نظم
خواب تو خواب ہیں
زاغ بیٹھے ہیں سینہ تانے یہاں
کائیں کائیں بھی ان کی چاروں طرف
ساراجنگل ہی دسترس میں ہے
اور قوت کہ چونچ میں ان کی
ہم کہ
بے گانہ سب جہانوں سے
ایک دیمک زدہ سی شاخ پہ ہے
آشیاں جانے کس زمانے کا
دل میں لہراتا اک شکستہ سوال
پیڑ پودوں پہ سبز پتوں کی
جانے کب وہ بہار آئے گی
آرزووں میں جس کی جیتے ہیں
خواب تو خواب ہیں
علاج کہاں؟
گر نہ ہوگی کدال ہاتھوں میں
سبزہ دیوار پر نہیں ہوگا !!
احمد کلیم فیض پوری
گرین پارک ، بھساول
موبائل نمبر؛8208111109
ہارون کی ایک شام
سُرمئی شام کے دُھندلکے میں
اَبر پارے فضا میں بِکھرے ہیں
مست بُوندیں ہوا کے شانوں پر
ایسے رقصاں ہیں جیسے پی لی ہو
دستِ نیساں سے آتشِ صہبا
جانے سُوجھی ہے کیا ہوائوں کو
چھیڑ خانی کا گرم ہے بازار
شاہ بَلوطوں کی جُھولتی شاخیں
یہ صنوبر کے متحرک سائے۔۔۔
ایک دُوجے کی سمت جُھکتے ہیں
لیک ہوتے نہیں ہیں ہم آغوش
دُور دو جھاڑیوںکی بانہوں میں
گُنگُناتی ندی کے ساحل پر
خُوب بوس کو کنارچلتا ہے
ایک بے فکر ـ’’ہپی‘‘ جوڑے میں
یوسف نیرنگ
بوگنڈ، کولگام،موبائل نمبر؛9419015051
بیٹیاں
جب بھی کسی کے گھر میں آتی ہیں بیٹیاں
ہمراہ اپنے رحمت لاتی ہیں بیٹیاں
گھر کی گُھٹی فضاء کو اپنی ادائوں سے،
کِلکاریوں سے اپنی مہکاتی ہیں بیٹیاں
ہر سانس میں وفائیں، ہر ہر قدم وفا ہے
رونق گھروں کی کیسے بڑھاتی ہیں بیٹیاں
خوشیوں کے پھول لے کر آتا ہے دھیرے دھیرے
پہلا قدم جو گھر میںاُٹھاتی ہیں بیٹیاں
دیتی ہیں صبح و شام وہ پُرکیف مسرت
سب کے دلوں کو جم کے لُبھاتی ہیں بیٹیاں
دل کانچ سے بھی گو کہ ہوتے ہیں انکے نازک
دُکھ سُکھ میں ساتھ بڑھ کے نبھاتی ہیں بیٹیاں
لمحے سکون کے بھی ہوتے ہیں سارے رخصت
گھر سے وداع ہوکے جب جاتی ہیں بیٹیاں
ثمینہ سحر مرزاؔ
بڈھون راجوری