سرینگر شہر میں کتوں کی خونچکانی کی وجہ سے عوامی حلقوں میں یہ بحث دوبارہ چھڑ گئی ہے کہ کیاحیوانات کے حقوق کیلئے کام کر رہی تنظیموں کے دبائو میں آکر کتوں کی آبادی کو مسلسل بڑھنے دیا جائے یا پھر انسانی نسل کی بقاء کیلئے کتوں کی بڑھتی ہوئی آبادی پر فوری قدغن لگانے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ انسانوں کی طرح حیوانات کے بھی اپنے حقوق ہیں اور انہیں بھی زندگی جینے کا بھرپور حق حاصل ہے لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ حیوانات کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے انسانوں کی زندگی خطرے میں ڈالی جائے ۔
جموں و کشمیر میں بالعموم اور وادی میں بالخصوص کتوں کی آبادی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اب ہر گلی ،کوچے ،نکڑ اور گھر کے سامنے کتا ضرور نظر آتا ہے ۔کتوں کے ہاتھوں انسانوں کے کاٹنے کے معاملات اگر چہ پہلے ہی باعث تشویش تھے لیکن اب صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ صدر ہسپتال سرینگر میں روزانہ ایک درجن سے زائد ایسے افراد علاج ومعالجہ کی غرض سے آتے ہیںجن کو کتوں نے کاٹا ہوتا ہے۔ہسپتالی اعداد وشمار کے مطابق رواں سال کے ابتدائی3 ماہ میں کتوں کے کاٹے ہوئے1ہزار سے زائد افراد نے اس ہسپتال کا رخ کیا ہے جو مفیدریبیز انجکشن لگا کر شفایاب ہوئے ہیں لیکن یہ بات ہی اپنے آپ میں باعث تشویش ہے کہ کتوں کے کاٹنے کے معاملات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے جو اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ وادی میں کتوں کی آبادی بڑھتی ہی جارہی ہے اور کتوں کی آبادی کا یہ بڑھتا ہوا تناسب کسی بھی لحاظ سے انسانی آبادی کیلئے کوئی خوش کن اطلاع نہیں ہے ۔
ماحول میں قدرتی توازن برقرار رکھنے کیلئے ہر شئے ،چاہئے وہ جاندار ہو یا بے جان ،اپنے آپ میں قیمتی ہے اور ان عناصر کی عدم موجودگی میں انسانی بقا ء کے بار ے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا ہے لیکن جب یہ توازن بگڑجاتا ہے کہ تو مسائل پیدا ہوجاتے ہیں ۔ایک مخصوص حد تک کتوں کی آبادی ماحولیاتی توازن قائم رکھنے کیلئے لازمی ہے لیکن جب یہ تناسب حد سے متجاوز ہو تو کتوں کی موجودہ وبا ء کی صورت میں ایک سنگین بحران کا پیدا ہونا فطری عمل ہے ۔ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنا شہریوں اور حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن جہاں تک کتوں کی آبادی پر چیک لگانے کا تعلق ہے تو اس میں عام شہریوں کا کوئی رول نہیں ہے بلکہ یہ سرکار کی ذمہ داری ہے کہ وہ بلدیاتی سہولیات کا لحاظ رکھتے ہوئے آوارہ اور پاگل کتوں سے اپنے شہریوں کی حفاظت یقینی بنائے ۔
جہاں تک سرکار کا تعلق ہے تو یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ سرکار نے آج تک اس حوالہ سے کوئی سنجیدہ اقدام ہی نہیں کیا اور ہر بار منیکا گاندھی جیسے حیوانات کے حقوق کیلئے کام کرنے والے افراد کی جانب سے ایسی کارروائیوں پر صدائے احتجاج بلند کرنے کے امکان کا بہانہ بنا کر متعلقین نے اپنے فرائض سے چشم پوشی اختیار کی ۔سرینگر میونسپل کارپوریشن نے گوکہ چند برس قبل کتوں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے پریشان ہوکر ان کے خلاف آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیاتھا اور کتوں کی آبادی میں کمی لانے کے نشانے بھی مقرر کئے گئے تھے تاہم یہ بھی سچ ہے کہ یہ سارا عمل کاغذی گھوڑے دوڑانے کے سوا کچھ نہ تھا کیونکہ عملی طور پرکچھ ہوتے ہوئے نہیں دیکھا گیا ،ماسوائے چند ایک کتوں کی نسبندی کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ اس اقدام سے کتوں کی بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پایا جاسکے گا لیکن کچھ وقت بعد ہی نسبندی کا سلسلہ یہ کہہ کر بند کیا گیا کہ یہ انتہائی مہنگا اور کٹھن عمل ہے ۔
پہلے پہل یہ ہوتا تھا کہ زہر دیکر کتوں کو مارا جاتا تھا لیکن منیکا گاندھی جیسے افراد کی جانب سے اس کارروائی پر عدالتی امتناع لانے کے بعد یہ سلسلہ بند کیا گیا ۔اس کے بعد اگر چہ ممبئی ہائی کورٹ نے مجبوری کی صورت میں کتوں کو ٹھکانے لگانے کی مشروط اجازت دے دی تھی لیکن نہ جانے کیوں ہمارے یہاں ارباب اقتدارصرف امتناعی حکمنامہ کا ذکر کرتے پھرتے ہیں اور مشروط اجازت کا حکم جیسے ان کی نظروں کی گزرا ہی نہیں ہے۔ایک سروے کے مطابق اگر کتوں کی آبادی پر فوری قدغن نہ لگائی گئی تو آنے والے بیس برس کے بعد سرینگر شہر میں کتوں کی آبادی انسانی آبادی کے برابر ہوگی ۔اُس صورت میں انسانوں کی حالت پھر کیا ہوگی ،اُس کیفیت کو محسوس کرنا مشکل نہیں ۔
اس سے پہلے ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ کر اُس وقت کے آنے کا انتظار کریں ،ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سنگین بحران کی جانب فوری توجہ دی جائے اور آوارہ اور پاگل کتوں کی وبأ پر قابو پانے کے جتن کئے جائیں ،نیز ہسپتالوں میں اس حوالہ سے معقول طبی انتظامات کرنے کی ضرورت ہے اور وادی کے ہر طبی مرکز پر انٹی ریبیز انجکشن دستیاب رکھے جائیں تاکہ بوقتِ ضرورت کتوں کے کاٹے ہوئے مریضو ں کوصدر ہسپتال کا رخ کرنے کی بجائے اپنے ہی علاقوں میں معقول طبی نگہداشت مل سکے۔