یہ امر باعث اطمینان ہے کہ جموںوکشمیر عدالت عالیہ کی جانب سے روشنی ایکٹ کی منسوخی کے نتیجہ میں مچی عوامی ہاہاکار سے لاتعلقی برتنے کا سلسلہ ختم کرتے ہوئے بالاخر حکومت نے عدالتی فیصلہ پر نظر ثانی کیلئے جائزہ پٹیشن عدلیہ میں دائر کردی ۔گوکہ جموںوکشمیر ہائی کورٹ کی میں اس عرضی کی سماعت اب 11دسمبر کو ہو رہی ہے تاہم اب کم از کم یہ اطمینان ہونے لگا ہے کہ حکومت عوام کے مسائل سے غافل نہیں ہے ۔ایسا بھی نہیں ہے کہ حکومت نے اپنی جائزہ پٹیشن میں روشنی فیصلہ کو کلی طور کالعدم قرار دینے کی بات کی ہے بلکہ حکومت کی جانب سے عرضی دائر کی گئی ہے ،اُس میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ روشنی ایکٹ کی منسوخی کے نتیجہ میں غریب اور امیر مستفیدین میں تمیز کی جائے ۔حکومت کا مؤقف ہے کہ جہاں اس ایکٹ کی آڑ میں کوڑیوںکے دام وسیع سرکاری رقبۂ اراضی حاصل کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے اور ان کے مالکانہ حقوق رد کرنے میں حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہے ،وہیں ایسے غریب لوگوں ،جنہوںنے روشنی ایکٹ کے تحت حاصل کر دہ زمین پر اپنے لئے ایک مکان بنایا ہوا اور ایسے لوگوں ،جن کے پاس اپنی کوئی زمین نہ ہواور روشنی سکیم کے تحت سرکاری اراضی مکان کی تعمیر کیلئے حاصل کی ہو ،اُنہیں راحت دی جانی چاہئے کیونکہ ایسے لوگوںکا کوئی سہارا نہیں ہے تاہم اُن سے موجودہ مارکیٹ قیمتوں کے مطابق اراضی کے مالکانہ حقوق تفویض کرنے کے عوض معاوضہ وصول کیاجاسکتا ہے ۔
گوکہ اس جائزہ پٹیشن میں سی بی آئی تحقیقات کے حوالے سے گزارشات کی ایک لمبی چوڑی فہرست موجود ہے تاہم پٹیشن کی تفاصیل میں نہ جاتے ہوئے اس ایک پہلو کا خیر مقدم کیاجانا چاہئے کہ حکومت کو بالآخر احساس ہوگیا ہے کہ عدالتی فیصلہ کے نتیجہ میں بڑے مگر مچھوںکے ساتھ ساتھ عام لوگ بھی پسے جارہے ہیں جن کو راحت دینا لازمی بن چکا ہے ۔گوکہ ابھی عدالتی فیصلہ آنا باقی ہے کیونکہ پہلے اس جائزہ پٹیشن پر بحث ہوگی اور اگر عدلیہ کو لگا کہ حکومتی دلائل میں وزن ہے تو عدلیہ اپنے فیصلہ میں ترمیم کرکے ان غریب مستفیدین کو راحت دے سکتی ہے تاہم حکومت کا راحت کیلئے عدلیہ سے رجوع کرنا ہی کافی ہے اور یہ دیر آید درست آید کے مصداق فیصلہ ہے جس سے اُن غریب لوگوں کی امید بھر آئی ہیں جنہیں گزشتہ کچھ ہفتوں سے عدالتی فیصلہ کی تعمیل کرتے ہوئے بڑے بڑے اخباری اشتہارات کے ذریعے سرکاری زمین ہتھیانے والوں کے طور پیش کیاجارہا تھا۔ابھی چند روز قبل ہی برستی بارش میں اننت ناگ کا ایک سومو ڈرائیور سرینگر کی پریس کالونی میں تنہا احتجاج کرتے ہوئے روشنی سکیم کے تحت حاصل کی گئی چند مرلہ سرکاری اراضی پر بنائے گئے مکان سے بے دخلی پر ماتم کناں تھا۔مذکورہ ڈرائیور کا صرف اتنا قصور تھا کہ اُس نے قانون کی تعمیل کرتے ہوئے معائوضہ کی رقم ادا کرتے ہوئے اس چھوٹے سے اراضی کے ٹکڑے کے مالکانہ حقوق حاصل کئے تھے اورپھر اپنی عمر بھر کی جمع پونجی اس قطعہ اراضی پر مکان تعمیر کرنے میں لگادی تھی لیکن آج حالت یہ ہے کہ یہ غریب شخص بھی بے گھر ہوگیا اور اس کے پاس اپنے اہل خانہ سمیت اب سر چھپانے کی جگہ تک نہیں رہی ہے۔اس طرح کی بیسیوں مثالیں دی جاسکتی ہیں جہاں غریب لوگ فقط چند مرلہ روشنی اراضی پر اپنا نشیمن بنا چکے ہیں اور آج اُنہیں اپنے آشیانوں سے یہ کہہ کر نکالا جارہا ہے کہ انہوںنے اُس وقت کے ایک حکومتی قانون کے تحت یہ اراضی حاصل کی ہے جو اب غیر قانونی قانون ٹھہرا ہے ۔
عدلیہ کی دانست پر انگلی اٹھانے کا ہرگز سوال ہی پیدا نہیںہوتا ہے تاہم جس طرح گزشتہ چند ہفتوں سے روشنی اراضی مستفیدین کی فہرستیں مشتہر کی جارہی تھیں ،ایسا لگ رہاتھا کہ یہ سب کچھ ایک منصوبے کے تحت ہورہا ہے لیکن اب جس طرح قدرے تاخیر سے ہی حکومت غریب مستفیدین کے دفاع میں آگئی ہے تو معاملاقت اب یکسر تبدیل ہوچکے ہیں۔بلا شبہ ایسے لوگوںکو ایکسپوژ کرنیکی ضرورت ہے جنہوںنے اپنے اثر و رسوخ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کوڑیوںکے دام زیر قبضہ بڑے بڑے قطعات اراضی کے مالکانہ حقوق اپنے نام کروالئے ہیں۔وہ یقینی طو ر پرسزا کے مستحق ہیں اور اُنہیں عوام کے سامنے بے نقاب کرنے میں کسی بھی طرح کے پس و پیش سے کام نہیں لیاجانا چاہئے بلکہ بلا لحاظ مذہب، علاقاعیت اور سیاسی وابستگیوں کے اُنکے کوائف پبلک ڈومین میں ڈالنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی جانی چاہئے تاہم جن غریبوں نے چند مرلے کے مالکانہ حقوق لیکر اپنے لئے چھوٹے سے آشیانے بنالئے ہیں ،اُنکی عزت نفس کو مجروح کرنے کے بیجا عمل سے باز آنے میںہی بہتری ہے ۔
امید کی جانی چاہئے کہ ارباب بست و کشاد پوری قوت کے ساتھ ایسے بے سہارا غریب لوگوں کے مؤقف کا نہ صرف دفاع کریں گے بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنائیں گے کہ اُنہیں اب اُس زمین کا مزید معائوضہ ادا نہ کرنا پڑے، جس کا معائوضہ وہ بہت سال پہلے ادا کرچکے ہیں۔اگر حکومت واقعی ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ غریب عوام کیلئے حکومت کا بہت بڑا تحفہ ہوگا اور لوگ حکومت کی اس خیر سگالی کو ہمیشہ یاد رکھیں گے تاہم اگر محض نمود و نمائش اور عوامی ہمدردیاں بٹورنے کیلئے یہ سب کیاگیا تو اس سے بڑی بدقسمتی کوئی نہیں ہوگی ۔