سلگتی یاد سے خوں اٹ نہ جائے
دھوئیں سے دل کی کھائی پٹ نہ جائے
نئی فکروں سے بھیجا پھٹ نہ جائے
جو غم میرا ہے سب بٹ نہ جائے
واقعی میں لذتوں کو ختم کرنے والی چیز ’’موت ‘‘ ہے ۔موت ایک ایسی چیز ہے جو انسان کے جذبات وخواہشات کو ختم کردیتی ہیں۔ اس کے آگے بڑے سے بڑے طاقتورں کو بھی اپنے گٹھنے ٹیکنے پڑتے ہیں ۔بحرحال موت انسانی زندگی کا ایک ایسا کڑوا سچ ہے جسے کوئی آج تک جھٹلا نہیں سکا۔اسی ’موت ‘ نے3 دسمبر 2020ء کو ہمارے درمیان ایک ایسی شخصیت کو ابدی نیند سلایا ہے جسے دنیا حنیف ترینؔ کے نام سے جانتی ہیں ۔غزل کی جان اور ہر دل عزیز آواز حنیف ترین ؔکا انداز انہیں اپنے معاصرین سے ممتاز کرتا ہے ۔ان کا لہجہ اس کا غماز ہے کہ وہ ایک غیر جانبدار شاعر ہیں۔بھری محفل میں کڑوا سچ کہنا ان کا خاصا تھا ۔نڈر اور جوش ان کے رگ و پے میں رقصاں تھا ۔ایسے ہی بے باک شاعر کو اگر مزاحمتی شاعری کا دلدارہ کہا جائے تو بیجا نہیں ہوگا ۔
ادب ہر زاویے سے سماج کا آئینہ ہوتا ہے،ادب تخلیق کرنا بنیادی طور پر ایک مزاحمتی عمل ہے۔ چونکہ ادیب سماجی،اقتصادی اور سیاسی جکڑ بندیوں سے آزاد ہو کر سوچتا ہے اس لیے سارا ادب مزاحمتی ادب ہے اور ہر ادیب باغی۔ہر ادیب اپنے زمانے کے ظلم ،جبراور رواں نظام کی بے چینی کو صفحہ قرطاوس پر لانے کی کوشش میں خواں رہتا ہے۔
مزاحمت کی تاریخ حقیقی معنوں میں اتنی ہی پرانی ہے جتنی جبر کی ۔ادب میں مزاحمت کی متعدد صورتیں اور شکلیں ہیں ۔مزاحمتی ادب کو ادب عالیہ میں شمار نہیں کیا جاسکتا ہے بلکہ اسے ہنگامی اور وقتی ادب قرار دیا جاسکتا ہے ۔ اس سب کے باوجود مزاحمتی اور احتجاجی ادب کی اردو ادب میں ایک وسیع تاریخ موجود ہے ۔1857ء کا سال اردو ادب میں مزاحمتی ادب کے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ مزاحمت اردو ادب میں پہلے شاعری میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ میرؔ سے لے کر علامہ اقبالؔتک اس کی رفتار دھیمی تھی لیکن ترقی پسندتحریک کے زیرِسایہ ادباء اور شعراء نے اس کی اہمیت کو دوبالا کردیا ہے ۔ خاص طور سے چکبستؔ،فیض احمد فیضؔ،مجازؔ،حافظ جالندھریؔ،جان نثار اخترؔ،پریم چند،احمد ندیم قاسمی ،منٹو،حیات اللہ انصاری وغیرہ جیسے شہکاروں نے اپنی نگارشات کی بدولت اس موضوع کو وسعت عطا کی۔فیض احمد فیض ؔمزاحمتی ادب کی حمایت میں یوں رقمطراز ہیں:
’’ہمارا یقین ہے کہ ہر سنجیدہ لکھنے والا Commitment رکھتا ہے۔اس کی اپنی ذات سے وابستگی ہوتی ہے اور اپنے فن سے ہوتی ہے۔ اسے اس کی وفا داری کو جو اسے اپنی ذات اورفن سے ہے نبھانا چاہئے اور کسی قسم کے خوف سے اپنی وفاداری اور رائے ترک نہیں چاہئے ،موقع پرستی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔اسے چند ٹکوں کے عوض اپنا فن اور اپنا نظریہ نہیں بیچنا چاہئے۔‘‘
اس اقتباس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ مزاحمتی ادب کسی تحریک یا رجحان سے منسلک نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ایک جنیون ادیب ان چیزوں سے یکسر ادب تخلیق کرتا ہے۔
مزاحمت ڈاکٹر حنیف ترین کی شاعری کا خاصا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری کو ہمارے ناقدین ادب نے سراہا نہیں ہے بلکہ انہیں صرف مشاعروں اور گیتوں تک محدور رکھا گیا ہے ۔انہوں نے دانستہ اور نادانستہ طور پر ہندوستان کے مسلم عوام الناس کے جذبات و احساس کے گیت گائے ہیں ۔بے جا استعارات و علامات سے اپنے شاعری کو دور رکھا ۔سادہ اور عام ڈکشن کے استعمال سے عام لوگوں کے دلوں میں اپنی ایک جگہ قائم کی ہے ۔
انکی غزلیہ شاعری میں مزاحمت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے ۔کبھی راست اور کبھی اشاروں اور کنایوں میں اپنی بات اپنے قارئین تک پہنچاتے ہیں :
راست انداز :
سچ لکھوں گا چاہے مٹ جائوں حنیف
جھوٹ اب مرا نشانہ ہوگیا
اشاروں اور کنایوں میں :
بستی کے حساس دلوں کو چبتا ہے
سناٹا جب ساری رات نہیں ہوتا
جیت حق کی ظالموں کے واسطے
خوں بہانے کا بہانہ ہوگیا
حنیف ترین نے اپنے پر اسلوب اور انداز بیان سے اردو شاعری کو ایک وسعت عطا کی ہے ۔قومی اور بین الاقوامی مشاعروں میں شرکت کرتے کرتے اردو زبان وادب کو مالا مال کیا ہے ۔انہوں نے اپنے بے باک اور غیر جانبدارانہ طرز اظہار سے عام قاری کو کافی حد تک متاثر کیا ہے اور سینکڑوں ایسے اشعار ہیں جو لوگوں کے زبان زد ہونے کے ساتھ ساتھ ضرب المثال بن چکے ہیں ۔مظلوموں کی حمایت اور ظالم پر طنز کرنا ان کی فطرت میں تھا ۔نوجوانوں کو للکارنا انہیں خوب آتا تھا :
کتنی دفعہ تو
بڑھا ،رکا میں اس کی جانب
صدیوں وہ مہکا کر میرا ظاہر و باطن
کئی یگوں تک ،اس نے مجھ کو یاد کیا
اور کہا یہ ،ندی ہوں میں
نائو بنو تم ڈولو مجھ پر ۔۔۔۔
ان کی شاعری میں موضوعات کا تنوع ہے۔حسن و عشق ،دنیا کی بے ثباتی ، شکست و ریخت ، تنہائی ، استحصال ،بوک ،ماضی کی یاد،ظلم و جبر وغیرہ ان کی شعری کائنات میں شامل ہیں ۔بحرحال وقت نے اس نڈر آواز کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا کر دیا ہے لیکن انہوں نے جو شعری وراثت پیچھے چھوڑی ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ جب بھی ہندستان کی مزاحمتی ادب کی تاریخ لکھی جائے گی،حنیف ترین کو فراموش نہیں کیا جائے گا ۔۔۔۔حق مغفرت کرے ۔آمین
ہر روز کی نئی نئی ایجاد نے حنیفؔ
ہر معدن قدیم کو ژولیدہ کر دیا
(مضمون نگار جامعہ کشمیر کے محقق ہیں)