چند ماہ قبل ہی نثار کا تبادلہ اس بڑے شہر میں ہوا تھا لیکن جلد ہی اُس کا دل اس شہر سے اُکتا چُکا تھا ،یہاں مکان تو بڑے بڑے تھے لیکن اُن میں رہنے والوں کے دل مادیت کی ہوا سے سُکڑ کر رہ گئے تھے ۔۔۔جس محلے میں وہ رہتا تھا وہاں ہر مکان کے ارد گرد اُونچی اُونچی دیواریں اس طرح کھڑی تھیں جیسے یہ مکان نہیں کوئی جیل ہو،
کہاں اُس کا گاؤں ، تازہ ہوا ،شفاف پانی ، یہ کُھلے میدان ، وسیع و عریض کھیت ہرطرف پھیلے ہوئے۔ اس پار سے نظر ڈالتے تو اُس پار سے باہر ہوجاتی ۔۔نہ کوئی باڑ نہ ہی دیوار۔۔۔سانجھے دل، سانجھے آنگن ،سانجھے کھیت ، سانجھے رشتے اور سانجھے روایتی کھیل ۔۔ہر آنگن میں شور و غُل مچا ہوا ،کون سا بچہ کس کا ہے کوئی پہچان ہی نہیں پاتا جب تک نہ غور سے دیکھ لے ۔۔لیکن شہر میں بُلند و بالا عمارتیں ،کیا سڑکیں اور کیا فٹ پاتھ تمام جگہوں پر لوگوں کا ناجائز قبضہ ،کوئی پیڑ نہیں ،کوئی میدان نہیں ،جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر ،عفونت سے اٹے کوچے اور گلیاں ۔۔۔گاؤں میں تو وہ کبھی کبھار تین چار میل پیدل چل کر بھی گھر پہنچ جاتا تھا لیکن یہاں شہر میں……. ،،توبہ توبہ دُھول ،مٹی ، گاڑیوں کا سیاہ کالا دُھواں اورہارنوں کا شور ، ایک شور و غوغا مچا ہوا ۔۔۔،،
کافی دیر سے وہ بس اسٹاپ پر کھڑا گاڑی کا انتظار کر رہا تھا۔ اب تو اُس کے کپڑے بھی جولائی کی دُھوپ میں پسینے سے بھیگ چُکے تھے اور وہ بار بار جیب سے رومال نکال کر ماتھے کا پسینہ پونچھتا ۔اُس نے دُور سے آتی ہوئی گاڑی دیکھی تو اُس کی جان میں جان آئی،اُس نے بیگ کاندھے سے لٹکایا اور چھلانگ لگا کر گاڑی پر سوار ہوگیا، جیسے تیسے اُس نے اپنا جسم گاڑی کے اندر داخل کر دیا لیکن گردن باہر ہی رہی ۔گاڑی منزل کی جانب چل پڑی تو اُس نے اطمینان کا سانس لیا ۔۔۔۔،،ڈیڑھ دو کلومیٹر چلنے کے بعد سڑک پر ایک لمبا اور بد ترین جام لگ گیا کہ دفعتاً اُس کی نظر سڑک کے اُس پار پڑی ،،
ارے….! یہ تو نرگس ہے۔۔۔۔،،
اُس نے غور سے دیکھتے ہوئے خود سے کہا۔
وہ اپنے دو بچوں کی انگلیاں پکڑ کر اپنے شوہر کے ساتھ ایک شاپنگ مال سے نکل رہی تھی ۔اُس کے چاند جیسے دو بیٹے دیکھ کر اس کو اپنی سوچ پر افسوس ہونے لگا ۔اتنے میں گاڑی چل پڑی اور اُسے بھی خالی سیٹ مل گئی۔ وہ بیٹھ گیا لیکن اُس کا ذہن ابھی بھی نرگس میں ہی اُلجھا ہوا تھا جو ایک قیمتی گاڑی میں سوار ہو چکی تھی ۔۔۔۔،،
نرگس اُسی کے گاؤں کی ایک سیدھی سادھی لڑکی تھی۔۔۔۔سرو قد ،کمر پتلی ،لمبے سُنہری بال، سُرخ اور بھرے بھرے گال، کاجل بھری آنکھیں، موتی جیسے دانت ،کھلکھلاتی تو ایسا لگتا جیسے سوکھے اخروٹ آپس میں ٹکرا رہے ہوں۔۔۔،،دفتر سے آتے. جاتے کئی مرتبہ اُس کی نظریں نرگس سے ٹکرائیں،جو اکثر کھیتوں سے گُزر رہی ہوتی،اُس کے چلنے کا انداز نثار کے دل کو بھا گیا۔ وہ دیکھتے ہی نرگس پر فدا ہوگیا ،نرگس نے بھی خوبرو اور بانکا جوان دیکھ کر محبت کی تپش پہلی بار محسوس کی۔ نثار اُس کی بھولی بھالی صورت اور معصوم باتوں پر فریقتہ ہو چُکا تھا۔۔۔۔،،سال بھر محبت کا یہ سلسلہ چلتا رہا پھر بات دو اجسام کو ایک کرنے تک پہنچ گئی ۔نثار متوسط گھرانے کا لڑکا تھا اورگُزارا بھی ٹھیک ٹھاک تھا ۔دونوں خاندانوں کی رضامندی سے سگائی کی رسم ادا ہوگئی۔ چھ ماہ بعد ہی نثار کے گھر والے بہو کی رُخصتی کے لئے زور دینے لگے تو نرگس کے باپ نے بھی غنیمت جانا کہ بیٹی جتنی جلدی اپنے گھر چلی جائے اچھا ہے ۔انہوں نے شادی کی تاریخ مقرر کردی اور ایک ماہ کے اندر وداعی کی بات طے ہو گئی ۔شادی کی تیاریاں زوروں پر تھیں کہ نرگس کے پیٹ کے نچلے حصے میں.ایک بار پھر شدید درد اُٹھا۔ درد کی شکایت تو اُس نے پہلے بھی کی تھی لیکن گھر والوں نے زیادہ دھیان نہیں دیا لیکن اب کی بار دورانِ ماہواری حیض کا اخراج زیادہ ہوا تو گھر والے گھبرا گئے اور اُسے اسپتال پہنچایا گیا۔ جہاں ڈاکٹر صاحبہ نے اُس کی تشخیص کی، ٹیسٹ وغیرہ کی رپورٹیں دیکھنے کے بعد معلوم پڑا کہ اُس کی رحم (uterus) میں (Cyst) رسولی بن گئی ہے۔یہ سُن کر افرادِ خانہ ششدر رہ گئے اور پریشانی کے عالم میں ڈوب گئے ۔اُن کی یہ حالت دیکھ کر ڈاکٹروں نے اُنہیں تسلی دیتے ہوئے سمجھایا کہ گھبرانے کی کو ضرورت نہیں ہے آج کل سائنس نے کافی ترقی کر لی ہے، لیپرا اسکوپی کے ذریعے رسولی نکال لی جائے گی لیکن اس کے بعد بچہ پیدا ہونے کے امکان نہایت ہی کم ہیں ،ہمارا کام ہے اوپریشن کرنا باقی سب تو خُدا کے ہاتھ میں ہے ۔ادھر نرگس کی طبیعت کے بارے میں سُن کر اُس کے سُسرال والے بھی دوڑے دوڑے اسپتال پہنچے تھے ،ڈاکٹروں کے کہے الفاظ سُن کر ساس اور سُسر سوچ میں پڑ گئے کہ اب کیا کیا جائے ؟
اس سےپہلے کہ وہ کچھ بولتے نثار نے یہ کہہ کر یہ رشتہ توڑ دیا کہ انسان وارث کے لئے شادی کرتا ہے ،جب بچے ہی نہیں ہونگے تو اولاد کا سُکھ کون دے گا۔۔۔۔؟ میرا نام لینے والا کون ہوگا۔۔۔۔؟
نثار کے مُنہ سے یہ بات سُن کر نرگس کے دل کو زبردست دھچکا لگا اور وہ ڈپریشن کا شکار ہوگئی ۔۔۔،،
آخر کا ڈاکٹر صاحبہ نے اپنے معاون ڈاکٹر سلیم کی مدد سے نرگس کا کامیاب اوپریشن کیا۔ اُس کے ظاہری زخم تو جلد مندمل ہوگئے لیکن نثار کے دئیے ہوئے زخم کب ٹھیک ہونے والے تھے۔ ڈاکٹر سلیم بیچ بیچ میں جذبہ خیر سگالی کے تحت نرگس کی خبر گیری کے لئے اُن کے گھر چلا جاتا تھا تو نرگس کی حالت دیکھ کر بہت دُکھی ہوجاتا۔ اُسے نثار پر بے حد غُصہ آتا کہ اُس نے ایک ایسی سیدھی سادھی لڑکی کا دل دُکھایا۔ جو اُسے اپنا مجازی خُدا مان چُکی تھی ۔ نرگس کو نثار کی وہ باتیں یاد آتی تھیں جب وہ اُس کی زلفوں کی تعریف کرتا تو کبھی آنکھوں کی۔اُس کی زبان تو بظاہر بند تھی لیکن آنکھوں سے بہنے والے اشک باطنی حالت بیان کر رہے تھے۔وہ سوچتی کیا یہی اُس کی خطا ہے کہ وہ ایک عورت ہے ؟.کیا اُس نے یہ تکلیف خُدا سے مانگ کر لی ۔کیا مرد ذات اتنی خود غرض ہوتی ہے کہ پل میں سب کچھ بھلا دیتی ہے ۔۔۔۔، کاش وہ لڑکی نہ ہوتی….!
اُس کی زندگی دوراہے پر کھڑی تھی کہ وہ کرے تو کیا کرے۔ والدین کی پریشانی اُس سے دیکھی نہیں جاتی تھی۔وہ ہر نماز کے بعد باگاہِ خُدا وندی میں سربسجود ہوکر گڑگڑاتی کہ اے میرے پرور دگار میری صحیح رہنمائی فرماء ۔۔۔۔،، اُدھر نثار نے نرگس کو بھلا کر نسرین سے نکاح کرکے اپنا گھر بسا لیا لیکن خُدا کی باتیں خُدا ہی جانے ،،،
ایک دن ڈاکٹر سلیم اپنے والد کو لے کر رحیم صاحب کے گھر آگیا۔ ادھر اُدھر کی باتین کرنے کے بعد اُس کے باپ نے نرگس کا نکاح سلیم سے کرنے کی خواہش ظاہر کی تو رحیم صاحب حیران رہ گئے۔ انہوں نے سلیم کے والد کو سمجھاتے ہوئے کہا،،
محترم ۔!یہ جانتے ہوئے بھی آپ سلیم صاحب کا نکاح نرگس سے کرانا چاہتے ہیں کہ نرگس کے ماں بننے کے امکان بہت کم ہیں ….!
انکل ! میرا بھروسہ اللہ تعالی پر ہے اگر میری قسمت میں اولاد ہوئی تو نرگس ضرور ماں بنے گی ،سلیم نے اُن کی بات کاٹتے ہوئے کہا تو رحیم صاحب اُس کی جانب اس طرح دیکھنے لگے جیسے کسی فرشتے کو دیکھ رہے ہوں ۔۔۔۔،،
پھر کُچھ روز کے بعد ڈاکٹر سلیم اور نرگس کا نکاح نہایت ہی سادگی سے ہوگیا۔ جس وقت یہ خبر نثار کے کانوں تک پہنچی تو اُس نے زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ،، وہ ڈاکٹر اُس کے عشق میں پاگل ہو گیا ہے ۔۔۔،، خیر !اُس کا بھی کیا قصور نرگس ہے ہی اتنی پُر کشش کہ ڈاکٹر سلیم ہوش کھو بیٹھا ۔۔۔۔،،دیکھنا ایک دن وہ ضرور پچھتائے گا ۔۔۔۔۔،،
آج جس وقت نثار نے نرگس کے ساتھ دو چاند سے بیٹے دیکھے تو اُس وقت کو کوسنے لگا جب جوانی کے جوش اور دولت کے لالچ میں یہ سوچے بغیر نسرین سے نکاح کرلیا تھا کہ وہ اُس کی نسل کو آگے بڑھائے گی ،وہ سوچنے لگا۔۔۔۔،کاش اُس نے خُدا پر بھروسہ کیا ہوتا تو آج وہ بے اولاد نہ ہوتا ۔۔۔۔۔
���
آزاد بستی بڈشاہ نگر نٹی پورہ سرینگر
موبائل نمبر؛9519463487