھینا جپھٹی، نسلی و قومی عصبیت کا ماحول کیسے امن و اطمینان ،عدل و انصاف اور انسانی مساوات کے پْر مسرت اور شادماں ما حول میںتبدیل ہوکر رہ گیا۔ لیکن زمانہ گزرنے کے ساتھ اور سید المرسلین ؐ کی تعلیمات سے دور جاپڑنے کے نتیجے میں دنیائے انسانیت پھر سے فساد و بگاڑ اور جوروظلم میں ڈھوبتی گئی۔ ہر طرف حق تلفی، عدم مساوات اور بے سکونی پھیل چکی ہے۔ ایسے میں نہ صرف اْمت مسلمہ بلکہ پوری انسانی براداری کو آپؐ کی سیرت کی طرف رجوع کر نا ناگزیر بن چکا ہے تاکہ سسکتی انسانیت کو ایک بار پھر چین نصیب ہو سکے۔
(مضمون جاری ہے ۔اگلی قسط انشاء اللہ اگلے جمعہ کو شائع کی جائے گی)